عمران خان کی گرفتاری پر کارکنوں کی شرانگیزی
تحریک انصاف کے کارکنوں نے پرتشدد مظاہروں کے ساتھ املاک کو نقصان پہنچایا
جس بات کا خدشہ تھا وہی ہوا۔ حالات بہتری کے بجائے مزید ابتری کی طرف جارہے ہیں۔ عمران خان اس وقت نیب کی تحویل میں جاچکے ہیں۔ اور پی ٹی آئی کی کارکنان شرانگیزی پر اتر آئے ہیں۔
لکھاری چیختے رہے کہ نواز شریف کی جہاز میں سے گرفتاری ہو یا مریم نواز کو پابند سلاسل کرنا، شہباز شریف کو قید و بند کی صعوبتیں دینا مقصود ہو یا حمزہ شہباز پر سختیاں، خواجہ برادران کی اسیری ہو یا شاہد خاقان عباسی پر مشقِ ستم، میمن کی گرفتاری ہو یا زرداری کو سلاخوں کے پیچھے لے جانا، سب میں غلط طریقہ کار اپنایا گیا اور سب میں اداروں کو غلط اور اپنے مفادات کےلیے استعمال کیا گیا۔ لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوا۔
آج وہی سب خود عمران خان کے ساتھ ہوا تو ان کے حواری نہ صرف چیخ رہے ہیں بلکہ اداروں کی بیخ کنی کو بھی اپنا مشغلہ بنالیا ہے۔ کل بھی گرفتاریاں غلط انداز و طریقے سے ہوئی تھیں اور آج عمران خان کی گرفتاری کے وقت بھی اپنایا گیا طرز عمل درست نہیں تھا۔ لیکن سمجھے کون؟ سمجھایا کسے جائے؟ کرسیٔ اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس پر جو بیٹھا ہو اسے مستقبل دکھائی ہی نہیں دیتا۔
عمران خان کی گرفتاری کیوں ہوئی، اس کی وجوہات کیا ہیں، اور اس انداز کو کیوں اپنایا گیا؟ اس بحث سے مکمل قطع نظر ہم اس کو ایک اور الگ انداز سے دیکھتے ہیں۔ گرفتاری پر بحث ہوسکتی ہے کہ غلط ہوئی یا درست، لیکن اس کے بعد جو رویہ اپنایا گیا وہ مکمل طور پر غلط ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے کم از کم چھ مقامات پر راقم الحروف کا مشاہدہ رہا کہ جس انداز سے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے املاک کو نقصان پہنچایا، اس سے تو یہ پارٹی اپنے ہی مقصد سے دور ہورہی ہے۔ جس انداز سے احتجاج کو پرتشدد بنایا گیا اور آگ بھڑکائی جارہی ہے، اس سے تو انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوجائیں گے۔ اور اس میں نقصان کس کا ہوگا؟ اکتوبر و نومبر تو دور، ان حالات میں تو انتخابات غیر معینہ مدت کےلیے ملتوی ہوسکتے ہیں۔
اختلافات اپنی جگہ، لیکن اس پورے قضیے میں فوج کا کردار انتہائی احسن رہا اور یقینی طور پر اگر فوج ایسا کردار ادا نہ کرتی تو معاملات بالکل الگ رخ اختیار کرلیتے اور عوام اور فوج آمنے سامنے آجاتے۔
راولپنڈی میں حساس ترین مقام پر شرپسند عناصر نے جس طرح مرکزی گزرگاہ کو توڑا اور جس طرح وہاں پر نصب جوانوں کے مجسموں کو توڑا، وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ اس کے جواب میں فورسز کا ردعمل اس حوالے سے احسن رہا کہ چند شرپسند عناصر اس پوری صورتحال کو عوام اور فوج کو آمنے سامنے لانے کےلیے استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن صبر کا دامن تھامتے ہوئی کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کرنے سے حالات کچھ دیر بعد ہی معمول پر آنا شروع ہوگئے۔
کور کمانڈر ہاؤس میں جس طرح کا طرز عمل کچھ عناصر نے اختیار کیا، وہ کسی بھی لحاظ سے تحسین کے قابل ہے تو وہ رخ جاننے کا راقم الحروف بھی منتظر ہے۔ لیکن وہاں بھی کچھ عناصر کی شرپسندی کا مقابلہ جس برداشت سے کیا گیا اس سے نہ صرف ایک بہت بڑے سانحے سے بچنا ممکن ہوسکا بلکہ ایک مثبت تاثر بھی ابھرا۔
رات گئے ایمرجنسی کی افواہیں اسی لیے زیر گردش رہیں کہ فوج جیسے ادارے کےلیے اپنی توقیر سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ لیکن اس ادارے نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہوئے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے احسن طریقے سے نمٹایا۔ اگر خدانخواستہ فوج کی طرف سے بھی اس پورے معاملے میں دانشمندی کا ثبوت نہ دیا جاتا تو حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہوتے۔ جمہوریت پسندوں کی یہ استقامت مبارک، جمہوری رویوں کو یہ برداشت مبارک، لیکن ہائے افسوس کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے جارہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
لکھاری چیختے رہے کہ نواز شریف کی جہاز میں سے گرفتاری ہو یا مریم نواز کو پابند سلاسل کرنا، شہباز شریف کو قید و بند کی صعوبتیں دینا مقصود ہو یا حمزہ شہباز پر سختیاں، خواجہ برادران کی اسیری ہو یا شاہد خاقان عباسی پر مشقِ ستم، میمن کی گرفتاری ہو یا زرداری کو سلاخوں کے پیچھے لے جانا، سب میں غلط طریقہ کار اپنایا گیا اور سب میں اداروں کو غلط اور اپنے مفادات کےلیے استعمال کیا گیا۔ لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوا۔
آج وہی سب خود عمران خان کے ساتھ ہوا تو ان کے حواری نہ صرف چیخ رہے ہیں بلکہ اداروں کی بیخ کنی کو بھی اپنا مشغلہ بنالیا ہے۔ کل بھی گرفتاریاں غلط انداز و طریقے سے ہوئی تھیں اور آج عمران خان کی گرفتاری کے وقت بھی اپنایا گیا طرز عمل درست نہیں تھا۔ لیکن سمجھے کون؟ سمجھایا کسے جائے؟ کرسیٔ اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس پر جو بیٹھا ہو اسے مستقبل دکھائی ہی نہیں دیتا۔
عمران خان کی گرفتاری کیوں ہوئی، اس کی وجوہات کیا ہیں، اور اس انداز کو کیوں اپنایا گیا؟ اس بحث سے مکمل قطع نظر ہم اس کو ایک اور الگ انداز سے دیکھتے ہیں۔ گرفتاری پر بحث ہوسکتی ہے کہ غلط ہوئی یا درست، لیکن اس کے بعد جو رویہ اپنایا گیا وہ مکمل طور پر غلط ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے کم از کم چھ مقامات پر راقم الحروف کا مشاہدہ رہا کہ جس انداز سے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے املاک کو نقصان پہنچایا، اس سے تو یہ پارٹی اپنے ہی مقصد سے دور ہورہی ہے۔ جس انداز سے احتجاج کو پرتشدد بنایا گیا اور آگ بھڑکائی جارہی ہے، اس سے تو انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوجائیں گے۔ اور اس میں نقصان کس کا ہوگا؟ اکتوبر و نومبر تو دور، ان حالات میں تو انتخابات غیر معینہ مدت کےلیے ملتوی ہوسکتے ہیں۔
اختلافات اپنی جگہ، لیکن اس پورے قضیے میں فوج کا کردار انتہائی احسن رہا اور یقینی طور پر اگر فوج ایسا کردار ادا نہ کرتی تو معاملات بالکل الگ رخ اختیار کرلیتے اور عوام اور فوج آمنے سامنے آجاتے۔
راولپنڈی میں حساس ترین مقام پر شرپسند عناصر نے جس طرح مرکزی گزرگاہ کو توڑا اور جس طرح وہاں پر نصب جوانوں کے مجسموں کو توڑا، وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ اس کے جواب میں فورسز کا ردعمل اس حوالے سے احسن رہا کہ چند شرپسند عناصر اس پوری صورتحال کو عوام اور فوج کو آمنے سامنے لانے کےلیے استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن صبر کا دامن تھامتے ہوئی کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کرنے سے حالات کچھ دیر بعد ہی معمول پر آنا شروع ہوگئے۔
کور کمانڈر ہاؤس میں جس طرح کا طرز عمل کچھ عناصر نے اختیار کیا، وہ کسی بھی لحاظ سے تحسین کے قابل ہے تو وہ رخ جاننے کا راقم الحروف بھی منتظر ہے۔ لیکن وہاں بھی کچھ عناصر کی شرپسندی کا مقابلہ جس برداشت سے کیا گیا اس سے نہ صرف ایک بہت بڑے سانحے سے بچنا ممکن ہوسکا بلکہ ایک مثبت تاثر بھی ابھرا۔
رات گئے ایمرجنسی کی افواہیں اسی لیے زیر گردش رہیں کہ فوج جیسے ادارے کےلیے اپنی توقیر سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ لیکن اس ادارے نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہوئے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے احسن طریقے سے نمٹایا۔ اگر خدانخواستہ فوج کی طرف سے بھی اس پورے معاملے میں دانشمندی کا ثبوت نہ دیا جاتا تو حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہوتے۔ جمہوریت پسندوں کی یہ استقامت مبارک، جمہوری رویوں کو یہ برداشت مبارک، لیکن ہائے افسوس کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے جارہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔