عمران خان کی گرفتاری صدر مملکت کا وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط
عمران خان کی گرفتاری کا دردناک واقعہ مسلح افواج کی عمارتوں سمیت عوامی املاک پر ہجوم کے حملوں کا باعث بنا، خط کا متن
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری اور بعد کی صورت حال کے حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کے نام ایک خط لکھا ہے۔
صدر مملکت کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ''آپ کی توجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار اور نتائج کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں ۔ میں اور پاکستانی عوام اس واقعے کی ویڈیو دیکھ کر حیران رہ گئے، جس میں ایک سابق وزیر اعظم کے ساتھ بدسلوکی دکھائی گئی ''۔
خط میں مزید کہا گیا کہ ''عمران خان ایک مقبول رہنما اور ایک ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جسے پاکستانی عوام کی بڑی حمایت حاصل ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس دفتر میں زبردستی داخل ہوئے، جہاں عمران خان کی بائیو میٹرک کا عمل جاری تھا۔ جس انداز میں ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی، اُس سے عالمی برادری میں پاکستان کا تاثر داغ دار ہوا''۔
وزیراعظم کے نام لکھے گئے خط میں صدر مملکت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ''پاکستان کے دشمنوں کو پاکستان کا مذاق اُڑانے اور اپنے شہریوں کے حقوق پامال کرنے والے ملک کے طور پر پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ اس قسم کا واقعہ کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے ۔ ماضی میں اس طرح کے واقعات پیش آنے کا جواز پیش کرنا انہیں آج ٹھیک نہیں بنا سکتا ''۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ''ایسے مذموم اور غیر ضروری واقعات سے پہلے سے بگڑتی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی ۔ سماج میں تقسیم مزید بڑھ رہی ہے ۔ بلاشبہ، عمران خان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ان کی گرفتاری کے ایسے مناظر دیکھ کر جذباتی ہوئی۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے ٹانگ زخمی ہونے کے باوجود سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے ان کے رہنما کو گھسیٹا گیا''۔
صدر مملکت نے کہا کہ ''یہ دردناک واقعہ مسلح افواج کی عمارتوں سمیت عوامی املاک پر ہجوم کے حملوں کا باعث بنا۔ میرا ماننا ہے کہ عوام کو احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن انہیں پرامن اور قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ دل دہلا دینے والے، اندوہناک اور افسوسناک جانوں کے ضیاع پر سب پریشان ہیں جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔تیزی سے تقسیم ہوتی سیاست کے درجہ حرارت کو کم کرکے مستحکم کیا جانا چاہیے''۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ ''جیسے کو تیسا''اور ہیجانی ردعمل کے بجائے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرتے ہوئے استحکام لایا جانا چاہیے ۔ میں عوامی اثاثوں کو پہنچنے والے نقصان اور شرپسندوں کے غیر قانونی اقدامات پر پریشان ہوں۔ آئین اور قانون کا محافظ ہونے کے ناطے میں ایسے واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔ میرا ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، آئیں تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی تقدیر کو بچائیں۔ براہ کرم اس بات کو یقینی بنائیں کہ عمران خان کے آئینی حقوق پامال نہ ہوں ، ان کی جان کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ وزیراعظم آئین اور رولز آف بزنس 1973 کے تحت مجھے ملک کی موجودہ صورتحال سے آگاہ رکھیں۔
صدر مملکت کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ''آپ کی توجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار اور نتائج کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں ۔ میں اور پاکستانی عوام اس واقعے کی ویڈیو دیکھ کر حیران رہ گئے، جس میں ایک سابق وزیر اعظم کے ساتھ بدسلوکی دکھائی گئی ''۔
خط میں مزید کہا گیا کہ ''عمران خان ایک مقبول رہنما اور ایک ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جسے پاکستانی عوام کی بڑی حمایت حاصل ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس دفتر میں زبردستی داخل ہوئے، جہاں عمران خان کی بائیو میٹرک کا عمل جاری تھا۔ جس انداز میں ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی، اُس سے عالمی برادری میں پاکستان کا تاثر داغ دار ہوا''۔
وزیراعظم کے نام لکھے گئے خط میں صدر مملکت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ''پاکستان کے دشمنوں کو پاکستان کا مذاق اُڑانے اور اپنے شہریوں کے حقوق پامال کرنے والے ملک کے طور پر پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ اس قسم کا واقعہ کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے ۔ ماضی میں اس طرح کے واقعات پیش آنے کا جواز پیش کرنا انہیں آج ٹھیک نہیں بنا سکتا ''۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ''ایسے مذموم اور غیر ضروری واقعات سے پہلے سے بگڑتی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی ۔ سماج میں تقسیم مزید بڑھ رہی ہے ۔ بلاشبہ، عمران خان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ان کی گرفتاری کے ایسے مناظر دیکھ کر جذباتی ہوئی۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے ٹانگ زخمی ہونے کے باوجود سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے ان کے رہنما کو گھسیٹا گیا''۔
صدر مملکت نے کہا کہ ''یہ دردناک واقعہ مسلح افواج کی عمارتوں سمیت عوامی املاک پر ہجوم کے حملوں کا باعث بنا۔ میرا ماننا ہے کہ عوام کو احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن انہیں پرامن اور قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ دل دہلا دینے والے، اندوہناک اور افسوسناک جانوں کے ضیاع پر سب پریشان ہیں جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔تیزی سے تقسیم ہوتی سیاست کے درجہ حرارت کو کم کرکے مستحکم کیا جانا چاہیے''۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ ''جیسے کو تیسا''اور ہیجانی ردعمل کے بجائے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرتے ہوئے استحکام لایا جانا چاہیے ۔ میں عوامی اثاثوں کو پہنچنے والے نقصان اور شرپسندوں کے غیر قانونی اقدامات پر پریشان ہوں۔ آئین اور قانون کا محافظ ہونے کے ناطے میں ایسے واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔ میرا ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، آئیں تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی تقدیر کو بچائیں۔ براہ کرم اس بات کو یقینی بنائیں کہ عمران خان کے آئینی حقوق پامال نہ ہوں ، ان کی جان کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ وزیراعظم آئین اور رولز آف بزنس 1973 کے تحت مجھے ملک کی موجودہ صورتحال سے آگاہ رکھیں۔