یہاں ماؤں پہ کیا گزری

کراچی سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی وادیوں تک کتنی ہی مائیں اپنے لاپتا بیٹوں کے لیے تڑپ رہی ہیں

فوٹو : فائل

''ماں'' کیسا میٹھا، محترم مقدس لفظ۔۔۔محبت کا استعارہ۔۔۔خلوص کی تجسیم۔۔۔اور ہم پاکستانی ماں کے تقدس اور اِس رشتے کی عظمت کے ایسے ماننے والے ہیں کہ ہماری زندگی کے کتنے ہی مظاہر اس وابستگی کی وارفتگی کا عکس ہیں۔

رکشوں، بسوں، ٹرکوں کے پیچھے ''ماں کی دعا، جنت کی ہوا''،''یہ سب میری ماں کی دعا ہے'' اور ''ماں تجھے سلام'' کی روشن عبارتیں ۔۔۔۔ ''ماواں ٹھنڈیاں چھاواں'' جیسے آنکھوں کو دھندلا دینے والے گیت۔۔۔اور پھر ہماری شاعری، جس میں ماں کا روپ اپنی ساری لطافتوں اور عنایتوں کے ساتھ اپنی جھلک دکھاتا ہے۔۔۔اقبال اپنی والدہ کی وفات پر یوں گریہ کناں ہوتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آجاتا ہے:

خاکِ مرقد پر تیری لے کر یہ فریاد آؤں گا

اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا

اور

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

...

ایک مُدت سے مِری ماں نہیں سوئی تابش

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

جیسے ماں کی محبت میں گندھے شعر۔۔۔۔دھرتی ماں اور مادروطن کے تصورات، ماؤں کا دن تو چھوڑیے سوشل میڈیا پر ہر دوسرے دن ممتا کی قربانی وایثار کا اعتراف کرتی اور ماں کے پیار سے سرشار پوسٹیں۔۔۔بات بات پر ماں کی قسمیں۔۔۔ماں کو کچھ کہہ دینے پر جان لینے پر کمربستہ ہوجانا۔۔۔یہ سب دیکھ کر دنیا کی کسی بھی قوم کا فرد ہماری حُب مادر اور ماں پرستی پر اش اش کرتا ہوگا۔

لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ بڑا خوف ناک ہے۔ ہمارے ''ماں پرست'' سماج میں بہت سی ماؤں پر جو گزری اور جو گزر رہی ہے وہ درد اور اذیت میں لپٹی ایک کہانی ہے۔

شروع کرتے ہیں اس خاتون کے تذکرے سے جسے پوری قوم کی ماں کہا گیا، یعنی مادرملت۔ بابائے قوم محمد علی جناح کی بہن ہونے کے ناتے فاطمہ جناح کو قوم نے مادرملت کا خطاب دیا، اگر وہ سیاست میں نہ آتیں اور آمر ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب نہ لڑتیں تو ان کے برسراقتدار بیٹوں کے سر بھی ان کے سامنے تعظیم میں جھکے رہتے، لیکن انتخابی میدان میں اترتے ہی یہ مادرملت ''غدار'' قرار پائیں، اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا، انھیں عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے ان کے کردار پر بھی کیچڑ اچھالا گیا۔


ایوب خان نے انھیں ''نسوانیت اور ممتا سے عاری'' خاتون قرار دیا، یہ بھی کہا جاتاہے کہ ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے بھٹو نے ان دنوں یہ سوال اٹھایا کہ ''اس'' نے شادی کیوں نہیں کی؟ اتنا ہی نہیں ہوا، انتخابی مہم کے دوران ایک کُتیا کے سر پر دوپٹہ ڈال اور گلے میں لالٹین (لالٹین محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان تھی) ڈال کر اسے سڑکوں پر گھمایا گیا۔

اب آئیے ایک اور ماں کی طرف، نصرت بھٹو ایک المیے کا نام ہے۔ اپنے محبوب اور دل آویز شخصیت کے مالک شوہر کے پھانسی پر جھولنے کا صدمہ سہنے کے بعد نصرت ذرا سنبھلی تھیں، وہ آمریت کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہوکر بہ طور شہری اپنا فریضہ ادا کرنے کے ساتھ شاید اپنے درد کو طاقت بنانے کی ٹھان چکی تھیں۔ لیکن آخر کتنا درد جھیلا جاسکتا ہے، کتنی تکلیف سہی جاسکتی ہے۔

شوہری کی پھندے پر جھولتی لاش ہی فراموش نہ ہوئی تھی کہ خوبرو بیٹے شاہ نواز بھٹو کا جوان جسم بے جان ہوکر ان کی آغوش میں آگرا، اس صدمے کو دس سال گزرے، ایک ماں کے لیے یہ برس بیتے دن سے زیادہ نہیں تھے، جب بیٹے کی موت پر کلیجہ پھٹ گیا تھا، وہ خود کو بڑی حد تک سنبھال چکی تھیں کہ دوسرے بیٹے مرتضٰی بھٹو کے جسم میں درجنوں گولیاں اتار دی گئیں، جس کی خون میں لت پت لاش ان کے سامنے لا بچھائی گئی، اچھا ہوا کہ اس سانحے کے بعد انھوں نے ہوش کھودیے ورنہ، بیٹی بے نظیر بھٹو کو تربت میں اترتے دیکھنا بھی ان کی قسمت بنتی۔

ایک اور ماں کی کہانی سُنیے۔ اداکارہ شبنم، ارض بنگال کی تعلق رکھنے والی اس اداکارہ نے مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد پاکستان ہی کو اپنا وطن بنایا اور پاکستانی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھاتی رہی۔ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد ایک روز شبنم کے گھر میں پانچ مسلح افراد داخل ہوئے۔

اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ان امیرزادوں نے لوٹ مار کرنے کے ساتھ وہ کیا جس پر شیطان بھی شرما جائے۔ ایک ماں اپنے شوہر اور کم سن بیٹے کے سامنے بے آبرو کردی گئی۔ اس گھناؤنے فعل میں ملوث فاروق بندیال اور دیگر پانچ درندوں کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سُنائی، لیکن بااثر اور طاقت ور مجرموں نے دباؤ ڈال کر شبنم کو مجبور کیا کہ وہ انھیں معاف کردیں، اور اسلامی عدل وانصاف کی داعی ضیاء حکومت نے بھی ان زورآوروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔

ہمارے دیس میں ماؤں سے سلوک اور ممتا کے استحصال کا ایک قصہ وہ ہے جو معروف صحافی اردشیر کاؤس جی نے ''ماں کی ہائے'' کے زیرعنوان اپنے کالم میں لکھا۔ یہ تذکرہ ہے 1996کا، جب ملک پر اور صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ایم کیوایم آپریشن اور سختیاں جھیل رہی تھی۔ کراچی میں خون خرابہ اور لاشیں گرنا روز کا معمول تھا۔

ایک دن خبر آئی کہ ایم کیوایم کی بزرگ رکن سندھ اسمبلی فیروزہ بیگم پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئی ہیں اور انھوں نے وزارت کا حلف اٹھا لیا ہے۔ فیروزہ بیگم ایک گھریلو خاتون تھیں جنھیں ان کے بیٹے ایم کیوایم کے راہ نما اور سابق رکن اسمبلی اسامہ قادری کی والدہ ہونے کے باعث اسمبلی کا رکن منتخب کرایا گیا تھا۔

کچھ دنوں بعد اردشیرکاؤس جی نے ڈان میں لکھے جانے والے اپنے کالم میں انکشاف کیا کہ فیروزہ بیگم کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انھوں نے سرکاری جماعت کا حصہ بن کر وزارت قبول نہ کی تو ان کے بیٹے اسامہ قادری کو پولیس مقابلے میں مارا جاسکتا ہے۔ اس دور میں ایم کیوایم کے کسی کارکن کی پولیس مقابلے میں ہلاکت روز کی خبر تھی۔ اس بوڑھی ماں کو دھمکایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کی جان حکومت میں شامل ہوکر ہی بچاسکتی ہیں۔ اور ایک ماں اولاد کی خاطر مجبور ہوگئی۔

جنرل پرویزمشرف کے دور میں جب پاکستان امریکا کی ''دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ'' کا حصہ بنا تو ہمارے شہر ایف بی آئی اور سی آئی اے کے لیے گھر کا دالان بن گئے۔ اس دور میں کتنے ہی پاکستانی امریکا کے حوالے کیے گئے۔

ایک دن پراسرار طور پر کراچی سے تین بچوں سمیت لاپتا ہوجانے والی عافیہ صدیقی بھی ایسی ہی پاکستانی تھی، جس کی چیخیں پہلے افغانستان کے ایک قید خانے میں سُنی گئیں، پھر ان کی گرفتاری غزنی سے ظاہر کی گئی اور کچھ دنوں بعد امریکا کی عدالت کے کٹہرے میں نظر آئی جہاں انھیں 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

ان کے بچے واپس آگئے اور اب تک اپنی ماں کے منتظر ہیں، لیکن یہ کتھا اس ماں کی ہے جو یہ سنتی رہی کہ اس کی بیٹی امریکا کی جیل میں ظلم وتشدد کا شکار اور جنسی زیادتی کی اذیت جھیل رہی ہے، اس کی نم آنکھوں میں بیٹی کا چہرہ گھومتا رہا، سماعت میں بیٹی کی چیخیں گونجتی رہیں، حکم رانوں اور سیاست دانوں کے دلاسے ملتے رہے کہ اس کی بیٹی جلد اس کے پاس آجائے گی، مگر وہ دن نہ آیا اور عافیہ کی راہ تکتے تکتے دکھیاری ماں عصمت بی بی آنکھوں میں انتظار لیے دنیا سے چلی گئیں۔

ہمارے ملک میں ماؤں سے جو ہوا یہ اس کی صرف چند تصویریں ہیں، ورنہ کراچی سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی وادیوں تک کتنی ہی مائیں اپنے لاپتا بیٹوں کے لیے تڑپ رہی ہیں، کتنی ہی ماؤں کے سامنے ان کے بیٹوں کو خون میں نہلادیا گیا اور بیٹیوں کو بے آبرو کردیا گیا۔ بیسیوں مائیں ہیں جو سیاست میں آکر رسوائی اور الزامات کے داغ سہتی ہیں اور ان داغوں کے ساتھ اپنی اولاد کے سامنے جاتی ہیں۔

اس سب کے باوجود ہم ماؤں کی عظمت کے علم بردار ہیں۔
Load Next Story