نشاط یاسمین خان ہنرمند تخلیق کار

طنزومزاح محض ایک اسلوب نہیں بلکہ یہ ایک مستقل صنفِ سخن ہے

طنزومزاح محض ایک اسلوب نہیں بلکہ یہ ایک مستقل صنفِ سخن ہے ، مزاح نگاری ایک سنجیدہ اور مشکل ترین فن ہے۔


اس صنف کو بہت کم اہلِ قلم نے اپنایا جن میں گنتی کے چندگنے چُنے ایسے نام ملتے ہیں جن میں شفیق الرحمن، ابنِ انشائ، سید ضمیر جعفری، مشتاق احمد یوسفی، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، ڈاکٹر رؤف پارکھ، ڈاکٹر یونس بٹ اور اشفاق احمد ورک کے نام نمایاں ہیں۔


اسی طرح خواتین مزاح نگاروں میںجہاں جیلانی بانو، خدیجہ مستور، بشریٰ رحمن، رضیہ فصیح احمد اور حمیرا اطہرکے نام شامل ہیں ، جنہوں نے نہ صرف اچھا مزاح لکھا بلکہ مزاح نگاری میں اپنا نام بھی پیدا کیا۔ وہیں عہدِ موجود میں نشاط یاسمین خان کا شمار بھی عمدہ مزاح لکھنے والوں میں ہوتا ہیں۔ ان کا طرزِ تحریر موجودہ عہد کی تہذیب و ثقافت اور سماج کا آئینہ دار ہے۔


ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ '' اماں نامہ'' ہے۔ جس میں انسان کی زندگی سے وابستہ ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس پر کچھ لکھنے سے قبل سوچنا نفسیاتی مریض ہونے کے مترادف ہے، مگر کتاب میں شامل مضامین کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا بالکل نہیں جیسا ہم سوچ رہے ہیں، کیونکہ مصنفہ نے اپنے مضامین میں مزاح کا تڑکا اس طرح سے لگایا ہے کہ انسان ان تحریروں کو پڑھتے ہوئے پریشانی میں مبتلا ہونے کی بجائے ان سے لطف اندوز ہو سکے۔'' اماں نامہ '' میں اکیس عدد مضامین شامل ہیں۔ جن میں '' اماں نامہ '' کے ساتھ ساتھ ''ابا نامہ'' بھی موجود ہیں۔


نشاط یاسمین خان کئی برسوں سے دبستانِ کراچی کو اپنے تخلیقی فن پاروں سے مہکا رہی ہیں۔دنیا بھر میں جہاں بھی ادب پڑھا جا رہا ہے وہاں ان کے فن کی خوشبو کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔'' اماں نامہ '' اور '' ابا نامہ '' ان کے مزاحیہ مضامین کے دو عدد مجموعے ہیں ، جب کہ '' دوریاں اور قربتیں'' ان کا سنجیدہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔


جس میں روز مرہ زندگی میں ہونے والی اذیتیں ،خونی رشتوں میں بڑھتی ہوئی دوریاں اور قربتیں اور انسانی ڈھانچے کو کھوکھلا کرتی ہوئی نفرتیں ان کے افسانوں کا خاص موضوع ٹھہرتا ہے۔ وہ ایک حوصلہ مند ، دردِ دل رکھنے والی خاتون ہے، جو زندگی کے کسی بھی موڑ پر محبت کی حسین وادیوں میں وفا کے پھول کھلنے کی اُمید رکھتی ہے، وہ اپنی قسمت کا بلندی پر ستارہ دیکھنے کے لیے اپنا ہاتھ کسی نجومی کو نہیں دکھاتی بلکہ خود اپنے ہاتھ کی ''سرخ لکیروں'' میں اپنی قسمت کا ستارہ ڈھونڈ لیتی ہیں۔


ان کے شاہکار افسانوی مجموعہ کا نام بھی ''سرخ لکیریں'' ہے۔ ان افسانوں میں روانی ،شگفتگی اور تازہ کاری کے علاوہ جاں سوز، فکر انگیز اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کتاب کے حوالے سے پروفیسر اختر ہاشمی رقم طراز ہے کہ''نشاط یاسمین خان کے افسانے ہماری زندگی کے جیتے جاگتے کردار ہیں اور معاشرے کے نہایت تلخ، شیریں تجربات، عمیق نگاہی اور نازک احساسات سے مزین ہیں۔'' سرخ لکیریں میں انتہائی فکر آموز افسانے مثلا بے نشان راستے،ایک چھت تلے، سرخ لکیریں، کوئلہ بنی نہ راکھ ، سفید رومال، کو نشاط یاسمین خان نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔


ان کا یہ مجموعہ '' سرخ لکیریں '' گلستانِ افسانہ نگاری میں ایک ایسا گلدستہ ثابت ہُوا ہے جس کی خوشبو تادیر ادب کی فضا کو خوشگوار رکھے ہوئے ہیں۔ نشاط یاسمین کا خان کی افسانہ نگاری کا سفر بہت طویل ہیں۔ 2022میں ان کا تازہ کار افسانوں کا مجموعہ ''ماں ری'' منظرِ عام پر آیا۔ جس میں خلافِ توقع بہت عمدہ افسانے پڑھنے کو ملے،ان افسانوں میں ہمارے معاشرے کے بعض مسائل کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔



یہ عمدہ افسانے نشاط یاسمین کو ہر عام و خاص میں مقبولیت کی سند عطا کرتے ہیں۔ سلمان صدیقی کے مطابق '' یہ افسانے گہرے مشاہدے کے حامل اور نپے تلے بیانے سے آراستہ ہیں۔ ان میں انسان کے خلاف انسان کے روا رکھے جانے والے غیر انسانی رویوں کو درد مندی سے اُجاگر کیا گیا ہے۔


پُر اثر منظر نگاری، مشاہدے کی باریکی، سادہ بیانیے اور دل کو چھو لینے والے کلائمکس سے آراستہ، سماجی حقیقت نگاری کی ذمے داری ادا کرتے یہ ایسے واقعاتی نثر پارے ہیں جس کے پسِ پشت نشاط یاسمین کا دل درد آشنا ہے جو اپنی صنف پر ڈھائے جانے والے مظالم، زیادیتوں اور محرومیوں کے زخم منظرِ عام پر لا کر لوگوں کے اجتماعی شعور کو بیدار کرنا چاہتا ہے۔''اس کتاب کا پہلا افسانہ درخت اور اُمید ، دوسرا افسانہ'' ڈمپل آپا'' کے عنوان سے ہے جس میں خونی رشتوں کی مفاد پرستی کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ایک سادہ معصوم اور درد مند کردار کی حامل لڑکی کی داستان پڑھنے کو ملتی ہے۔


بیس صفحات پر مشتمل یہ کہانی '' ڈمپل آپا '' کے دل پذیر رویے اور فیصلے کی خوشبو سے مہکی ہوئی ہے، جب کہ اس کتاب کا تیسرا افسانہ ''ماں ری'' جو اس افسانوی مجموعے کا عنوان بھی ہے۔ یہ ایک ایسا متاثر کن افسانہ ہے جس میں ممتا کے جذبے کو خالص نسائی شعور کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ نشاط یاسمین کے افسانوں میں غضب کا درد ہے جس کی لذت کٹھے میٹھے پھل کی طرح ہے۔ بقول شاد عظیم آبادی کہ :


سُن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا


کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا


افسانہ نگاری کے علاوہ نشاط یاسمین خان کی ذات میں ایک ناول نگار کی صلاحیت کی نشانہ دہی تب ہوئی ، جب اِن کا ناول '' رُودکوہی'' پڑھنے کو ملا۔ ۲۴۰ صفحات پر مشتمل یہ طویل ناول مطالعہ کے دوران بوریت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔


اس ناول میں کئی چہرے مختلف کرداروں میں کہانی کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ کچھ کردار ایسے کوڑھ زدہ چہروں کی نقاب کشائی کرتے ہیں، جو سماج کو اندر دیمک کی طرح چاٹ رہے ہوتے ہیں اورکچھ کردار بہت سے چہروں کی طرح ہمیشہ جگمگاتے رہتے ہیں جنھیں انسان چاہ کر بھی نہیں بھول سکتا۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری '' رُود کوہی'' جیسے شاہکار ناول پر لکھتے ہیں کہ'' نشاط یاسمین کے ناول کی موضوی شاخ(The themtc Structure ) تخلیقی اور فنی ساخت کی بات کریں تو کسی بھی میعاری متن کا تخلیقی و معنوی نظام تشکیلات و مرکبات کی ساختیاتی تشکیل اور اس کے معنیاتی نظام تک پہنچنے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔


پاک و ہند میں عورت پر ظلم و جبر کی کہانی کو کئی طرح سے تخلیقی پیکر کا جامہ پہنایا گیا ہے اور چند افسانے اور ناول تو بے مثال ہیں۔ تاہم پیش نظر ناول کی پیش کش یقینا اردو قارئین کو اس کے رواں بیانیے کی مدد سے نہاں معنوں تک رسائی میں آسانیاں پیدا کرے گی، یہ ناول قاری کو ایک مخصوص فضا کا اسیر کر کے ایک مانوس جہان کی سیر کرواتا ہے۔''


نشاط یاسمین خان کا ناول '' رُودکوہی '' سچے جذبوں کی ایسی داستان ہے جس میں صداقت بھی ہے اور حقیقت بھی۔ یہ ناول نشاط یاسمین خان کو ادبی حلقوں میں اس قدر پذیرائی کا سبب بناہے کہ اس کو 2021 کا بہترین ناول کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس ناول سے قبل ان کا ایک ناول '' تیسرا کنارہ '' کے نام سے داد و تحسین حاصل کر چکا ہے، جب کہ بچوں اور بچیوں کے لیے ان کا بہترین موٹیویشنل ناول ''ایک سرکش پرندے کا سفرنامہ'' بھی قابلِ ذکر ہے۔ نشاط یاسمین خان روزنامہ ایکسپریس کراچی میں سو لفظی کہانیاں لکھتی رہی ہیں۔ ان کی زیرِ طبع کتب میں ''افسانچے'' اور ''م سے مرد'' شامل ہیں۔


ان کے فن پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ اُمید رکھتے ہیں کہ وہ زیرِ نظر اپنی تمام تخلیقات کی اشاعت کی طرح افسانہ اور ناول نگاری کاسفراسی لگن سے جاری رکھیں گی۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے قلم کو مزید روانی عطا فرمائے۔(آمین)

Load Next Story