شادی میں معاشرتی اخلاقیات غارت

حکومت کی وقتی بیداری اور گاہے بہ گاہے جاری کردہ شادی کے اوقات، کھانوں اور آتش بازی اور۔۔۔

advo786@yahoo.com

کرکٹر عمر اکمل کی شادی سے متعلق خبر شایع ہوئی کہ نکاح مسجد میں ہو گا، شادی نہایت سادگی سے کم خرچ اور مثالی ہو گی، ہنی مون کی بجائے عمرہ پر جائینگے۔ خبر پڑھ کر خوشی ہوئی کہ اس مثالی اور قابل تقلید شادی سے لوگوں کو سادگی، کفایت شعاری اور کم خرچی کی ترغیب ملے گی کیونکہ شوبز اور کھیلوں کی دنیا سے تعلق رکھنے والے اسٹارز کا طرز عمل ان کے پرستاروں پر بڑا اثرانداز ہوتا ہے اسے وہ ہنسی خوشی اپناتے بھی ہیں مگر بعد کی آنیوالی خبروں نے اس کی نفی کر دی جن کے مطابق فارم ہاؤس میں پر تکلف رسم حنا دیر تک جاری رہنے پر عمر اکمل اور فارم ہاؤس کے مالک کے خلاف ون ڈش کی پابندی نہ کرنے، دیر تک تقریب جاری رکھنے پر شادی ایکٹ کی خلاف ورزی کے ارتکاب پر مقدمہ قائم کر کے 2 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ دلہن کی بہنوں کا کہنا تھا کہ عمر اکمل نے ستانے کے لیے جعلی نوٹ تھما دیے تھے۔ بعد ازاں ہم نے ان سے دو لا کھ روپے بٹور لیے ابھی کافی رسمیں باقی ہیں (یعنی مزید آمدنی متوقع ہے)۔

شادی بیاہ کی تقریبات میں فضول خرچی، دکھاوے، نمود و نمائش نے بہت سے سماجی مسائل پیدا کر دیے ہیں جن کی وجہ سے پیدا ہونیوالے گمبھیر قسم کے سماجی، معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل نے معاشرے کی بنیادوں کو بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ شادی کے غیر ضروری اخراجات کا بروقت بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف تو خاص طور پر لڑکیوں کے رشتے میں غیر ضروری تاخیر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے لڑکیاں عمر رسیدہ اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ان کے والدین غیر ضروری اور نمود و نمائش پر آنیوالے اخراجات کی وجہ سے قرضوں میں جکڑے جا رہے ہیں، شادی کے کچھ ہی دنوں بعد ہونیوالے خاندانی جھگڑوں اور طلاقوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہی معاشی مسائل ہیں۔

پہلے گھروں میں شامیانے لگاکر شادیاں ہوتی تھیں پھر شادی لان اور شادی گھروں میں شادیوں کا رجحان آیا اور اب متحمل نہ ہونے کے باوجود بینکوئٹ کلچر پروان چڑھ چکا ہے پھر ان ضیافتوں میں درجنوں قسم کے کھانوں سے مہمانوں کی تواضح کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ان بینکوئٹ اور کھانے پر آنیوالے اخراجات کا رقم میں اب سے چند سال پہلے تک ایک عام سی شادی کرنا ممکن تھا۔ نمود و نمائش حرص و ہوس اس دوڑ میں لوگ اپنی حیثیت کو بھلا غیر ضروری رسومات و اخراجات کی خاطر اپنے گھر اور اثاثے تک بیچ دینے، سود پر قرض لینے، رشوت ستانی، بدعنوانی اور شارٹ کٹ طریقہ استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں ان برائیوں کے تدارک اور اجتماعی غلط رویے کو درست کرنے کے سلسلے میں سب سے بڑا کردار حکومت، معاشرے کے باحیثیت افراد، سیاستدان، شوبز اور کھیلوں کی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد، میڈیا اور سماجی تنظیمیں کر سکتی ہیں۔

انفرادی طور پر یہ ہدف حاصل کرنا حقیقتاً مشکل امر ہے اس سلسلے میں حکومت کو شادی بیاہ کی تقریبات، ان کے اخراجات، معیار و مقامات، کھانوں، جہیز اور مہر اور تقریبات میں آتش بازی اور فائرنگ کے سلسلے میں موجودہ لاتعداد قوانین کا اطلاق کر کے انھیں مزید فعال متحرک اور عصر حاضر کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرے۔ سب پر قانون کا اطلاق یکساں طور پر کرے نہ کوئی اپنے بیٹے کا ولیمہ اسمبلی بلڈنگ میں کر سکے نہ کسی وفاقی وزیر کی ہمت ہو کہ وہ کسی کرکٹر کی مہندی بیرون ملک لے جانے پر قوم کے کروڑوں روپے خرچ کرے نہ ہی میڈیا اس کی طویل ترین اور غیر ضروری کوریج کرے جس سے عام آدمی میں ملکی قوانین کو پامال ہوتا دیکھ کر قانون کی بے وقعتی اور نمود و نمایش کی دوڑ کا رجحان پیدا ہو۔


حکومت کی وقتی بیداری اور گاہے بہ گاہے جاری کردہ شادی کے اوقات، کھانوں اور آتش بازی اور فائرنگ کے احکامات اور اقدامات کا اطلاق کچھ عرصے کے لیے عام افراد پر ہی ہوتا ہے جب کہ صاحب اختیار، اثرورسوخ کے حامل افراد ان پابندیوں کو قطعی خاطر میں نہیں لاتے بلکہ عام افراد بھی کسی نہ کسی طریقے، سفارش یا رشوت کے ذریعے راستہ نکال کر ایک دوسرے پر اپنے آپ کو سیاسی سماجی اور معاشی طور پر برتر ثابت کرنے کی کوششیں کرتے ہیں البتہ معجزاتی طور پر کبھی کبھار ایسے اقدامات سے سفید پوشوں کی سفید پوشی برقرار رہ جاتی ہے۔ اگر سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم افراد شادی بیاہ کی تقریبات میں سادگی و کفایت شعاری اپنائیں اور اسی پیسے سے اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کے ساتھ کسی مستحق کی شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی روایت ڈال دیں تو اس کے معاشرے پر اجتماعی طور پر اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کارخیر سے بہت سے لوگوں کا بھلا بھی ہو سکتا ہے ۔

اس وقت ملک میں ایسی بہت سی تنظیمیں اور افراد موجود ہیں جو مستحق جوڑوں کی شادیوں کے سلسلے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور انھوں نے اجتماعی شادیوں کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جو اچھی پیشرفت ہے دوسروں کو بھی اس کی تقلید کرنا چاہیے۔ شادی بیاہ کے سلسلے میں سماجی مرتبہ اسٹیٹس کی دوڑ دھوپ میں فریقین ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں نمود و نمایش اور غلط بیانی بھی کرتے ہیں۔ اسٹیٹس اور مال و متاع جمع کرنے کی کوششوں میں خاص طور پر جب لڑکیاں عمر رسیدہ ہو جاتی ہیں تو ان کے رشتے بھی میسر نہیں آتے جو اس سے قبل ان کے گھروں پر خود چل کر آتے تھے جس کی وجہ سے انھیں مزید بے جوڑ اور غیر موزوں رشتہ قبول کرنے پڑتے ہیں یا پھر غیر شادی شدہ رہنا پڑتا ہے۔

لڑکیوں کی شادیاں پہلے کرنے کی تگ و دو میں لڑکوں کی شادیوں میں بھی غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے جس کے سماج پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں شادی طے کرتے وقت سماجی و معاشی رتبہ و حیثیت کو مصنوعی طریقوں، دروغ گوئی اور دھوکہ دہی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ دہی اور مفادات پر استوار رشتے بھی وقتی اور کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ لڑکے والے حسین و جمیل پری چہرہ اور کم عمر لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں تو لڑکی والے اس کے بالوں کی سفیدی، عمر اور بعض اوقات مہلک قسم کی بیماریوں تک کو چھپا دیتے ہیں ۔ اسی طرح لڑکی والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑی آمدنی والے خود مختار لڑکے کے متلاشی ہوتے ہیں لیکن بعد میں حقیقت کھلتی ہے کہ نہ تو وہ تعلیم یافتہ ہے نہ ہی اس کا کوئی روزگار ہے حقیقت سامنے آنے پر لڑائی جھگڑے مقدمہ بازی بلکہ بعض اوقات قتل و غارت گری تک نوبت جا پہنچتی ہے۔

معاشرتی اخلاقیات اور مذہبی آداب دونوں نظرانداز کردینے کی وجہ سے ہماری زندگیاں اور معاشرہ دونوں تباہی و بربادی سے دوچار ہیں۔ کم از کم بحیثیت مسلمان ہمیں نکاح جیسے عمل جس سے ایک خاندان کا ظہور ہوتا ہے اسلامی تعلیمات کا جائزہ ہی لے لینا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا کہ اگر ایسا شخص تمہاری طرف نکاح کا پیغام بھیجے کہ اس کی دینداری اور اخلاق پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ پیدا ہو گا اور بہت فساد ہو گا''۔ ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ عورت سے اس کے دین، اس کے مال اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے لہٰذا دیندار عورت سے شادی کرو (یعنی دولت و خوبصورتی ثانوی حیثیت رکھتی ہیں) آپؐ نے بیوی کو قرآنی آیات سکھا دینے کو بھی مہر قرار دیا۔

خود حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے نکاح میں حضرت علیؓ کی زرہ حطمیہ کو مہر قرار دیا گیا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ایک صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف کے کپڑوں پر ذرد دھبہ لگا دیکھا تو فرمایا کیا تم نے شادی کر لی ہے جواب اثبات میں آیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ولیمہ کرو، چاہے ایک بکری کا ہو۔ کہا گیا ہے کہ جب نکاح مشکل ہو جائے گا تو زنا عام ہو جائے گا۔ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دیندار اور اخلاق مند شخص کا رشتہ دیگر ترجیحات کی بنا پر ٹھکرا دینے، عورت سے محض اس کے مال اور خوبصورتی کی وجہ سے شادی کرنے سے، سکت نہ رکھنے کے باوجود بڑا مہر مقرر کرنے، جہیز کا تقاضا کرنے، شادی کے بڑے اجتماع اور کھانوں کا متحمل نہ ہونے کی وجہ سے نکاح سے اجتناب برتنے کی وجہ سے ہم مسائل، مصائب اور فتنہ و فساد کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے کرام پر بھی بڑی بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے روشناس کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
Load Next Story