خبر کیا تھی درد کا سمندر

بیٹیاں وداع ہو جاتی ہیں اور بہوئیں آ کر گھر سنبھالتی ہیں۔ پھر گھروں کے طور طریقے بدل جاتے ہیں...

shabnumg@yahoo.com

کائنات کی تمام تر مخلوق گھر بنانے میں جتی رہتی ہے۔ پرندے خاص طور پر خوبصورت گھونسلے بناتے ہیں۔ تنکا تنکا جوڑ کر ان کا آشیانہ بنتا ہے۔ یہی حال انسانوں کا ہے۔ وہ بھی محبت سے گھرکی بنیاد رکھتے ہیں۔ ان گھروں کے مکین مل جل کر ساتھ رہتے ہیں۔ گھر بن تو جاتے ہیں، مگر انھیں چلانا اور قائم و دائم رکھنا آزمائش طلب مرحلہ ہوتا ہے۔ گھر ایثار و قربانی کے جذبے سے قائم رہتے ہیں۔ محبت و اتفاق نہ رہے تو گھر بکھرنے لگتے ہیں۔ گھر وہی رہتے ہیں مگر مکین بدل جاتے ہیں۔

بیٹیاں وداع ہو جاتی ہیں اور بہوئیں آ کر گھر سنبھالتی ہیں۔ پھر گھروں کے طور طریقے بدل جاتے ہیں۔ لڑکیاں ماں باپ کے گھر سے عجیب سی انسیت رکھتی ہیں۔ بیاہ کر چلی بھی جائیں، مگر ان کا احساس والدین کے قریب بھٹکتا رہتا ہے۔ بھائیوں کو دیکھنے کی لگن انھیں بے چین کیے رکھتی ہے۔ عمر بھر ماضی ٹھنڈی آہوں میں سانس لیتا ہے۔ بچھڑ کے ملنے کی ایک عجیب سی خوشی ہوتی ہے۔ آنسوؤں میں جھلملاتی ہوئی۔ قریبی رشتے جن سے خوبصورت احساس جڑا ہو، زندگی کی تپتی دھوپ میں چھاؤں جیسے ہیں۔ چہرے بھی ایسے کہ جبیں دیکھ کر انسان تمام دکھ بھول جاتا ہے۔

ایک ہی گھر میں رہنے والے آگے چل کر اپنی الگ دنیا بساتے ہیں۔ لڑکے ذریعہ معاش کی خاطر پردیس چلے جاتے ہیں۔ لڑکیاں نیا گھر بسا لیتی ہیں۔ دور رہ کر بھی مگر محبت کی ڈور ٹوٹتی نہیں۔ بلکہ اور بھی مضبوط ہو جاتی ہے۔ دوبارہ ملنے کی آس کسک بن کر سانسوں میں محسوس ہوتی رہتی ہے۔ منتظر نگاہوں میں نمی کی تہہ تیرتی ہے، دل، خیرخیریت کی خبر سننے کا متلاشی رہتا ہے۔ ایک عجیب سی بے چینی کا احساس بار بار ذہن پر دستک دیتا ہے کہ جیسے کوئی اہم چیز کھو گئی ہے۔

انسان کا جن گلیوں میں بچپن گزرے، اس کا وہ آبائی وطن قدرتی طور پر سوچوں کا محور بنا رہتا ہے۔ مٹی کی کشش بار بار اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اور اگر بہت سارے سال گزر جائیں، تو بے نام سی اداسی دل میں گھر کر لیتی ہے۔ ایسی صورت حال میں پرانی تصویریں، اور چند نشانیاں دل کا سہارا بن جاتی ہیں۔ جنھیں دیکھ کر دل ماضی کے ان لمحوں کو واپس بلا لیتا ہے، جو خوشگوار یادوں کی صورت جینے کا تحرک عطا کرتے رہتے ہیں۔

جتنی احساس میں گہرائی ہوتی ہے، اتنی ہی شدت گمشدہ محبتوں کی تڑپ میں پنہاں ہوتی ہے۔ ذہن کے زرخیز موسم میں محبتوں کے پھول سدا بہار رہتے ہیں چاہے زندگی کتنی بات ہی خزاں کے موسم کے سائے تلے گزرتی رہی ہو۔ ابھی کچھ دن پہلے اخبار میں خبر پڑھی تھی۔ خبر کیا تھی درد کا گہرا سمندر تھی۔ یہ خبر ایک بہن کی سالوں سے بچھڑے ہوئے بھائی سے محبت کی انوکھی داستان ہے۔ وہ بہن جو ہندوستان میں رہتی تھی۔ اور 16 سال سے سندھ کی سرزمین کے لیے تڑپتی تھی۔ اپنی مٹی کی کشش اسے ہر پل بے چین کیے رکھتی۔ ہر آنے جانے والے سے وہ لاڑکانہ کا احوال لیتی، اپنے بچھڑے ہوئے رشتوں کا پوچھتی۔ وہ مستقل سالوں سے ویزا حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف رہی۔

اس کے دل میں دوبارہ بچپن کی سہیلیوں سے ملنے کا ارمان تھا۔ وہ ان گلیوں کی خوبصورتی کو دوبارہ محسوس کرنا چاہتی تھی، جہاں کھیلتے ہوئے اس کے بچپن کے سنہری دن گزرے تھے۔ گھر والے بھی شدت سے سرلا دیوی کی آمد کے منتظر تھے۔ وہ اپنے بھائی مہیش سے شدت سے پیار کرتی۔ گھر والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی زبان نہ تھکتی۔ وہ بھی ان لڑکیوں میں سے تھی، جو والدین کے گھر کی ٹھنڈی چھاؤں نہیں بھولتیں۔ جن کی آنکھوں میں انتظار کا دریا کبھی خشک نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی درمیاں سرحدوں کے فاصلے ان کی محبت کی شدتوں میں کمی واقع کر سکتے ہیں۔

جس کی روح ہمیشہ سندھ کی سرزمین پر بھٹکتی تھی۔ وہ سرلا دیوی 16 سال کے طویل انتظار کے بعد جب لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تھی تو اس کی خوشی قابل دید تھی۔ بہت سالوں بعد جب قریبی رشتوں سے ملاقات ہوتی ہے تو دل ناقابل بیان خوشی کے حصار میں بے اختیار جھوم اٹھتا ہے۔ اس خوشی کا نعم البدل دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔ آنکھوں میں بادل امڈے چلے آتے ہیں۔ تمام تر منظر دھندلے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر فرط جذبات میں آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ دنیا میں اپنائیت اور اپنے پن سے بڑھ کر قیمتی شاید ہی کوئی اور احساس ہو۔ ایک عجیب سی ڈھارس جو انسانوں کو سالہا سال تک زندہ رکھتی ہے۔ یاد سینے میں دل بن کر دھڑکتی ہے، لہو کی روانی میں زندگی کا احساس دلاتی ہوئی۔

جس بھائی کی محبت میں سرلا دیوی تڑپتی تھی، وہ اس کے سامنے تھا۔ وہ بے اختیار بھائی سے لپٹ گئی۔ بہن بھائی کا رشتہ بھی دنیا کا عجیب ترین رشتہ ہے۔ بھائی بہنوں کی دعاؤں کے حصار میں تازہ دم رہتے ہیں۔ جس تسلی اور دل جوئی کی وہ سالوں سے منتظر تھی وہ جب ملی تو دل یہ خوشی پاکر دھڑکنا ہی بھول گیا۔ اور وہ اپنے بھائی مہیش کی بانہوں میں مدھم ہوتی سانسوں کے ساتھ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔ بعض اوقات یہ دل بڑے صدمے سہہ جاتا ہے اور کبھی محض ایک خوشی کا بوجھ نہیں اٹھا پاتا۔ محبتوں کی تجدید کا یہ ایک انوکھا واقعہ ہے۔ مہیش بھائی بھی پرنم آنکھوں سے دوبارہ اس کا جسد خاکی واپس جاتا ہوا دیکھتے رہے۔

ایک بار پھر سرحدوں کی بندش آڑے آ گئی۔ وہ آخری گھڑی میں اس کے ہمسفر نہ بن پائے۔ سالوں کے انتظار کا یہ المناک انجام دیکھ کر نہ جانے کتنی محبت بھری آنکھیں بے اختیار اشکبار ہوئیں۔ دلوں کی کسک بھی بے تحاشا بڑھ گئی۔

مجھے بھی بے اختیار فیض احمد فیضؔ کی نظم ہارٹ اٹیک یاد آ گئی:

درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے

پھر رگ جاں سے الجھنا چاہا


پھر بن مو سے ٹپکنا چاہا

اور کہیں دور تیرے صحن میں گویا

پتا پتا میرے افسردہ لہو میں دھل کر

حسن مہتاب سے آرزدہ نظر آنے لگا

میرے ویرانہ تن میں گویا

سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر

سلسلہ وار پتہ دینے لگیں

رخصت قافلہ شوق کی تیاری کا

اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں

ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا

درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا

ہم نے چاہا بھی' مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
Load Next Story