ہجرتی پرندوں کے دکھ اور دکھ دینے والے
ہماری تہذیب میں مہمانوں کا احترام کیا جاتا ہے اور ان کے آرام و قیام کا خاص خیال رکھا جاتا ہے
آج (تیرہ مئی) ہجرتی پرندوں کا عالمی دن ہے۔یہ اقوامِ متحدہ کے ان مخصوص دنوں میں شامل ہے جو ہر برس دو بار (مئی اور اکتوبر کا دوسرا سنیچر) منایا جاتا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ جو پرندے اکتوبر کے بعد سے شمال کے سرد علاقوں سے جنوب کے گرم علاقوں کی جانب پرواز کرتے ہیں وہ پھر اپریل مئی میں واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں۔
ہماری تہذیب میں مہمانوں کا احترام کیا جاتا ہے اور ان کے آرام و قیام کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔مگر یہ کلیہ مہمان پرندوں پر شاید ہی لاگو ہوتا ہو جو ہر برس اپنے مخصوص موسموں میں شمالاً جنوباً خوراک کی تلاش یا افزائش نسل کے فطری تقاضوں کی تکمیل کے لیے ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں۔
راستے میں جگہ جگہ آرام اور خوراک کے لیے قیام کرتے ہیں اور ہم ان کا استقبال گولیوں اور طرح طرح کی رکاوٹوں سے کرتے ہیں۔
کونجوں کی ڈار ہماری لوک داستانوں اور شاعری میں محبت و خوش بختی کی علامت ہے۔ منڈیر پر بیٹھا کوا مہمانوں کی آمد کا نقیب سمجھا جاتا ہے۔مگر تلور، مرغابی ، بگلے ، چڑیوں سمیت ایسے کسی پنچھی کو مہمان نہیں سمجھا جاتا جو حلال پرندوں کی فہرست میں شامل ہو۔
ہماری دائمی بھوک اور قید کرنے کے شوق یا پکڑ کے فروخت کرنے کی لالچ کے ہاتھوں کئی ہجرتی پرندوں کی نسلیں بیخ کنی کی کگار تک پہنچ گئی ہیں۔
حالانکہ ہجرتی پرندوں اور جانوروں کے تحفظ و بہبود کے عالمی کنونشن (سی ایم ایس) کے تحت ہر برس لاکھوں کی تعداد میں موسمی ہجرت کرنے والے جان داروں کے تحفظ و دیکھ بھال کی ذمے داری ان تمام ریاستوں پر قانوناً عائد ہوتی ہے جنھوں نے اس کنونشن پر دستخط کیے ہیں یا جن ریاستوں کی حدود سے یہ پرندے گذرتے یا ٹھہرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پرندوں کی لگ بھگ دس ہزار اقسام میں سے بیس فیصد یعنی دو ہزار اقسام ہر سال سرد علاقوں سے گرم علاقوں کی جانب اور پھر واپس ہجرت کرتے ہیں۔
ان کی تین بڑی پروازی راہداریاں ہیں۔افریقن یوریشین راہداری ، ایسٹ ایشین آسٹریلیشین راہداری اور امریکن راہداری۔
عام طور پر یہ پرندے غول کی شکل میں سفر کرتے ہیں اور کھلے سمندر پر پرواز کرنے کے بجائے ساحل کے ساتھ ساتھ یا پھر ایسی جگہ سے سمندر پار کرتے ہیں جو آبنائے کی صورت ہو۔ مثلاً افریقن یوریشین روٹ پر ہجرت کرنے والے پرندے عموماً جبرالٹر یا آبنائے باسفورس کے اوپر سے گذرتے ہیں۔
ان ہجرتیوں میں بری، بحری اور شکاری سب ہی طرح کے پرند شامل ہیں۔ضروری نہیں کہ تمام پرندے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے ہی کریں۔کئی اقسام موسم کی شدت سے بچنے یا افزائشِ نسل یا آب و دانہ کی تلاش کے لیے سیکڑوں میل کی آمد و رفت پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔
کئی پرندے ایسے بھی ہیں جو کرہِ شمالی سے کرہ جنوبی تک (آرکیٹک سرکل تا انٹارکٹیکا) سفر بھی کرتے ہیں۔مثلاً آرکیٹک ٹرن نامی پرندہ برطانیہ کے مشرقی ساحل سے جنوبی آسٹریلیا تک بائیس ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہے۔کچھ پرندے الاسکا تا آسٹریلیا گیارہ ہزار کلو میٹر کا سفر بنا کہیں اترے ایک ہی سانس میں مکمل کرتے ہیں۔
یہ اس لیے ممکن ہے کہ پرواز سے قبل ان کا آدھا وزن چربی پر مشتمل ہوتا ہے جو انھیں پورے راستے توانائی فراہم کرتا ہے اور جب وہ منزل پر اترتے ہیں تب تک چربی پگھلنے کے سبب ان کا وزن نصف رہ جاتا ہے۔
پینگوئن اڑ نہیں سکتے مگر موسمِ سرما میں انٹارکٹیکا سے ساؤتھ جارجیا کے جزائر تک ایک ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر ڈبکیاں لگاتے ہوئے طے کرتے ہیں اور موسمِ گرما میں دوبارہ انٹارکٹیکا کی چٹانوں کی جانب سفر کرتے ہیں جہاں ان کا سالانہ اجتماع ہوتاہے اور ہزاروں پینگوئنز کی بھیڑ میں سے وہ اپنے بچے حیرت انگیز طور پر تلاش کر لیتے ہیں۔
مگر ہمیں ان پرندوں کی سالانہ ہجرت کا کیا فائدہ ہے؟ وہ راستے میں جہاں جہاں قیام کرتے ہیں فصلوں کے لیے مضرِ صحت کیڑوں کو چٹ کر جاتے ہیں۔
درحقیقت یہ پرندے پورے راستے میں نباتاتی پھول ، بیج اور زمین کے صحت بخش زرخیز اجزا پھیلاتے اور گراتے چلے جاتے ہیں اور یوں پولی نیشن کے عمل سے جنگلی حیات کو حیاتِ نو بخشنے کا بنیادی وسیلہ بنتے ہیں۔
ترقی کے نام پر بے لگام انسانی سرگرمیاں، اونچی عمارات، بجلی کی تاریں، پلاسٹک زدہ آلودگی، موسمی تسلسل میں اچانک بدلاؤ، شکار، قید، راستے میں پڑنے والے آبی ذخائر کا خشک ہو جانا، خشک سالی، بے وقت برسات، جنگلاتی آتشزدگی، کییمکل زدہ زمین و نباتات سمیت بیسییوں اسباب ان مہمان پرندوں کی اموات ، زخموں اور راہ بھٹک جانے کا سبب بنتے ہیں۔
لہٰذا واپسی کے سفر میں بہت سے پرندے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔اسی لیے ان کے قیام و طعام و نسلی افزائش کے لیے وسیع جنگلاتی و بیابانی رقبے ، آبی ذرایع اور نسلی تحفظ کے لیے شکار اور پکڑ پر کڑی پابندی سمیت ملکی و بین الاقوامی قوانین کی پاسداری ازبس ضروری ہے۔یہ محض ہجرتی پرندے نہیں بلکہ ہماری اپنی بقائی زنجیر کی بنیادی کڑیاں ہیں۔
ان ہجرتی پرندوں کو ان کے تحفظ کے عالمی کنونشن (سی ایم ایس)، بقائی خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی غیرقانونی خرید و فروخت کی روک تھام کے کنونشن (سائٹس)، دلدلی علاقوں کے تحفظ کے کنونشن (رامسر) اور ملکی قوانین کی ڈھال میسر ہے۔مگر اس ڈھال میں بدنیتی اور موشگافیوں کے اتنے چھید ہیں کہ خود یہ قوانین شدید زخمی اور معذور ہیں۔
مثلاً پاکستان میں ہر سال موسم ِ سرما میں وسطی ایشیا اور مغربی چین سے اترنے والے تلور کو نسل کشی سے بچانے کے لیے اس کے شکار پر مکمل پابندی ہے۔پھر بھی عرب شکاریوں کو ہر سال پرمٹ جاری ہو جاتا ہے۔جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تلور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے۔
اسی طرح سندھ کی جھیلوں پر ہر موسمِ سرما میں سائبیریائی پرندوں کا جھنڈ اتنی تعداد میں اترتا تھا کہ جھیل ان کے پروں تلے چھپ جاتی تھی۔ جب سے جھیلیں آلودہ پانی ا ور فضلے سے زہریلی ہو گئی ہیں۔مہمان پرندے اپنی ان سابقہ آرام گاہوں کو حسرت سے دیکھتے ہوئے سرحد پار راجھستان اور گجرات میں اتر جاتے ہیں۔
اگر آج کا دن ان مہمان پرندوں کی دیکھ بھال کے لیے چند ذہنوں میں ہی کوئی جوت جگا دے تو سمجھیے اس مضمون کا مقصد پورا ہو گیا۔یہ وہ مہمان ہیں جو ہم سے کچھ لے کے نہیں جاتے بلکہ بہت کچھ دے کے جاتے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
وجہ یہ ہے کہ جو پرندے اکتوبر کے بعد سے شمال کے سرد علاقوں سے جنوب کے گرم علاقوں کی جانب پرواز کرتے ہیں وہ پھر اپریل مئی میں واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں۔
ہماری تہذیب میں مہمانوں کا احترام کیا جاتا ہے اور ان کے آرام و قیام کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔مگر یہ کلیہ مہمان پرندوں پر شاید ہی لاگو ہوتا ہو جو ہر برس اپنے مخصوص موسموں میں شمالاً جنوباً خوراک کی تلاش یا افزائش نسل کے فطری تقاضوں کی تکمیل کے لیے ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں۔
راستے میں جگہ جگہ آرام اور خوراک کے لیے قیام کرتے ہیں اور ہم ان کا استقبال گولیوں اور طرح طرح کی رکاوٹوں سے کرتے ہیں۔
کونجوں کی ڈار ہماری لوک داستانوں اور شاعری میں محبت و خوش بختی کی علامت ہے۔ منڈیر پر بیٹھا کوا مہمانوں کی آمد کا نقیب سمجھا جاتا ہے۔مگر تلور، مرغابی ، بگلے ، چڑیوں سمیت ایسے کسی پنچھی کو مہمان نہیں سمجھا جاتا جو حلال پرندوں کی فہرست میں شامل ہو۔
ہماری دائمی بھوک اور قید کرنے کے شوق یا پکڑ کے فروخت کرنے کی لالچ کے ہاتھوں کئی ہجرتی پرندوں کی نسلیں بیخ کنی کی کگار تک پہنچ گئی ہیں۔
حالانکہ ہجرتی پرندوں اور جانوروں کے تحفظ و بہبود کے عالمی کنونشن (سی ایم ایس) کے تحت ہر برس لاکھوں کی تعداد میں موسمی ہجرت کرنے والے جان داروں کے تحفظ و دیکھ بھال کی ذمے داری ان تمام ریاستوں پر قانوناً عائد ہوتی ہے جنھوں نے اس کنونشن پر دستخط کیے ہیں یا جن ریاستوں کی حدود سے یہ پرندے گذرتے یا ٹھہرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پرندوں کی لگ بھگ دس ہزار اقسام میں سے بیس فیصد یعنی دو ہزار اقسام ہر سال سرد علاقوں سے گرم علاقوں کی جانب اور پھر واپس ہجرت کرتے ہیں۔
ان کی تین بڑی پروازی راہداریاں ہیں۔افریقن یوریشین راہداری ، ایسٹ ایشین آسٹریلیشین راہداری اور امریکن راہداری۔
عام طور پر یہ پرندے غول کی شکل میں سفر کرتے ہیں اور کھلے سمندر پر پرواز کرنے کے بجائے ساحل کے ساتھ ساتھ یا پھر ایسی جگہ سے سمندر پار کرتے ہیں جو آبنائے کی صورت ہو۔ مثلاً افریقن یوریشین روٹ پر ہجرت کرنے والے پرندے عموماً جبرالٹر یا آبنائے باسفورس کے اوپر سے گذرتے ہیں۔
ان ہجرتیوں میں بری، بحری اور شکاری سب ہی طرح کے پرند شامل ہیں۔ضروری نہیں کہ تمام پرندے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے ہی کریں۔کئی اقسام موسم کی شدت سے بچنے یا افزائشِ نسل یا آب و دانہ کی تلاش کے لیے سیکڑوں میل کی آمد و رفت پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔
کئی پرندے ایسے بھی ہیں جو کرہِ شمالی سے کرہ جنوبی تک (آرکیٹک سرکل تا انٹارکٹیکا) سفر بھی کرتے ہیں۔مثلاً آرکیٹک ٹرن نامی پرندہ برطانیہ کے مشرقی ساحل سے جنوبی آسٹریلیا تک بائیس ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہے۔کچھ پرندے الاسکا تا آسٹریلیا گیارہ ہزار کلو میٹر کا سفر بنا کہیں اترے ایک ہی سانس میں مکمل کرتے ہیں۔
یہ اس لیے ممکن ہے کہ پرواز سے قبل ان کا آدھا وزن چربی پر مشتمل ہوتا ہے جو انھیں پورے راستے توانائی فراہم کرتا ہے اور جب وہ منزل پر اترتے ہیں تب تک چربی پگھلنے کے سبب ان کا وزن نصف رہ جاتا ہے۔
پینگوئن اڑ نہیں سکتے مگر موسمِ سرما میں انٹارکٹیکا سے ساؤتھ جارجیا کے جزائر تک ایک ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر ڈبکیاں لگاتے ہوئے طے کرتے ہیں اور موسمِ گرما میں دوبارہ انٹارکٹیکا کی چٹانوں کی جانب سفر کرتے ہیں جہاں ان کا سالانہ اجتماع ہوتاہے اور ہزاروں پینگوئنز کی بھیڑ میں سے وہ اپنے بچے حیرت انگیز طور پر تلاش کر لیتے ہیں۔
مگر ہمیں ان پرندوں کی سالانہ ہجرت کا کیا فائدہ ہے؟ وہ راستے میں جہاں جہاں قیام کرتے ہیں فصلوں کے لیے مضرِ صحت کیڑوں کو چٹ کر جاتے ہیں۔
درحقیقت یہ پرندے پورے راستے میں نباتاتی پھول ، بیج اور زمین کے صحت بخش زرخیز اجزا پھیلاتے اور گراتے چلے جاتے ہیں اور یوں پولی نیشن کے عمل سے جنگلی حیات کو حیاتِ نو بخشنے کا بنیادی وسیلہ بنتے ہیں۔
ترقی کے نام پر بے لگام انسانی سرگرمیاں، اونچی عمارات، بجلی کی تاریں، پلاسٹک زدہ آلودگی، موسمی تسلسل میں اچانک بدلاؤ، شکار، قید، راستے میں پڑنے والے آبی ذخائر کا خشک ہو جانا، خشک سالی، بے وقت برسات، جنگلاتی آتشزدگی، کییمکل زدہ زمین و نباتات سمیت بیسییوں اسباب ان مہمان پرندوں کی اموات ، زخموں اور راہ بھٹک جانے کا سبب بنتے ہیں۔
لہٰذا واپسی کے سفر میں بہت سے پرندے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔اسی لیے ان کے قیام و طعام و نسلی افزائش کے لیے وسیع جنگلاتی و بیابانی رقبے ، آبی ذرایع اور نسلی تحفظ کے لیے شکار اور پکڑ پر کڑی پابندی سمیت ملکی و بین الاقوامی قوانین کی پاسداری ازبس ضروری ہے۔یہ محض ہجرتی پرندے نہیں بلکہ ہماری اپنی بقائی زنجیر کی بنیادی کڑیاں ہیں۔
ان ہجرتی پرندوں کو ان کے تحفظ کے عالمی کنونشن (سی ایم ایس)، بقائی خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی غیرقانونی خرید و فروخت کی روک تھام کے کنونشن (سائٹس)، دلدلی علاقوں کے تحفظ کے کنونشن (رامسر) اور ملکی قوانین کی ڈھال میسر ہے۔مگر اس ڈھال میں بدنیتی اور موشگافیوں کے اتنے چھید ہیں کہ خود یہ قوانین شدید زخمی اور معذور ہیں۔
مثلاً پاکستان میں ہر سال موسم ِ سرما میں وسطی ایشیا اور مغربی چین سے اترنے والے تلور کو نسل کشی سے بچانے کے لیے اس کے شکار پر مکمل پابندی ہے۔پھر بھی عرب شکاریوں کو ہر سال پرمٹ جاری ہو جاتا ہے۔جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تلور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے۔
اسی طرح سندھ کی جھیلوں پر ہر موسمِ سرما میں سائبیریائی پرندوں کا جھنڈ اتنی تعداد میں اترتا تھا کہ جھیل ان کے پروں تلے چھپ جاتی تھی۔ جب سے جھیلیں آلودہ پانی ا ور فضلے سے زہریلی ہو گئی ہیں۔مہمان پرندے اپنی ان سابقہ آرام گاہوں کو حسرت سے دیکھتے ہوئے سرحد پار راجھستان اور گجرات میں اتر جاتے ہیں۔
اگر آج کا دن ان مہمان پرندوں کی دیکھ بھال کے لیے چند ذہنوں میں ہی کوئی جوت جگا دے تو سمجھیے اس مضمون کا مقصد پورا ہو گیا۔یہ وہ مہمان ہیں جو ہم سے کچھ لے کے نہیں جاتے بلکہ بہت کچھ دے کے جاتے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)