سب سے اہم مسئلہ
آج حکمرانوں کے نزدیک اہم مسئلہ پرویز مشرف کو سزا دلانا اہم مسئلہ ہو سکتا ہے مگر عوام کے نزدیک ایسا نہیں۔۔۔
سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ملک کا سب سے اہم مسئلہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف نہیں بلکہ دہشت گردی، مہنگائی، بیروزگاری و دیگر ہیں مگر موجودہ حکومت نے اپنے انتقام کے لیے اس کو سب سے اہم مسئلہ بنا رکھا ہے اور جان بوجھ کر انھیں اپنی والدہ کی عیادت کے لیے دبئی جانے نہیں دیا جا رہا جب کہ پرویز مشرف کی ہر مقدمے میں ضمانت ہو چکی ہے اور وہ دلیری سے تمام مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف 13 سال قبل اپنی آنکھوں میں سنہری خواب سجائے سابق آرمی چیف جنرل کیانی اور اپنے دوستوں کے منع کرنے کے باوجود عام انتخابات میں حصہ لینے وطن واپس آئے تھے اور ان کا ایئرپورٹ پر کوئی قابل ذکر استقبال نہیں ہوا تھا۔ جس سے ان کے خواب ضرور بکھر گئے ہوں گے اور بعد میں ان پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی بھی لگی ان پر متعدد مقدمات بھی قائم ہوتے رہے اور آخر میں ایک اہم مقدمے میں جا پھنسے جس کا گزشتہ تین ماہ سے بہت زیادہ تذکرہ ملک بھر میں ہر ایک کی زبان پر ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ سابق صدر کا کیا بنے گا۔ کیا وہ ملک سے باہر چلے جائیں گے کیا انھیں آئین پاکستان سے انحراف پر آرٹیکل 6 کے تحت سزا ہو جائے گی اور بعد میں وہ بھی کسی غیر ملکی ضمانت پر ملک سے باہر بھیج دیے جائیں گے۔
پرویز مشرف پر جس اہم مقدمے میں فرد جرم عاید ہو چکی ہے اس پر سیاسی حلقوں میں بھی تنقید ہوئی ہے کہ افواج پاکستان کے سابق سربراہ پر ملک سے غداری کا الزام کسی بھی طرح مناسب نہیں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے آئین سے انحراف کیا تھا۔
سابق فوجی صدر فرد جرم میں لگائے گئے الزامات کی عدالت میں سختی سے تردید کر چکے ہیں اور اس اہم مقدمے نے سابق صدر کو جتنی شہرت دی ہے اور وہ میڈیا اور عوامی و سیاسی حلقوں میں جس قدر زیادہ زیر بحث ہیں اتنی مقبولیت تو انھیں اپنے با اختیار عہد اقتدار میں بھی نہیں ملی تھی اور اتنی بڑی تعداد میں انھیں عوامی ہمدردی بھی حاصل نہیں تھی جتنی گزشتہ تین ماہ میں حاصل ہوئی ہے اور وہ مسلسل میڈیا میں آ رہے ہیں۔ اس عرصے میں بعض حلقوں کے نزدیک ان کے بہادر اور کمانڈو ہونے کا راز بھی کھل چکا ہے۔ فوجی اسپتال میں طویل عرصہ موجود رہے اور طلبی کے باوجود عدالت میں پیش نہ ہونے پر بھی کڑی تنقید ہوئی اور متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔
البتہ عوام بھی اب جنرل پرویز مشرف کے سلسلے میں دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور ان کے ہمدردوں اور مخالفین کی تعداد بھی بڑھی ہے اور جو لوگ اس سلسلے میں غیر جانبدار تھے وہ بھی اب رائے زنی کر رہے ہیں۔آرٹیکل 6 کے تحت قائم مقدمے سے اب یہ صاف ظاہر ہو چکا ہے کہ انھیں با اختیار حلقوں کی مکمل حمایت حاصل ہے اور افواج پاکستان اپنے سابق سربراہ سے لاتعلق نہیں ہے اور مقدمہ انھیں قبول نہیں ہے۔اس سلسلے میں میڈیا میں آنے والی خبروں کی فوجی ترجمان کی طرف سے کوئی تردید یا تائید سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے دیے گئے بیان کی طرح نہیں ہوئی مگر عدالت آنے کی بجائے اچانک فوجی اسپتال پہنچا دیے جانے اور بعد میں طویل قیام نے عوام پر سب کچھ ظاہر کر دیا ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے سابق صدر کی سیکیورٹی اور سفر جو سرکاری اخراجات آ رہے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے پندرہ سولہ سو اہلکاروں کی تعیناتی سے بھی ملک میں اظہار تشویش کیا جا رہا ہے کیونکہ سابق صدر کی حفاظت پر آنے والے اخراجات عوام کی جیب سے ہی نکل رہے ہیں اور نئے بجٹ میں بھی نکالے جائیں گے۔ سابق فوجی صدر کو اپنے آمرانہ دور میں کیے گئے بعض فیصلوں کے باعث شدید خطرات کا سامنا ہے اور ان کی زندگی خطرے میں ہے جس کا اظہار ان کی طرف سے عدالتوں میں بھی کیا گیا ہے اور وہ اپنی جان کے تحفظ کے باعث عدالتوں سے غیر حاضر رہنے پر مجبور بھی ہوئے اور اگر پیش بھی ہوئے تو انھیں چک شہزاد یا فوجی اسپتال سے متعلقہ عدالتوں تک پہنچانا حکومت ہی کے لیے اہم مسئلہ بنا ہوا ہے اور پندرہ سولہ سو اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگا کر انھیں بحفاظت لانے لے جانے پر روزانہ بھاری اخراجات آ رہے ہیں جو ماہانہ کروڑوں روپے بنتے ہیں۔
جو ملک و قوم پر ایک غیر ضروری بوجھ بن کر رہ گیا ہے اور اس مالی نقصان کی سزا بھی اسی ملک کے عوام کے نصیب میں لکھی ہے جسے سیاسی حکومتوں سے امسال بھی کوئی ریلیف نہیں ملا اور جنرل مشرف کے 9 سالہ اقتدار کے بعد اقتدار میں آنے والی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آمر کے دور سے زیادہ مہنگائی بڑھا کر جو سزا دی ہے۔ اس کے بعد عوام خود آمرانہ اور جمہوری ادوار کے موازنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور 6 سال قبل جو لوگ مشرف حکومت کو برا بھلا کہتے تھے وہ اب آمرانہ دور کو جمہوری حکومتوں سے کہیں بہتر کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہی لوگ اب جمہوری حکمرانوں کی کرپشن، من مانے فیصلوں، اقربا پروری، غیر قانونی تقرریوں، مہنگائی، اپنوں کو نوازنے کی پالیسی کے باعث بیزار آ گئے ہیں اور سابق فوجی صدر کے حامی بن گئے ہیں اور سابق صدر کی حفاظت دیکھ کر یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ ملک سے چلے جائیں ہی تو بہتر ہے۔
عوام نو سالہ آمریت اور 6 سالہ جمہوریت کا موازنہ کرتے ہوئے جمہوریت سے بدظن ہو رہے ہیں۔
پرویز مشرف کو افواج پاکستان کی حمایت حاصل ہونے کا تاثر عام ہے اور فوج اور موجودہ حکومت کے درمیان بڑھنے والے فاصلوں نے حکومت کے لیے خطرات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ حکومت لاکھ کہے کہ وہ پرویز مشرف کے مسئلے پر آرمی چیف سے مشاورت نہیں کرتی مگر عوام ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ سیاستدانوں ہی کے باعث ملک میں ماضی میں فوجی حکومتیں قائم ہوئیں جن کا خیر مقدم اور ساتھ سیاستدانوں ہی نے ہمیشہ دیا۔ فوجی دور میں اس کی حمایت اور بعد میں مخالفت بھی سیاستدانوں ہی کا وتیرہ رہا ہے۔ ماضی میں عدالتوں نے ہی آمروں کو جائز قرار دیا اور یہ سب کچھ تماشا دیکھتے رہے۔
آج حکمرانوں کے نزدیک اہم مسئلہ پرویز مشرف کو سزا دلانا اہم مسئلہ ہو سکتا ہے مگر عوام کے نزدیک ایسا نہیں ہے عوام کے مسائل کچھ اور ہیں اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ سابق فوجی صدر پر آئین سے انحراف پر فرد جرم عاید ہوئی ہے اور یہی بہت ہے اس لیے پرویز مشرف معاملے کو طول دینے کی بجائے اس کمبل سے جلد جان چھڑانے ہی میں بہتری واقع ہو سکتی ہے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف 13 سال قبل اپنی آنکھوں میں سنہری خواب سجائے سابق آرمی چیف جنرل کیانی اور اپنے دوستوں کے منع کرنے کے باوجود عام انتخابات میں حصہ لینے وطن واپس آئے تھے اور ان کا ایئرپورٹ پر کوئی قابل ذکر استقبال نہیں ہوا تھا۔ جس سے ان کے خواب ضرور بکھر گئے ہوں گے اور بعد میں ان پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی بھی لگی ان پر متعدد مقدمات بھی قائم ہوتے رہے اور آخر میں ایک اہم مقدمے میں جا پھنسے جس کا گزشتہ تین ماہ سے بہت زیادہ تذکرہ ملک بھر میں ہر ایک کی زبان پر ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ سابق صدر کا کیا بنے گا۔ کیا وہ ملک سے باہر چلے جائیں گے کیا انھیں آئین پاکستان سے انحراف پر آرٹیکل 6 کے تحت سزا ہو جائے گی اور بعد میں وہ بھی کسی غیر ملکی ضمانت پر ملک سے باہر بھیج دیے جائیں گے۔
پرویز مشرف پر جس اہم مقدمے میں فرد جرم عاید ہو چکی ہے اس پر سیاسی حلقوں میں بھی تنقید ہوئی ہے کہ افواج پاکستان کے سابق سربراہ پر ملک سے غداری کا الزام کسی بھی طرح مناسب نہیں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے آئین سے انحراف کیا تھا۔
سابق فوجی صدر فرد جرم میں لگائے گئے الزامات کی عدالت میں سختی سے تردید کر چکے ہیں اور اس اہم مقدمے نے سابق صدر کو جتنی شہرت دی ہے اور وہ میڈیا اور عوامی و سیاسی حلقوں میں جس قدر زیادہ زیر بحث ہیں اتنی مقبولیت تو انھیں اپنے با اختیار عہد اقتدار میں بھی نہیں ملی تھی اور اتنی بڑی تعداد میں انھیں عوامی ہمدردی بھی حاصل نہیں تھی جتنی گزشتہ تین ماہ میں حاصل ہوئی ہے اور وہ مسلسل میڈیا میں آ رہے ہیں۔ اس عرصے میں بعض حلقوں کے نزدیک ان کے بہادر اور کمانڈو ہونے کا راز بھی کھل چکا ہے۔ فوجی اسپتال میں طویل عرصہ موجود رہے اور طلبی کے باوجود عدالت میں پیش نہ ہونے پر بھی کڑی تنقید ہوئی اور متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔
البتہ عوام بھی اب جنرل پرویز مشرف کے سلسلے میں دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور ان کے ہمدردوں اور مخالفین کی تعداد بھی بڑھی ہے اور جو لوگ اس سلسلے میں غیر جانبدار تھے وہ بھی اب رائے زنی کر رہے ہیں۔آرٹیکل 6 کے تحت قائم مقدمے سے اب یہ صاف ظاہر ہو چکا ہے کہ انھیں با اختیار حلقوں کی مکمل حمایت حاصل ہے اور افواج پاکستان اپنے سابق سربراہ سے لاتعلق نہیں ہے اور مقدمہ انھیں قبول نہیں ہے۔اس سلسلے میں میڈیا میں آنے والی خبروں کی فوجی ترجمان کی طرف سے کوئی تردید یا تائید سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے دیے گئے بیان کی طرح نہیں ہوئی مگر عدالت آنے کی بجائے اچانک فوجی اسپتال پہنچا دیے جانے اور بعد میں طویل قیام نے عوام پر سب کچھ ظاہر کر دیا ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے سابق صدر کی سیکیورٹی اور سفر جو سرکاری اخراجات آ رہے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے پندرہ سولہ سو اہلکاروں کی تعیناتی سے بھی ملک میں اظہار تشویش کیا جا رہا ہے کیونکہ سابق صدر کی حفاظت پر آنے والے اخراجات عوام کی جیب سے ہی نکل رہے ہیں اور نئے بجٹ میں بھی نکالے جائیں گے۔ سابق فوجی صدر کو اپنے آمرانہ دور میں کیے گئے بعض فیصلوں کے باعث شدید خطرات کا سامنا ہے اور ان کی زندگی خطرے میں ہے جس کا اظہار ان کی طرف سے عدالتوں میں بھی کیا گیا ہے اور وہ اپنی جان کے تحفظ کے باعث عدالتوں سے غیر حاضر رہنے پر مجبور بھی ہوئے اور اگر پیش بھی ہوئے تو انھیں چک شہزاد یا فوجی اسپتال سے متعلقہ عدالتوں تک پہنچانا حکومت ہی کے لیے اہم مسئلہ بنا ہوا ہے اور پندرہ سولہ سو اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگا کر انھیں بحفاظت لانے لے جانے پر روزانہ بھاری اخراجات آ رہے ہیں جو ماہانہ کروڑوں روپے بنتے ہیں۔
جو ملک و قوم پر ایک غیر ضروری بوجھ بن کر رہ گیا ہے اور اس مالی نقصان کی سزا بھی اسی ملک کے عوام کے نصیب میں لکھی ہے جسے سیاسی حکومتوں سے امسال بھی کوئی ریلیف نہیں ملا اور جنرل مشرف کے 9 سالہ اقتدار کے بعد اقتدار میں آنے والی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آمر کے دور سے زیادہ مہنگائی بڑھا کر جو سزا دی ہے۔ اس کے بعد عوام خود آمرانہ اور جمہوری ادوار کے موازنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور 6 سال قبل جو لوگ مشرف حکومت کو برا بھلا کہتے تھے وہ اب آمرانہ دور کو جمہوری حکومتوں سے کہیں بہتر کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہی لوگ اب جمہوری حکمرانوں کی کرپشن، من مانے فیصلوں، اقربا پروری، غیر قانونی تقرریوں، مہنگائی، اپنوں کو نوازنے کی پالیسی کے باعث بیزار آ گئے ہیں اور سابق فوجی صدر کے حامی بن گئے ہیں اور سابق صدر کی حفاظت دیکھ کر یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ ملک سے چلے جائیں ہی تو بہتر ہے۔
عوام نو سالہ آمریت اور 6 سالہ جمہوریت کا موازنہ کرتے ہوئے جمہوریت سے بدظن ہو رہے ہیں۔
پرویز مشرف کو افواج پاکستان کی حمایت حاصل ہونے کا تاثر عام ہے اور فوج اور موجودہ حکومت کے درمیان بڑھنے والے فاصلوں نے حکومت کے لیے خطرات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ حکومت لاکھ کہے کہ وہ پرویز مشرف کے مسئلے پر آرمی چیف سے مشاورت نہیں کرتی مگر عوام ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ سیاستدانوں ہی کے باعث ملک میں ماضی میں فوجی حکومتیں قائم ہوئیں جن کا خیر مقدم اور ساتھ سیاستدانوں ہی نے ہمیشہ دیا۔ فوجی دور میں اس کی حمایت اور بعد میں مخالفت بھی سیاستدانوں ہی کا وتیرہ رہا ہے۔ ماضی میں عدالتوں نے ہی آمروں کو جائز قرار دیا اور یہ سب کچھ تماشا دیکھتے رہے۔
آج حکمرانوں کے نزدیک اہم مسئلہ پرویز مشرف کو سزا دلانا اہم مسئلہ ہو سکتا ہے مگر عوام کے نزدیک ایسا نہیں ہے عوام کے مسائل کچھ اور ہیں اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ سابق فوجی صدر پر آئین سے انحراف پر فرد جرم عاید ہوئی ہے اور یہی بہت ہے اس لیے پرویز مشرف معاملے کو طول دینے کی بجائے اس کمبل سے جلد جان چھڑانے ہی میں بہتری واقع ہو سکتی ہے۔