’’ کلمہ حصر ‘‘ کیا ہوتا ہے
ایک ایسا شخص جس نے روسی زبان پر روس ہی میں قدرت حاصل کی اور دو جِلدوں میں روسی اردو۔ اردو روسی لغت مرتب کر دی
ہم نے ہندوستان کے سب سے بڑے روزنامے ( انقلاب۔ ممبئی) میں کوئی بائیس برس کام کیا ہے، اس کے علاوہ ممبئی کے دیگر روزناموں میں مزید دس برس کا عرصہ بھی بہرطور کارآمد رہا۔
بتیس (32) سالہ اخباری ملازمت میں ہم نے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا ، بلکہ یوں کہیے کہ ہم اخبار میں کام کر کے ردی نہیں ہوئے بلکہ زندگی کو، دنیا کو سمجھنے میں اس کام سے بہت مدد ملی۔
اخبار کے کام میں یہ ایک بات بہت ' عجب ' ہے کہ لوگ اپنی تحریر کی اشاعت کے لیے حد درجہ آپ کی عزت اور تکریم کرنے لگتے ہیں جو در اصل آپ کو ایک فریب میں مبتلا کرنا ہوتا ہے، ان کی اِس جھوٹی عزت وتکریم سے ابن ِآدم ہونے کے باوصف ہم میں فخر و افتخار ہی نہیں بلکہ ایک قسم کا غرور بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ '' ہم بھی کچھ ہیں '' یہ فریب ہے یا نہیں، اس کی حقیقت کو سمجھنا ہو تو کچھ مدت کے لیے اخبارکی ادارت سے علیحدہ ہوکر دیکھیے، جنابِ مدیرکا سارا بھرم چند دِن میں کافور ہوجائے گا۔
(دکن ) کے مشہور شاعر امجد حیدر آبادی اپنی ایک رباعی کے ساتھ یاد آتے ہیں، ان کی اس رباعی کا موضوع تو ہے ہی ایک درس، مگر اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ عام شاعروں کے لیے رباعی کی تیکنیک کا یہ ایک ' سبق ' بن گئی ہے، جس میں اس صنف کا ایک خاص وزن نہایت سلیقے سے واضح ہوگیا ہے، وہ رباعی یوں ہے۔
اِنسان ، سمجھتا ہے کہ مَیں بھی کچھ ہوں
نادان ، سمجھتا ہے کہ مَیں بھی کچھ ہوں
لاحول ولا قوۃ اِلا باللہ
شیطان ، سمجھتا ہے کہ مَیں بھی کچھ ہوں
ہم نے روزنامہ انقلاب کی ملازمت کے دوران کوئی چھ ایڈیٹروں کی معیت میں کام کیا، اور سب سے ہم نے کچھ نہ کچھ اکتساب کیا۔ ڈاکٹر ظ انصاری ادب کا ایک مشہور و موقر کردار ہے، یہ حضرت ِ والا ، انقلاب جیسے روزنامے کے دو بار مدیر بنائے گئے ، پہلے تو پانچویں دہائی میں انھوں نے ادارت کا منصب سنبھالا اور پھر 1986 میں انقلاب (ممبئی) کے ایڈیٹر بنے، انقلاب کے دوسرے دَور میں ہم نے ا ن کے ساتھ کام کیا کِیا، بلکہ صحافت اور اخبار کے کئی بنیادی گر سیکھے، ڈاکٹر ظ انصاری ایک مشہور ترین شخص تھے ممبئی یونیورسٹی کے غیر ملکی شعبہ لسانیات کے وہ صدر رہ چکے تھے۔
بقول جمیل جالبی ''... ظ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک درجن کے قریب روسی شاہکاروں کو براہ راست روسی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا ، وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے روسی کلاسیکل شاعری کے منظوم ترجمے کیے، وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ماقبل اور مابعد انقلاب ، روسی شاعری کے اردو میں ترجمے کیے، ڈاکٹر ظ انصاری نے تنِ تنہا جتنا کام کیا اتنا کام اتنے عرصے (صرف 65 برس کی عمر) میں ادارے بھی نہیں کر پاتے، دن رات کام ، کام اورکام... یہی ا ن کی زندگی تھی۔''
ایک ایسا شخص جس نے روسی زبان پر روس ہی میں قدرت حاصل کی اور دو جِلدوں میں روسی اردو۔ اردو روسی لغت مرتب کر دی۔ یہ تو ا ن کا ایک اِجمالی علمی تعارف ہوا، مرحوم کا صحافتی کردار تو ایسا تھا کہ لوگ صبح اخبارکی ہیڈ لائن کے فوراً بعد وہ صفحہ پہلے دیکھتے تھے جس پر ان کا اداریہ ہوتا تھا۔ ( ظ مرحوم کے اداریوں کا ایک انتخاب '' کانٹوں کی زبان'' بھی شایع ہو چکا ہے)، ا ن کے ایک وصف کو یہاں بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ اپنے سے ہرطرح کے چھوٹے فرد کی بات سنتے ہی نہیں تھے بلکہ وہ بات صحیح ہو تو اسے قبول کرنے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کرتے تھے۔
روزنامہ انقلاب کے ہمارے رفیق ِکار اقبال پٹنی کا واقعہ بیان ہوتا ہے کہ وہ بالکل 'سادہ' بنے ہوئے ظ صاحب کے کیبن میں پہنچے اور کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب ! آپ نے لکھا ہے کہ ''یہ مسجد راجہ نے ' ہی' بنوائی تھی۔'' میرے خیال سے کلمہ حصر...' ہی'... پہلے آئے گا۔ ظ صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔ '' میاں پٹنی ! ہم آپ کے قائل ہوگئے، یقینا کلمہ حصر ... ' ہی '... پہلے آئے گا۔ پٹنی صاحب بتائیے! اس جملے میں تو مَیں نے 'کلمہ حصر' کا صحیح استعمال کیا ہے نا؟ '' بھائی پٹنی اب ہم میں نہیں ہیں مگر وہ اپنی زندگی کے آخر تک مندرجہ بالا واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ ہو کر کہتے تھے کہ ظ صاحب کیسے ' بڑے' شخص تھے کہ ہم جیسے چھوٹوں کی بات بھی ماننے میں تردد نہیں کرتے تھے۔
افسوس اردو کے اکثر اساتذہ، شعرا اور ادبا کے ہاں کلمہ حصرکا آج غلط استعمال عام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ا ن میں سے اکثر ''کلمہ حصر '' کی معنویت کا عرفان نہیں رکھتے۔
فضیل جعفری بھی اردو کے دورِ جدید میں مشہور ناقد اور شاعر تھے وہ بھی روزنامہ انقلاب کے دو بار مدیر بنے۔ ہم نے ان کے ساتھ بھی خاصی مدت کام کیا۔ ا ن سے بھی بہت کچھ سیکھا اور اکتساب کیا، انقلاب میں جمعہ میگزین کی ادارت ہمارے ذمے تھی۔ ایک واقعہ یہاں بیان کرنا ہے کہ اردو کے سینئر تر ممتاز طنز و مزاح نگار یوسف ناظم کا ایک مضمون انقلاب کی جمعہ میگزین میں اشاعت کے لیے ہمارے پاس پہنچا، اس میں کوئی ایک پیراگراف ہمیں کھٹک رہا تھا، ہم نے ایڈیٹر سے مشورہ کیا کہ اس پیرا گراف میں ہم کچھ تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔
فضیل جعفری نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر کہا'' میاں ندیم ! آج آپ کی جتنی عمر ہے ، اتنی مدت سے یوسف ناظم (ادب) لکھ رہے ہیں، وہ آپ سے بہر طور سینئر ہیں، ا ن کی علمی بزرگی کا احترام آپ پر واجب ہے ، وہ کیا، کسی بھی سینئر لکھنے والے کے ساتھ ایسا عمل نہ کیجیے گا، آپ کو محسوس ہو کہ ان کا مضمون ناقابل ِاشاعت ہے تو اسے مت چھاپیے یا پھر ا ن سے کہیے کہ وہ مضمون پر، اس ' جملے' پر نظر ثانی کر لیں اور یہ کہنا بھی آپ کی طرف سے بانداز التماس ہونا چاہیے نہ کہ ' ایڈیٹری' کے زَعم میں۔ کسی بھی صورت ، کسی بھی سینئر قلم کار کی تحریر میں کسی ترمیم و اضافے کا آپ کو ہر گز حق نہیں اور بھول کر بھی اپنے لفظوں کے لقمے ان کی تحریر کے منہ میں نہ ڈالیے کہ یہ عمل، فعل ِ حلال کی ضد ہوگا۔
بتیس (32) سالہ اخباری ملازمت میں ہم نے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا ، بلکہ یوں کہیے کہ ہم اخبار میں کام کر کے ردی نہیں ہوئے بلکہ زندگی کو، دنیا کو سمجھنے میں اس کام سے بہت مدد ملی۔
اخبار کے کام میں یہ ایک بات بہت ' عجب ' ہے کہ لوگ اپنی تحریر کی اشاعت کے لیے حد درجہ آپ کی عزت اور تکریم کرنے لگتے ہیں جو در اصل آپ کو ایک فریب میں مبتلا کرنا ہوتا ہے، ان کی اِس جھوٹی عزت وتکریم سے ابن ِآدم ہونے کے باوصف ہم میں فخر و افتخار ہی نہیں بلکہ ایک قسم کا غرور بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ '' ہم بھی کچھ ہیں '' یہ فریب ہے یا نہیں، اس کی حقیقت کو سمجھنا ہو تو کچھ مدت کے لیے اخبارکی ادارت سے علیحدہ ہوکر دیکھیے، جنابِ مدیرکا سارا بھرم چند دِن میں کافور ہوجائے گا۔
(دکن ) کے مشہور شاعر امجد حیدر آبادی اپنی ایک رباعی کے ساتھ یاد آتے ہیں، ان کی اس رباعی کا موضوع تو ہے ہی ایک درس، مگر اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ عام شاعروں کے لیے رباعی کی تیکنیک کا یہ ایک ' سبق ' بن گئی ہے، جس میں اس صنف کا ایک خاص وزن نہایت سلیقے سے واضح ہوگیا ہے، وہ رباعی یوں ہے۔
اِنسان ، سمجھتا ہے کہ مَیں بھی کچھ ہوں
نادان ، سمجھتا ہے کہ مَیں بھی کچھ ہوں
لاحول ولا قوۃ اِلا باللہ
شیطان ، سمجھتا ہے کہ مَیں بھی کچھ ہوں
ہم نے روزنامہ انقلاب کی ملازمت کے دوران کوئی چھ ایڈیٹروں کی معیت میں کام کیا، اور سب سے ہم نے کچھ نہ کچھ اکتساب کیا۔ ڈاکٹر ظ انصاری ادب کا ایک مشہور و موقر کردار ہے، یہ حضرت ِ والا ، انقلاب جیسے روزنامے کے دو بار مدیر بنائے گئے ، پہلے تو پانچویں دہائی میں انھوں نے ادارت کا منصب سنبھالا اور پھر 1986 میں انقلاب (ممبئی) کے ایڈیٹر بنے، انقلاب کے دوسرے دَور میں ہم نے ا ن کے ساتھ کام کیا کِیا، بلکہ صحافت اور اخبار کے کئی بنیادی گر سیکھے، ڈاکٹر ظ انصاری ایک مشہور ترین شخص تھے ممبئی یونیورسٹی کے غیر ملکی شعبہ لسانیات کے وہ صدر رہ چکے تھے۔
بقول جمیل جالبی ''... ظ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک درجن کے قریب روسی شاہکاروں کو براہ راست روسی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا ، وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے روسی کلاسیکل شاعری کے منظوم ترجمے کیے، وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ماقبل اور مابعد انقلاب ، روسی شاعری کے اردو میں ترجمے کیے، ڈاکٹر ظ انصاری نے تنِ تنہا جتنا کام کیا اتنا کام اتنے عرصے (صرف 65 برس کی عمر) میں ادارے بھی نہیں کر پاتے، دن رات کام ، کام اورکام... یہی ا ن کی زندگی تھی۔''
ایک ایسا شخص جس نے روسی زبان پر روس ہی میں قدرت حاصل کی اور دو جِلدوں میں روسی اردو۔ اردو روسی لغت مرتب کر دی۔ یہ تو ا ن کا ایک اِجمالی علمی تعارف ہوا، مرحوم کا صحافتی کردار تو ایسا تھا کہ لوگ صبح اخبارکی ہیڈ لائن کے فوراً بعد وہ صفحہ پہلے دیکھتے تھے جس پر ان کا اداریہ ہوتا تھا۔ ( ظ مرحوم کے اداریوں کا ایک انتخاب '' کانٹوں کی زبان'' بھی شایع ہو چکا ہے)، ا ن کے ایک وصف کو یہاں بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ اپنے سے ہرطرح کے چھوٹے فرد کی بات سنتے ہی نہیں تھے بلکہ وہ بات صحیح ہو تو اسے قبول کرنے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کرتے تھے۔
روزنامہ انقلاب کے ہمارے رفیق ِکار اقبال پٹنی کا واقعہ بیان ہوتا ہے کہ وہ بالکل 'سادہ' بنے ہوئے ظ صاحب کے کیبن میں پہنچے اور کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب ! آپ نے لکھا ہے کہ ''یہ مسجد راجہ نے ' ہی' بنوائی تھی۔'' میرے خیال سے کلمہ حصر...' ہی'... پہلے آئے گا۔ ظ صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔ '' میاں پٹنی ! ہم آپ کے قائل ہوگئے، یقینا کلمہ حصر ... ' ہی '... پہلے آئے گا۔ پٹنی صاحب بتائیے! اس جملے میں تو مَیں نے 'کلمہ حصر' کا صحیح استعمال کیا ہے نا؟ '' بھائی پٹنی اب ہم میں نہیں ہیں مگر وہ اپنی زندگی کے آخر تک مندرجہ بالا واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ ہو کر کہتے تھے کہ ظ صاحب کیسے ' بڑے' شخص تھے کہ ہم جیسے چھوٹوں کی بات بھی ماننے میں تردد نہیں کرتے تھے۔
افسوس اردو کے اکثر اساتذہ، شعرا اور ادبا کے ہاں کلمہ حصرکا آج غلط استعمال عام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ا ن میں سے اکثر ''کلمہ حصر '' کی معنویت کا عرفان نہیں رکھتے۔
فضیل جعفری بھی اردو کے دورِ جدید میں مشہور ناقد اور شاعر تھے وہ بھی روزنامہ انقلاب کے دو بار مدیر بنے۔ ہم نے ان کے ساتھ بھی خاصی مدت کام کیا۔ ا ن سے بھی بہت کچھ سیکھا اور اکتساب کیا، انقلاب میں جمعہ میگزین کی ادارت ہمارے ذمے تھی۔ ایک واقعہ یہاں بیان کرنا ہے کہ اردو کے سینئر تر ممتاز طنز و مزاح نگار یوسف ناظم کا ایک مضمون انقلاب کی جمعہ میگزین میں اشاعت کے لیے ہمارے پاس پہنچا، اس میں کوئی ایک پیراگراف ہمیں کھٹک رہا تھا، ہم نے ایڈیٹر سے مشورہ کیا کہ اس پیرا گراف میں ہم کچھ تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔
فضیل جعفری نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر کہا'' میاں ندیم ! آج آپ کی جتنی عمر ہے ، اتنی مدت سے یوسف ناظم (ادب) لکھ رہے ہیں، وہ آپ سے بہر طور سینئر ہیں، ا ن کی علمی بزرگی کا احترام آپ پر واجب ہے ، وہ کیا، کسی بھی سینئر لکھنے والے کے ساتھ ایسا عمل نہ کیجیے گا، آپ کو محسوس ہو کہ ان کا مضمون ناقابل ِاشاعت ہے تو اسے مت چھاپیے یا پھر ا ن سے کہیے کہ وہ مضمون پر، اس ' جملے' پر نظر ثانی کر لیں اور یہ کہنا بھی آپ کی طرف سے بانداز التماس ہونا چاہیے نہ کہ ' ایڈیٹری' کے زَعم میں۔ کسی بھی صورت ، کسی بھی سینئر قلم کار کی تحریر میں کسی ترمیم و اضافے کا آپ کو ہر گز حق نہیں اور بھول کر بھی اپنے لفظوں کے لقمے ان کی تحریر کے منہ میں نہ ڈالیے کہ یہ عمل، فعل ِ حلال کی ضد ہوگا۔