اور جلیبیاں بناؤ…
ہر منزل کی طرف جانے والی بسیں اور ویگنیں عین اس کی جلیبیوں کی دکان کے سامنے اڈے پر رکتیں
جوجو کی ہمارے گاؤں میں جلیبیوں کی مشہور دکان تھی، یوں تو گاؤں میں کئی چھوٹی بڑی مٹھائی کی دکانیں تھیں، ان میں شکر پارے، برفی، جلیبی، سموسوں، پکوڑوں اور مکس مٹھائی کی دکانیں بھی تھیں مگر جوجو کی جلیبیاں چہار اطراف میں مشہور تھیں اور ارد گرد کے دیہات سے بھی خاص خاص مواقع پر ، آرڈر پر اس سے منوں کے حساب سے جلیبیاں بنوائی جاتیں۔
باقی دکاندار اسے یوں دن رات کام کرتے اور اس کی دکان پر رش کا عالم دیکھتے تو دل ہی دل میں حسد کرتے اور اوپری طور پر بھی اس کی تعریف نہ کرتے۔ نام تو جانے اس کا کیا تھا مگر دنیا اسے جوجو کے نام سے جانتی تھی۔ اس کے دل میں کبھی کسی کے لیے حسد کا جذبہ نہیں تھا، اس کے پوتے کے ہاں بیٹا ہوا تھا تو اس نے اپنے ہاں کی جلیبی پورے گاؤں میں بانٹی اور رشتہ داروں میں بانٹنے کے لیے اس نے دوسرے دکانداروں سے آرڈر پر مٹھائی بنوائی۔ ان کی بکری بھی ہوئی مگر ان کے دلوں سے حسد پھر بھی کم نہ ہوا تھا۔ وہ بھی جانتے تھے کہ جو پذیرائی جوجو کی جلیبیوں کی تھی ویسی کسی اور کی نہ تھی۔
ہر منزل کی طرف جانے والی بسیں اور ویگنیں عین اس کی جلیبیوں کی دکان کے سامنے اڈے پر رکتیں، جوجو کی ہدایت کے مطابق، فوراً ڈرائیور اور کنڈکٹر کو تازہ تازہ گرما گرم جلیبی کے لفافے مفت میں مل جاتے اور اس کی دکان کے لڑکے بھاگم بھاگ باقی مسافروں کے آرڈر لیتے اور انھیں جلیبیاں سپلائی کرتے۔ چند منٹ کا وقت ہوتا تھا اور ساتھ ساتھ مزید جلیبیاں تیار ہو رہی ہوتی تھیں کیونکہ اس کے بعد بھی کئی بسیں آنا ہوتی تھیں ۔
جوجو کی جلیبی کی مقبولیت سے حاسدین کے سینوں پر سانپ لوٹ لوٹ جاتے اور وہ اس کی بیٹھ پیچھے ہر وقت یہی باتیں کرتے رہتے کہ کس طرح اسے نیچا دکھایا جائے۔ جوجو ان سب باتوں، ان سازشوں سے بے نیاز اپنے کام سے کام رکھتا اور حاسدین سے بھی یوں ہی خلوص سے ملتا رہتا تھا۔ چند برس قبل اس کی دکان پر جانے کا اتفاق ہوا، بلکہ میں نے بالخصوص وہاں جانے کا قصد کیا اور جاننا چاہا کہ اس کی عمر کیا تھی کیونکہ ہمارے بزرگ بھی کہتے تھے کہ وہ اپنے بچپن سے جوجو کی دکان اسی طرح دیکھتے ہوئے آئے ہیں، جوجو بھی ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔
اس نے بتایا کہ جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت وہ جوان جہاں تھا بلکہ اس کے تین چار بچے بھی تھے۔ اس وقت اگر وہ تیس سال کا تھا تو اس حساب سے اس وقت اس کی عمر سو سال کے اریب قریب بن جاتی ہے لیکن اگر ہم اسے کم بھی کر لیں کہ پہلے پہل شادیاں کم عمری میں کی جاتی تھیں تو بھی وہ پچانوے چھیانوے برس کے لگ بھگ تو ہو گا۔
کبھی نہیں سنا کہ وہ بیمار پڑا ہو، جھک کر چلتا ہو، کبھی دکان پر آنے سے ناغہ کیا ہو، کبھی اس کی جلیبی کے معیار میں کوئی فرق پڑا ہو یا کسی روز اس کی جلیبی بچ گئی ہو یعنی بکی نہ ہو یا کسی کو اس سے شکایت ہوئی ہو۔ جلیبی بیچنے کے ساتھ ساتھ، وہ غریبوں کو، چھوٹے چھوٹے بچوں کو، جن مسافروں کو سکت نہ ہوتی انھیں اور گاؤں کے بزرگوں کو وہ یونہی تھوڑی تھوڑی جلیبی دے دیتا تھا۔ اسی وجہ سے اللہ نے اسے ایسی کامل صحت دے رکھی تھی اور اس کے کام میں بھی برکت تھی۔
وہ ہر وقت ہنستا رہتا، مسکراتا رہتا، کسی کی غلط سلط بات سن کر پلٹ کر جواب نہ دیتا تھا، کسی کی لگائی بجھائی پر یقین نہ کرتا اور اپنے کام سے کام ر کھتا تھا۔ گاؤں کے لوگ عموماً اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کی عمر کا کوئی اور بزرگ نہ بچا تھا کہ جس نے اب تک چار پانچ پشتیں اور ملک میں کئی حکومتیں اور انقلاب دیکھ رکھے تھے۔
جوجو کی جس بات پر لوگ حیران ہوتے تھے وہ یہ تھی کہ وہ اپنا کام کسی بھی وجہ سے، کسی بھی موقعے پر نہ رکنے دیتا تھا۔ کسی کی شادی ہو، کسی کے ہاں بچہ ہوا ہو، آندھی آئے یاطوفان، بارش ہو یا کڑاکے کی دھوپ، الیکشن ہو، کوئی چھوٹا موٹا جلسہ، اسکولوں کی تقریبات اور تو اور کسی کی مرگ بھی ہو جاتی تو وہ اپنے لڑکوں سے کہتا کہ اور جلیبی کا مسالہ تیار کرو۔ اس کی جلیبی اس دن بھی ساری کی ساری بک جاتی تھی جس دن گاؤں میں کوئی مرگ ہوئی ہوتی تھی۔ لوگ مرگ والے گھر سے واپس جاتے ہوئے اڈے سے اس کی دکان سے جلیبی خرید کر واپس جاتے۔ بچے بھی ماں باپ سے ضد کر کے اس کی دکان پر ضرور رکتے تھے۔
وہ ایک سادہ دل اور پرخلوص سا آدمی تھا، کسی کے لیے دل میں کینہ نہ رکھتا تھا، اسی وجہ سے اسے کوئی مرض لاحق نہ تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دل و دماغ کا خناس، حسد اور دوسروں کو بہتر حالات میں دیکھ کر ڈیپریشن میں مبتلا ہونا بھی دماغی خلل کے باعث ہوتا ہے۔ کئی بار ان سب دکانداروں نے کوشش کی کہ کسی طرح اس کے کاروبار کو دھچکا دیا جائے، اسے نقصان پہنچایا جائے مگر کسی کو اس میں کامیابی نہ ہوتی تھی، الٹا اس کا کام اور بھی بہتر ہوجاتا تھا۔
جوجو کا اپنا کہنا تھاکہ اسے کسی کے کچھ کہنے سے کبھی فرق ہی نہیں پڑا۔ خراب سے خراب حالات میں بھی اس نے دل ہی دل میں خود سے کہا ہے کہ یہ سب اچھے اور برے حالات، اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں، اس میں کوئی انسان دخل نہیں دے سکتا۔ نہ کوئی مصیبت دے سکتا ہے ماسوائے اللہ تعالی کے اور نہ ہی کوئی اس مصیبت کو ٹال سکتا ہے مگر اللہ تعالی۔
کہنے لگا، میں کوئی بہت زیادہ مذہبی آدمی نہیں ہوں، مذ ہب کا اتنا ہی علم ہے جتنا ہمیں بچپن میں مولوی نے بتا دیا تھا، مگر مجھے اس بات کا علم ہے کہ اللہ تعالی کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کی مخلوق کو تکلیف نہ دیں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ میری وجہ سے کوئی انسان تو انسان ، جانور بھی تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔ میں کسی کو سکھ نہ دے سکوں تو دکھ بھی نہ دوں۔ میں اس لیے کبھی بیمار نہیں ہوتا کہ میں ان چیزوں کے لیے پریشان نہیں ہوتا جو کہ میرے اختیار میں نہیں ہیں۔
پہلے میں اپنی پریشانی میں اپنی اماں سے دعا کے لیے کہتا تھا، اماں نہ رہیں تو بہنیں اور بیوی اور اب میں اپنی بیٹیوں، پوتیوں اور پڑپوتیوں سے کہتا ہوںکہ وہ میرے لیے دعا کیا کریں۔ میں انھیں بھی خوش رکھتا ہوں، ان کے لیے جو کچھ کر سکتا ہوں، اب بھی کرتا ہوں۔ اس عمر میں بھی میں اپنے گھر سے سال بھر اپنی دکان پر خود چل کر آتا ہوں ، سردی ہو یا گرمی، دھوپ ہو یا بارش۔ نہ کوئی بیماری ہے نہ تکلیف، میرے اللہ کا مجھ پر بڑا خاص کرم ہے۔
آپ کا تو بہت توکل ہے اللہ پر اور آپ ہر مسئلے کے حل کے لیے دعا پر یقین رکھتے ہیں مگر کیا ایسا ہی توکل اور یقین آپ کے بچوں اور ان کے بچوں کو بھی ہے؟ میںنے ان سے سوال کیا تھا۔'' ان کے یقین کی تو اللہ ہی جانتا ہے مگر یہ ہے کہ وہ بڑی جلدی پریشان ہو جاتے ہیں، ذرا سی بات پر مسائل کے انبار کھڑے کر لیتے ہیں، خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور اپنے گھر والوں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔''
'' آپ ان کے اس عمر میں تو شاید مسائل کو اہم نہ سمجھتے ہوں مگر نوجوانی میں تو ہر انسان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ اس عمر میں کسی مسئلے کی صورت میںکیاکیا کرتے تھے؟''
'' جو اب کرتا ہوں؟'' وہ ہنس کر بولے، ان کے منہ میں سارے اصلی دانت نظر آ رہے تھے۔
' ' اب کیا کرتے ہیں؟'' میںنے حیرت سے سوال کیا تھا۔
'' اور زیادہ جلیبیاں بناتا ہوں ... ''
'' ہائیں؟'' میںنے سوال کیا۔
'' ہاں میں لڑکوں سے سامان پکڑتا ہوں اور خود جلیبیاں بنانا شروع کر دیتا ہوں، جلیبیوں کے الجھے ہوئے نمونوں میں کھو کر میں زندگی کی الجھنوں کو بھول جاتا ہوں ۔'' انھوں نے جواب دیا، ایک لڑکاایک صاف پلیٹ میں تازہ اور گرما گرم، خوشبو میں بسی جلیبیاں رکھ کر لایا۔ '' لو پتر کھاؤ اور غم بھول جاؤ!!''
باقی دکاندار اسے یوں دن رات کام کرتے اور اس کی دکان پر رش کا عالم دیکھتے تو دل ہی دل میں حسد کرتے اور اوپری طور پر بھی اس کی تعریف نہ کرتے۔ نام تو جانے اس کا کیا تھا مگر دنیا اسے جوجو کے نام سے جانتی تھی۔ اس کے دل میں کبھی کسی کے لیے حسد کا جذبہ نہیں تھا، اس کے پوتے کے ہاں بیٹا ہوا تھا تو اس نے اپنے ہاں کی جلیبی پورے گاؤں میں بانٹی اور رشتہ داروں میں بانٹنے کے لیے اس نے دوسرے دکانداروں سے آرڈر پر مٹھائی بنوائی۔ ان کی بکری بھی ہوئی مگر ان کے دلوں سے حسد پھر بھی کم نہ ہوا تھا۔ وہ بھی جانتے تھے کہ جو پذیرائی جوجو کی جلیبیوں کی تھی ویسی کسی اور کی نہ تھی۔
ہر منزل کی طرف جانے والی بسیں اور ویگنیں عین اس کی جلیبیوں کی دکان کے سامنے اڈے پر رکتیں، جوجو کی ہدایت کے مطابق، فوراً ڈرائیور اور کنڈکٹر کو تازہ تازہ گرما گرم جلیبی کے لفافے مفت میں مل جاتے اور اس کی دکان کے لڑکے بھاگم بھاگ باقی مسافروں کے آرڈر لیتے اور انھیں جلیبیاں سپلائی کرتے۔ چند منٹ کا وقت ہوتا تھا اور ساتھ ساتھ مزید جلیبیاں تیار ہو رہی ہوتی تھیں کیونکہ اس کے بعد بھی کئی بسیں آنا ہوتی تھیں ۔
جوجو کی جلیبی کی مقبولیت سے حاسدین کے سینوں پر سانپ لوٹ لوٹ جاتے اور وہ اس کی بیٹھ پیچھے ہر وقت یہی باتیں کرتے رہتے کہ کس طرح اسے نیچا دکھایا جائے۔ جوجو ان سب باتوں، ان سازشوں سے بے نیاز اپنے کام سے کام رکھتا اور حاسدین سے بھی یوں ہی خلوص سے ملتا رہتا تھا۔ چند برس قبل اس کی دکان پر جانے کا اتفاق ہوا، بلکہ میں نے بالخصوص وہاں جانے کا قصد کیا اور جاننا چاہا کہ اس کی عمر کیا تھی کیونکہ ہمارے بزرگ بھی کہتے تھے کہ وہ اپنے بچپن سے جوجو کی دکان اسی طرح دیکھتے ہوئے آئے ہیں، جوجو بھی ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔
اس نے بتایا کہ جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت وہ جوان جہاں تھا بلکہ اس کے تین چار بچے بھی تھے۔ اس وقت اگر وہ تیس سال کا تھا تو اس حساب سے اس وقت اس کی عمر سو سال کے اریب قریب بن جاتی ہے لیکن اگر ہم اسے کم بھی کر لیں کہ پہلے پہل شادیاں کم عمری میں کی جاتی تھیں تو بھی وہ پچانوے چھیانوے برس کے لگ بھگ تو ہو گا۔
کبھی نہیں سنا کہ وہ بیمار پڑا ہو، جھک کر چلتا ہو، کبھی دکان پر آنے سے ناغہ کیا ہو، کبھی اس کی جلیبی کے معیار میں کوئی فرق پڑا ہو یا کسی روز اس کی جلیبی بچ گئی ہو یعنی بکی نہ ہو یا کسی کو اس سے شکایت ہوئی ہو۔ جلیبی بیچنے کے ساتھ ساتھ، وہ غریبوں کو، چھوٹے چھوٹے بچوں کو، جن مسافروں کو سکت نہ ہوتی انھیں اور گاؤں کے بزرگوں کو وہ یونہی تھوڑی تھوڑی جلیبی دے دیتا تھا۔ اسی وجہ سے اللہ نے اسے ایسی کامل صحت دے رکھی تھی اور اس کے کام میں بھی برکت تھی۔
وہ ہر وقت ہنستا رہتا، مسکراتا رہتا، کسی کی غلط سلط بات سن کر پلٹ کر جواب نہ دیتا تھا، کسی کی لگائی بجھائی پر یقین نہ کرتا اور اپنے کام سے کام ر کھتا تھا۔ گاؤں کے لوگ عموماً اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کی عمر کا کوئی اور بزرگ نہ بچا تھا کہ جس نے اب تک چار پانچ پشتیں اور ملک میں کئی حکومتیں اور انقلاب دیکھ رکھے تھے۔
جوجو کی جس بات پر لوگ حیران ہوتے تھے وہ یہ تھی کہ وہ اپنا کام کسی بھی وجہ سے، کسی بھی موقعے پر نہ رکنے دیتا تھا۔ کسی کی شادی ہو، کسی کے ہاں بچہ ہوا ہو، آندھی آئے یاطوفان، بارش ہو یا کڑاکے کی دھوپ، الیکشن ہو، کوئی چھوٹا موٹا جلسہ، اسکولوں کی تقریبات اور تو اور کسی کی مرگ بھی ہو جاتی تو وہ اپنے لڑکوں سے کہتا کہ اور جلیبی کا مسالہ تیار کرو۔ اس کی جلیبی اس دن بھی ساری کی ساری بک جاتی تھی جس دن گاؤں میں کوئی مرگ ہوئی ہوتی تھی۔ لوگ مرگ والے گھر سے واپس جاتے ہوئے اڈے سے اس کی دکان سے جلیبی خرید کر واپس جاتے۔ بچے بھی ماں باپ سے ضد کر کے اس کی دکان پر ضرور رکتے تھے۔
وہ ایک سادہ دل اور پرخلوص سا آدمی تھا، کسی کے لیے دل میں کینہ نہ رکھتا تھا، اسی وجہ سے اسے کوئی مرض لاحق نہ تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دل و دماغ کا خناس، حسد اور دوسروں کو بہتر حالات میں دیکھ کر ڈیپریشن میں مبتلا ہونا بھی دماغی خلل کے باعث ہوتا ہے۔ کئی بار ان سب دکانداروں نے کوشش کی کہ کسی طرح اس کے کاروبار کو دھچکا دیا جائے، اسے نقصان پہنچایا جائے مگر کسی کو اس میں کامیابی نہ ہوتی تھی، الٹا اس کا کام اور بھی بہتر ہوجاتا تھا۔
جوجو کا اپنا کہنا تھاکہ اسے کسی کے کچھ کہنے سے کبھی فرق ہی نہیں پڑا۔ خراب سے خراب حالات میں بھی اس نے دل ہی دل میں خود سے کہا ہے کہ یہ سب اچھے اور برے حالات، اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں، اس میں کوئی انسان دخل نہیں دے سکتا۔ نہ کوئی مصیبت دے سکتا ہے ماسوائے اللہ تعالی کے اور نہ ہی کوئی اس مصیبت کو ٹال سکتا ہے مگر اللہ تعالی۔
کہنے لگا، میں کوئی بہت زیادہ مذہبی آدمی نہیں ہوں، مذ ہب کا اتنا ہی علم ہے جتنا ہمیں بچپن میں مولوی نے بتا دیا تھا، مگر مجھے اس بات کا علم ہے کہ اللہ تعالی کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کی مخلوق کو تکلیف نہ دیں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ میری وجہ سے کوئی انسان تو انسان ، جانور بھی تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔ میں کسی کو سکھ نہ دے سکوں تو دکھ بھی نہ دوں۔ میں اس لیے کبھی بیمار نہیں ہوتا کہ میں ان چیزوں کے لیے پریشان نہیں ہوتا جو کہ میرے اختیار میں نہیں ہیں۔
پہلے میں اپنی پریشانی میں اپنی اماں سے دعا کے لیے کہتا تھا، اماں نہ رہیں تو بہنیں اور بیوی اور اب میں اپنی بیٹیوں، پوتیوں اور پڑپوتیوں سے کہتا ہوںکہ وہ میرے لیے دعا کیا کریں۔ میں انھیں بھی خوش رکھتا ہوں، ان کے لیے جو کچھ کر سکتا ہوں، اب بھی کرتا ہوں۔ اس عمر میں بھی میں اپنے گھر سے سال بھر اپنی دکان پر خود چل کر آتا ہوں ، سردی ہو یا گرمی، دھوپ ہو یا بارش۔ نہ کوئی بیماری ہے نہ تکلیف، میرے اللہ کا مجھ پر بڑا خاص کرم ہے۔
آپ کا تو بہت توکل ہے اللہ پر اور آپ ہر مسئلے کے حل کے لیے دعا پر یقین رکھتے ہیں مگر کیا ایسا ہی توکل اور یقین آپ کے بچوں اور ان کے بچوں کو بھی ہے؟ میںنے ان سے سوال کیا تھا۔'' ان کے یقین کی تو اللہ ہی جانتا ہے مگر یہ ہے کہ وہ بڑی جلدی پریشان ہو جاتے ہیں، ذرا سی بات پر مسائل کے انبار کھڑے کر لیتے ہیں، خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور اپنے گھر والوں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔''
'' آپ ان کے اس عمر میں تو شاید مسائل کو اہم نہ سمجھتے ہوں مگر نوجوانی میں تو ہر انسان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ اس عمر میں کسی مسئلے کی صورت میںکیاکیا کرتے تھے؟''
'' جو اب کرتا ہوں؟'' وہ ہنس کر بولے، ان کے منہ میں سارے اصلی دانت نظر آ رہے تھے۔
' ' اب کیا کرتے ہیں؟'' میںنے حیرت سے سوال کیا تھا۔
'' اور زیادہ جلیبیاں بناتا ہوں ... ''
'' ہائیں؟'' میںنے سوال کیا۔
'' ہاں میں لڑکوں سے سامان پکڑتا ہوں اور خود جلیبیاں بنانا شروع کر دیتا ہوں، جلیبیوں کے الجھے ہوئے نمونوں میں کھو کر میں زندگی کی الجھنوں کو بھول جاتا ہوں ۔'' انھوں نے جواب دیا، ایک لڑکاایک صاف پلیٹ میں تازہ اور گرما گرم، خوشبو میں بسی جلیبیاں رکھ کر لایا۔ '' لو پتر کھاؤ اور غم بھول جاؤ!!''