آگ

انسان کو انسان پر رعب جمانے، انھیں دباؤ میں لانے اور ان کے ساتھ بداخلاقی و بدتمیزی کا مظاہرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے

mjgoher@yahoo.com

دوسروں کو جھڑکیاں دینے والا، رعب جمانے والا، سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے والا اور منتقمانہ مزاج رکھنے والا بھول چکا ہوتا ہے کہ وہ بھی انسان ہے۔

انسان کو انسان پر رعب جمانے، انھیں دباؤ میں لانے اور ان کے ساتھ بداخلاقی و بدتمیزی کا مظاہرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جو لوگ ایسا طرز عمل اختیار کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں وہ درحقیقت اپنے نفس کے غرور و تکبر کے دھوکے میں مبتلا ہیں۔ غرور و تکبر کسی بھی انسان میں اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک وہ بدقسمت نہ ہو۔

نادان سمجھتے ہیں کہ بیلٹ باکس ہمارے لیے قوتِ نافذہ ہے اسی لیے ہم بیلٹ بکسوں کے ساتھ کھیل کھیلتے رہتے ہیں اور اپنی مرضی، خواہش اور منشا کے مطابق عوام کی ان امانتوں سے اپنے من پسند نتائج حاصل کرکے خود کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں اور پھراپنی فتح کا جشن مناتے ہیں۔

پھر قدرت ہمارے ساتھ اپنا کھیل کھیلتی ہے اور اقتدار کی راہداریوں سے معزول کرکے گلیوں اور سڑکوں کی خاک چھاننے کے لیے دربدر کر دیتی ہے، پھر یوں ہوتا ہے کہ ہم خود کو بے گناہ سمجھ کر اپنی آتش نوائیوں اور شعلہ بیانیوں کو اپنے لیے مرتبہ ساز مان لیتے ہیں اور اس طرح ہم بھول جاتے ہیں کہ اصل طاقت کیا ہے اور اس کا سرچشمہ کیا ہے اصل قوت کون سی ہے اور کس کے پاس ہے۔

ہماری رہنمائی و رہبری کرنے کے دعویدار سیاسی اشرافیہ کا المیہ یہ ہے کہ جب یہ اقتدار میں ہوتی ہے تو اسے اپوزیشن کا ہر عمل، ہر بیان اور ہر الزام بیان جھوٹ، دھوکا، فریب، من گھڑت، حقیقت کے خلاف اور محض اپنی سیاسی دکان چمکانے کی شعبدہ بازی نظر آتا ہے کہ جیسے خود دودھ کے ایسے دھلے ہوتے ہیں کہ ان کا دامن ہر قسم کے داغ دھبوں سے پاک، اجلا اور شفاف ہے۔ ان پر لگنے والا ہر الزام جھوٹ کا پلندہ ہے، وہ بے گناہ اور بے قصور ہیں، انھیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملا اور منصفوں نے انھیں جو سزائیں دیں وہ آئین و قانون سے ماورا اور انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہیں۔

جب کھیل کا پانسا پلٹتا ہے کل کی اپوزیشن آج کی حکومت اور آج کی حکومت اپوزیشن بن جاتی ہے تو پھر ایسی ہی کہانی ہر دو جانب سے دہرائی جاتی ہے، کوئی فریق سچ سننے، سچ بولنے، سچ ماننے اور سچ کو سچ کہنے پر آمادہ نظر نہیں آتا ہے، ہر شخص کا اپنا اپنا سچ ہے۔


اقتدار میں آ کر طاقت سچ بن جاتی ہے، طاقت قانون بن جاتی ہے، طاقت حق بن جاتی ہے، طاقت آئین بن جاتی ہے، طاقت انصاف بن جاتی ہے اور پھر طاقت ہی انتقام بن کر فریق دوم پر ایسے ٹوٹ پڑتی ہے کہ کسی کو مکافات عمل کا ہوش نہیں رہتا، جیسی کرنی ویسی بھرنی کی فکر نہیں ہوتی، جو بویا وہی کاٹنا ہے کا ادراک نہیں ہوتا، حکومت اپنے ہر عمل کو آئینی و قانونی قرار دینے کے لیے بودے دلائل اور مثالیں پیش کرتی ہے جب کہ اپوزیشن مظلوم، بے بس، بے کس، لاچار اور ناانصافی و انتقامی کارروائی کا رونا دھونا شروع کردیتی ہے۔

پھر وقت بدلتا ہے اپوزیشن اقتدار میں اور حکومت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو بعینہ ایسی ہی داستان ہر دو جانب سے دہرائی جاتی ہے۔ حکومت میں رہ کر جو عمل درست ہوتا ہے وہ اپوزیشن میں جا کر غلط ہو جاتا ہے، یہ کھلی منافقت ہے۔

آج کی قومی سیاست میں بھی وہی مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیاست دانوں کی اقتدار سے بے دخلی، گرفتاریاں، رہائی، سزائیں اور ملک بدری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اقتصادی بدتری اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں ایک ایسے وقت میں سیاسی الاؤ بھڑکایا گیا جب ملک میں عام انتخابات اکتوبر میں متوقع ہیں۔ ادھر پنجاب میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت پاک فوج کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں۔

توشہ خانہ کیس میں بھی خان پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے۔ حکومت کا پہلا نشانہ عمران خان کی گرفتاری تھی جس میں وہ کامیاب ہوگئی اب دوسرا نشانہ ان کی نااہلی اور انتخابی مقابلے سے باہر کرنا ہے جس میں عدالتوں کا کردار اہم ہوگا۔ اب دیکھتے ہیں کہ حکومت کا دوسرا نشانہ کیا رنگ لاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے عمران کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی انھیں پیر تک گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ عمران خان کی رہائی حکومت کی سبکی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے پیر سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔

اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے، مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق پیر کو عدالت عظمیٰ میں پنجاب میں صوبائی الیکشن کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوگی ، عدالت نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کروانے کا حکم دے رکھا، جس پر پی ڈی ایم حکومت اور الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ اس تاریخ کو الیکشن ممکن نہیں ہے، ادھر پی ڈی ایم نے اسلام آباد میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے حلانکہ وہاں دفعہ 144 نافذ ہے۔

حکومت اور اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی کو صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر صبر و تحمل اور حکمت و بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں۔ آگ کو آگ لگا کر نہیں بجھایا جاسکتا بلکہ ضبط و برداشت کے ٹھنڈے پانی سے ہی بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے۔
Load Next Story