عمران خان کی گرفتاری

عملی طور پر وہی طبقہ جیت گیا ہے جو مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتا تھا

salmanabidpk@gmail.com

عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے یا غیر قانونی، اس سے قطع نظریہ گرفتاری متوقع تھی کیونکہ حکومتی اتحاد نے پانچ نکاتی حکمت عملی طے کرلی ہے۔

اول عمران خان کو تواتر کے ساتھ مقدمات میں الجھا کر رکھا جائے۔ دوئم ان کو گرفتار کرنا ۔ سوئم عمران خان کو نااہل کرنا بھی ایک کھیل کا حصہ ہے تاکہ نواز شریف کی طرح عمران خان کو بھی سیاسی میدان سے باہر رکھا جائے اورکوئی دوسرا سیاستدان پی ٹی آئی کی قیادت کرسکے ۔ چہارم پی ٹی آئی کو ہی سیاسی میدان سے فارغ کر دیاہے ۔پنجم پی ٹی آئی کی دوسرے اور تیسرے درجہ کی قیادت پر گرفتاریوں اور مقدمات کا خوف پیدا کرنا تاکہ وہ خود کو عمران خان سے علیحدہ کرلیں۔

عمران خان کی گرفتاری کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر حکومت کے دور میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ اس کہانی کے مختلف ادوار میں کردار بدل جاتے ہیں مگر کہانی کا اسکرپٹ وہی رہتا ہے ۔ سیاسی ایڈونچرز کا کھیل ہمیں یہ نہ ماضی میں کوئی مثبت نتائج دے سکا او رنہ ہی آگے دے سکے گا۔

ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو تک او رنواز شریف سے لے کر عمران خان تک سب اسکرپٹ وقتی طو رپر کامیاب ہوئے تھے مگر لانگ ٹرم بنیادوں پر اس کے منفی اثرات قومی سیاست کو بھگتنے پڑ رہے ہیں ۔عمران خان کی گرفتاری پر جو ردعمل آیا ہے، وہ عوامی سے زیادہ جنگجویانہ تھا ، توڑ پھوڑ یا پر تشدد کاروائیاں ہوئیں، وہ سیاسی ورکرز نہیں کیا کرتے بلکہ ہدف بنا کر گھیراؤ جلاؤ کرنے کی کسی بھی سطح پر پزیرائی ہونی چاہیے ۔

یہ بحران محض سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ ریاستی بحران کا منظر پیش کرتا ہے جہاں سیاست ہو یا ادارے سب ایک دوسرے سے ٹکراؤ کے کھیل میں حصہ بن گئے ہیں ۔ عقل ودانش, تحمل , بربادی , دور اندیشی اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کے بجائے بدلہ کی یا غصہ کی سیاست میں الجھ گئے ہیں ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ '' ردعمل کی سیاست یا بدلہ کی سیاست '' کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں ملے، قومی سیاست بحران در بحران اور ایک بڑے الجھاو کا شکار ہے۔

عمران خان کو گرفتار کرنا مقصد تھا تو اس کے لیے مناسب طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا تھا ، لیکن ایسا نہیں کیا گیا ، پھر اعلیٰ عدلیہ کے ججز نے جو تعریفی کلمات ارشاد فرمائے ، یہ کہے بغیر بھی عمران خان کے حق میں فیصلہ دیا جاسکتا تھا ۔عمران خان عدالتی ریلیف ملنے کے بعد '' ایسا ہی ردعمل آئے گا'' جیسے الفاظ نہ بھی کہتے تو ان کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔


بنیادی طور پر ہم یہ طے کرچکے ہیں کہ ہم نے آگے نہیں بلکہ پیچھے جانا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر بحران کا شکار ہیں اور ہماری ساکھ پر کئی سوالیہ نشان ہیں ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ماضی سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں آئین ، قانون او راداروں کی بالادستی کے بجائے افراد اور شخصیات کو بالادستی حاصل ہے ۔

عمران خان کے بارے میں پہلے بھی بھی غلط اندازے لگائے اور اب بھی غلط اندازے لگائے جارہے ہیں۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی عمران کا مدد گار بااثر طبقہ اس کے ساتھ کھڑا ہے، اتنے عرصہ دے جو خرچہ ہورہا ہے ، کیا کوئی اور سیاسی جماعت اتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ اس مدد اور تعاون کی وجہ سے ہی عمران خان سیاست میں زندہ ہے بلکہ ریاستی اداروں کا امتحان لے رہا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اپنی بری حکمرانی کے باوجود عمران خان واقعی بڑا خطرہ بن کر سیاسی مخالفین پر گرجے ، برسے ۔ اب بھی جو بھی یہ نتیجہ نکال رہاہے کہ ان کی گرفتاری، نااہلی یا ان کی جماعت پر پابندی کی صورت میں کچھ نہیں ہوگا، وہ پھر غلطی پر ہیں ۔اس کا ایک وقت ردعمل ہم نے جو دیکھا ہے وہ اچھا نہیں ہے او رجن لوگوں کو بنیاد بنا کر ردعمل دیا گیا وہ بھی درست نہیں لیکن شاید عمران خان پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

پاکستان کو موجودہ حالات میں ایک بڑی مفاہمت کی سیاست درکار ہے ۔ حکومت او رحزب اختلاف کا باہمی ٹکراو، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان سرد جنگ یا اداروں کا کسی ایک فریق کیس ساتھ ٹکراؤ ملکی مفاد کے خلاف ہے ۔عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد جلاؤ گھیراؤ نے ان سنجیدہ عناصر کو جو ہر طبقہ میں موجود تھے اور جو چاہتے تھے کہ مذاکرات کے نتیجے میں مفاہمت ممکن ہوسکے ان کو بھی سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

عملی طور پر وہی طبقہ جیت گیا ہے جو مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتا تھا ۔ اب مذاکرات کی بات پیچھے چلی گئی ہے۔اس کے مقابلے میں انا اور بدلہ کی آگ کو تقویت ملی ہے اور اس کے نتائج خوفناک ہوںگے ۔

کاش ہماری سیاسی قیادت اور ادارے کچھ سیکھ پاتے۔ہم جیسے ملک یا ریاستی نظام کو چلارہے ہیں ایسے اب نہیں چل سکے گا,یہ بات جتنی جلدی ہم سمجھ لیں، ہمارے لیے بہتر ہوگاا ور ہمیں سیاسی تنہائی سے با ہر نکال سکے گا۔
Load Next Story