یہ ہمیں کیا ہو گیا ہے

آج کے افسانے اور ناول میں باغی عورتوں کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے

zahedahina@gmail.com

ایک یہ زمانہ ہے جب ہر طرف نفرت اور جنون کا دور دورہ ہے۔ سیاسی، مذہبی اور مسلکی انتہا پسندی نے پورے معاشرے میں خطرناک تقسیم پیدا کردی ہے۔ درگزر اور رواداری کا زمانہ گزر چکا ہے۔

آئے روز یہ اطلاعات ملتی ہیں کہ کسی انسان کو اس لیے ناحق مار دیا گیا ہے کہ اس کا نظریہ ، مسلک یا سوچ مارنے والے کو پسند نہ تھی۔ حالات اب اس نہج پر جا پہنچے ہیں جب لکھنے والے بھی کسی موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں اور جو سوچتے ہیں اس کے اظہار سے گریز کرتے ہیں۔

لیکن ایک زمانہ وہ بھی تھا جب انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے لیے انقلابی تحریر لکھی جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد ابھرنے والے مسائل کو موضوع بنایا جاتا تھا۔ سماج میں بلا اختیار ہر انسان کو مساوی حقوق دینے کی بات کی جاتی تھی۔ عورتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر جاندار افسانے لکھے جاتے تھے۔

اس زمانے میں منٹو، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، ممتاز شیریں اور دوسرے افسانہ نگار مرد اور عورتیں سامنے آئیں جن کی تحریروں میں ترک وطن کے ساتھ غربت سے جھنجھلائے ہوئے، جنسی محرومیوں کی مار کھائے ہوئے اور تقسیم کے خنجر سے ذبح ہونے والے کردار ملتے ہیں جن میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ کون ہے جو منٹو کے افسانے '' کھول دو'' اور خدیجہ مستور کی کہانی '' مینوں لے چلا بابلا '' کو بھلا سکتا ہے اور کون ہے جس کے ذہن سے پاکستان بننے کے فوراً بعد 50ء کی دہائی سے ہمارے یہاں سماجی اور سیاسی بغاوت کی چنگاریاں محو ہو سکتی ہیں؟

ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ادب میں پدر سری سماج کی بالادستی کے علم بلندیوں پر نصب ہوتے ہیں اور سماج میں عورت کی با اختیاری جیسا اہم مسئلہ پس پشت چلا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہماری لکھنے والیوں اور لکھنے والوں کے یہاں پسپائی قدم بہ قدم ہوئی ہے۔

فرخندہ لودھی اپنے اردگرد بے بس، مجبور محض اور انصاف کو ترسی ہوئی عورتیں دیکھتی ہیں اور ان کے دکھ، ان کی بربادیاں، تباہیاں کاغذ پر اتار دیتی ہیں۔ انھیں اپنے اس اختصاص کا احساس شدت سے تھا۔ تب ہی انھوں نے اپنی لکھت کے بارے میں کہا تھا کہ ''میں نے ہمیشہ عورتوں کے پر اثر کردار تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے۔''

''منی کیسے مرے'' فرخندہ بخاری کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں نچلے متوسط طبقے کی ایک نہایت ذہین لڑکی ہمیں اپنی چھب دکھاتی ہے۔ سخت گیر مذہبی باپ اور دل کی گہرائیوں سے شوہر پرست ماں کی بیٹی۔ قل اعوذی استانیوں اور جھوٹ بولنے والی ہم جماعتوں میں گھری ہوئی۔ منی سوال اٹھاتی ہے اور جواب میں جھڑکیاں اور جھانپڑ کھاتی ہے۔ اسے اپنے ہونے پر اصرار ہے۔ ہماری لڑکیوں کی اکثریت جیسی زندگی گزارتی ہے اس کی عکاسی فرخندہ بخاری کے اس افسانے میں بے مثال ہے لیکن اس میں بااختیار لڑکی سے ہماری ملاقات نہیں ہوتی۔

شمیم اکرام الحق کا افسانہ '' اندھا قانون '' پڑھتے ہوئے جنرل ضیا الحق کے قوانین اور اس نابینا صفیہ بی بی کی یاد آتی ہے جس کے ساتھ زنا بالجبر ہوا اور جب وہ حاملہ ہوئی تو اسے '' زانیہ '' قرار دے کر سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس افسانے میں شمیم نے 15 کوڑوں اور 5 سال قید بامشقت کی سزا سن کر باشو کی زبان سے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ '' ظالمو! اس جرم میں شریک شخص کو بھی تو تلاش کرو '' شمیم کا یہ جملہ ہمارے افسانے اور سماج میں تا دیر گونجتا رہے گا کہ '' میں نعوذباللہ مریم تو نہیں کہ اﷲ کے حکم سے بغیر مرد کے ماں بن گئی۔''

فرخندہ لودھی '' دوسرا خدا '' میں ہمیں یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ '' ہوش سنبھالتے ہی اسے معلوم ہو گیا تھا کہ معاشرے میں عورت کا کوئی دوسرا کام نہیں سوائے اس کے کہ وہ شادی کرے اور ہر حال میں شوہر کی خوشنودی حاصل کرے۔''


اردو ادب ابھی تقسیم کے جھٹکے سے ہی نہیں سنبھلا تھا کہ ہمارے یہاں آمریت کا سیاہ سورج طلوع ہوا۔ اس سورج کی سیاہی میں پہلے ادب کی امریکی سرپرستی ہوئی۔ ہم ابھی PL 480 کی نوازشات سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ہوس اقتدار کی تلوار نے مشرقی پاکستان کو ذبح کردیا۔ بنگالیوں کا مزاج ہمیشہ سے باغیانہ رہا ہے۔ ان کا ساتھ تھا تو ہمیں کچھ امید بھی تھی لیکن وہ گئے اور اس کے ساتھ ہی آمریت کے سبز رنگ نے ہمیں اپنے رنگ میں رنگ لیا۔

آمریت کی سرپرستی میں ہمارے یہاں انتہا پسندی کا سیلاب جس طرح امڈا اس نے روشن خیال لکھنے والیوں اور لکھنے والوں کے لیے سنگین مسائل پیدا کیے۔ اب سالہا سال سے ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں وہ آزادیاں اورگنجائشیں ختم ہوگئی ہیں جو برطانوی سامراج کے سائے میں رہتے ہوئے ہمیں حاصل تھیں۔ افسانوی مجموعے ضبط ہوتے۔ افسانہ نگاروں پر مقدمے چلتے اس کے باوجود لکھنے والوں کے ضمیر آزاد تھے، ان کا قلم بے دھڑک اور بے باک تھا۔ 1958 کے بعد ہمارے یہاں طبقاتی اور فکری لڑائی کا زور ٹوٹ گیا۔

پاکستانی سماج میں عورت کی پسپائی کی نہایت دل دوز تصویر خالدہ حسین نے اپنے افسانے '' دادی آج چھٹی پر ہیں'' میں کھینچی ہے۔ دادی سے پوتی تک زمانہ پاکستان میں عورت کے لیے جس طرح الٹے قدموں چلا ہے، اس کی عکاسی بے مثال ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دادی جو کالج میں پروفیسر ہے۔

وہ اپنے بد باطن شوہر اور قدامت پسند بیٹے کے ہاتھوں جو صدمے اٹھاتی ہے، پوتی سے جس کا تعلق اور محبت کا رشتہ ممنوع ٹھہرتا ہے، وہ آج کے ان بے شمار گھروں کی کہانی ہے جہاں مذہب کے نام پر بیٹوں نے ماں سے اس کا اختیار چھین لیا۔ اپنے وقت کی یہ وہ بااختیار مائیں ہیں جنھیں ان کے بیٹے کافر کہتے ہیں اور دوزخ میں جانے کا مژدہ سناتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ اس کے ولی ہیں۔

پروین عاطف، خالدہ حسین، فرخندہ بخاری، ام عمارہ، شہناز پروین اور دوسری لکھنے والیوں اور نجم الحسن رضوی، شمشاد احمد اور سمیع آہوجہ نے ہمارے سماج کی کیسی سچی تصویر کشی کی ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ برٹش راج کی عطا تھی جس نے ہمارے لکھنے والوں اور لکھنے والیوں سے بااختیار عورتوں کے کردار ترشوائے؟ تقسیم نے اردو ادب اور عورتوں اور با ضمیر مردوں کی کردار نگاری پر کیا اثرات مرتب کیے، اس کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے۔ ہمارے یہاں کئی دہائیوں سے عورت کے بااختیار ہونے کی لڑائی سیاست، سماج اور ادب کے صفحات پر شدت سے لڑی جا رہی ہے۔ ادب زندگی کا آئینہ دار ہے، اس میں جھوٹے کردار نہیں تراشے جاتے۔

آج کے افسانے اور ناول میں باغی عورتوں کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ ازدواجی زندگی میں جبری جنسی تعلق پر بر افروختہ ہے، اپنی کوکھ پر اپنے اختیار کا سوال اٹھاتی ہے، اس کا بااختیار شوہر گھر میں بیٹیوں کی طرح رہنے والی کم عمر لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر کرے تو وہ گٹر کھولنے کے لیے رکھا ہوا تیزاب اس کے نچلے دھڑ پر لوٹ دیتی ہے۔ ایسی عورتیں ہیں جو نامرد بیٹوں کی ماؤں سے اپنی محرومیوں پر سوال اٹھاتی ہیں۔

احمد ندیم قاسمی کا '' پرمیشر سنگھ کہاں کھو گیا '' اور اشفاق احمد کے '' ڈاؤ جی '' کو کس کی نظر لگ گئی۔ ادب علاقے، طبقے اور صنف سے بالاتر ہوتا ہے، ہم کس عذاب میں گرفتار ہوئے کہ اپنے مسیحی اور ہندو کرداروں کے بارے میں لکھتے ہوئے ہمارے پَر جلتے ہیں۔

ہمارے ادب کے صفحات پر سانس لیتے ہوئے یہ کردار امتیازی، قانون اور رسم و رواج کے بارے میں ایسے تیکھے اور کڑوے سوال اٹھاتے ہیں کہ میزان عدل کے سائے میں بیٹھے ہوئے صاحبان عدل کی پیشانیوں پر پسینہ آجاتا ہے۔ سماج، رواج، سیاست، نظام عدل، ادب کی اقلیم میں انتظار حسین، ابوالفضل صدیقی، حسن منظر، مبین مرزا، مسعود مفتی، عذرا اصغر، منشا یاد، مستنصر حسین تارڑ، نیلوفر اقبال، نیلم احمد بشیر، آصف فرخی، فردوس حیدر، شہناز شورو، طاہرہ اقبال، سلمیٰ اعوان، نجیبہ عارف، نعیم آروی اور فاطمہ حسن، عذرا عباس، عطیہ سید، فہمیدہ ریاض سب ہی اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اس دن کی آرزو کرتے ہیں جب وہ دین اور دنیا کی کشمکش سے آزاد ہو کر لکھ سکیں۔
Load Next Story