بھارت میں سیاسی تبدیلی کے اشارے
رہنما راہول گاندھی نے کرناٹک میں انتخابی فتح کے بعداپنے بیان میں کہاکہ نفرت کا بازاربند ہوگیا اورمحبت کی دکان کھل گئی
بھارت میں سال رواں سیاسی اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہوگا۔ اس کا پہلا مظاہرہ کرناٹک ریاستی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی شکست کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
ایسے وقت میں جب بی جے پی کی قیادت لوک سبھا کے الیکشن تیسری بار جیتنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، کرناٹک میں شکست نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
بھارت کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کے مطابق کرناٹک کے انتخابات میں کانگریس پارٹی نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو عبرتناک شکست دی ہے۔
بھارتی الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کانگریس پارٹی کرناٹک اسمبلی کی ایک سو پینتیس نشستیں جیت کر صوبائی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے ۔ بی جے پی کو 66 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے جب کہ جنتا دل پارٹی انیس نشستیں جیت چکی ہے۔
کرناٹک کی ریاستی اسمبلی 224 ارکان پر مشتمل ہے اور وزیراعلیٰ کے لیے کسی بھی جماعت کا 113 نشستیں جیتنا ضروری ہے۔ یوں کرناٹک کا وزیراعلیٰ کانگریس کا ہوگا۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کرناٹک میں انتخابی فتح کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ نفرت کا بازار بند ہوگیا اور محبت کی دکان کھل گئی ہے۔یہ کرناٹک کے عوام کی فتح ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کرناٹک میں بی جے پی کی انتخابی ریلیوں میں بھرپور شرکت کی تھی اور حسب معمول اپنی تقریروں میں پاکستان کے خلاف بات کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جس میں انھیں منہ کی کھانی پڑی۔
بھارت میں اگلے برس اپریل یا اوائل مئی میں جنرل الیکشن ہونے ہیں، بھارتی راجیہ سبھا کے الیکشن بھی اگلے برس ہونے ہیں۔ لوک سبھا الیکشن سے پہلے تقریباً نو مزید ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ہونے ہیں جن میں مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی بڑی ریاستوں کے الیکشن شامل ہیں۔
رواں برس میں تری پورہ، میگھالے، میزو رام، ناگا لینڈ اسمبلیوں کے الیکشن ہونے ہیں۔ کرناٹک اسمبلی میں اب کانگریس پارٹی بغیر کسی اتحادی کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ 2018کے الیکشن میں منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے کوئی ایک پارٹی حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔ 2018کے الیکشن کے بعد کانگریس اور جنتا دل نے مل کر حکومت بنائی لیکن یہ اتحاد زیادہ دیر چل نہ سکا، یوں یہ اتحادی حکومت ختم ہوگئی۔
اس کے بعد بی جے پی نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، کرناٹک میں 5 برس تک سیاسی رسہ کشی ہوتی رہی جس کی وجہ سے صوبائی حکومت عوام کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکی۔ نتیجہ بی جے پی کی شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
کانگریس نے 2018کے مقابلے میں 55 فیصد زیادہ ووٹ حاصل کیے جب کہ بی جے پی کے ووٹ بینک میں38 فیصد کمی ہوئی ہے، جنتادل کو بھی 18 فیصد کم ووٹ ملے۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ کرناٹک کے ووٹرز نے ایک پارٹی کو بھاری مینڈیٹ دیا تاکہ ریاست کا انتظام ہموار اور مستحکم انداز میں چلے۔
کرناٹک کے الیکشن نتائج کو اگر مرکزی دھارے میں دیکھا جائے تو بی جے پی کی قیادت جو کچھ سوچ کر سیاست کررہی ہے،اس کے کامیاب ہونے کے امکانات کم ہوتے نظر آرہے ہیں۔وزیراعظم نریندر مودی کی شخصیت کا سحر کم ہوتا جارہا ہے،بھارتی بزنس کلاس بھی تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔
بی جے پی کی مرکزی قیادت میں کرزما نہیں رہا ہے، ان کی وضع قطع اور پہناوے نوجوان نسل کو متاثر نہیں کر رہے، بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ زعفرانی لباس میں نظر آتے ہیں۔ اس سے ان کا امیج ایک ہندو پروہت کا نظر آتا ہے۔ بھلے ہی وہ ذاتی طور پر ایماندار اور مخلص شخص ہوں گے لیکن ان کا حلیہ انھیں واضح طور پر کٹر مذہبی شخص ظاہر کرتا ہے۔ ایسا حقیقت میں بھی ہے۔
وہ برملا ہندو فلسفے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ مرکز میں نریندر مودی اب پہلے سے بھی زیادہ مذہب کی طرف راغب نظر آتے ہیں۔ وہ ذہنی طور پر ایک برہم چاری ہندو ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ راشٹریہ سیوک سنگ کے سیاسی نظریے کے پیروکار بھی ہیں۔ بھارت کے سیکولر تشخص میں یہ شناخت فٹ نہیں بیٹھتی۔ اسی طرح اترپردیش ایک خاصی ترقی یافتہ ریاست ہے۔
اترپردیش کے کلچر اور سیاست میں ماڈرن نظریات والے وزیراعلیٰ کی گنجائش ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کی شخصیت سیکولرزم سے بالکل برعکس ہے۔ نریندر مودی بھی سیکولر اور بھارت کے وزیراعظم سے زیادہ کسی مذہبی سیاسی جماعت کے لیڈر نظر آتے ہیں۔
بھارت کے نوجوانوں کو ایسی شخصیات پرانے وقتوں کے اور بدلتے ہوئے حالات سے دور لوگ نظر آتے ہیں جب کہ کانگریس پارٹی میں راہول گاندھی، پریانکا گاندھی اور سچن پائلٹ جیسے ماڈرن اور سیکولر رہنما موجود ہیں، وہ بھارت کی پڑھی لکھی نوجوان کلاس کے جدید ذہن کو متاثر کررہے ہیں۔
اس لیے تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ آنے والے ریاستی اسمبلی کے الیکشنز کے نتائج لوک سبھا کے الیکشن نتائج پر اثرانداز بھی ہوں گے اور ان سے کسی حد تک یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ بھارت میں اگلی حکومت کس پارٹی کی ہو گی۔
بی جے پی مسلسل دوسری بار حکمرانی کر رہی ہے۔ نریندر مودی بھی دو ٹرم سے وزیراعظم چلے آ رہے ہیں۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت اگلا الیکشن جیتنے کے لیے ابھی سے تیاریاں شروع کر رہی ہے تاہم ان کے پاس بھارتی عوام کو متاثر کرنے کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔ وہ پرانے ہندوتوا بیانیے کو لے کر ہی چل رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سینئر قیادت اپنے انتہاپسند نظریات کو ترک نہیں کر سکتی کیونکہ ان کی بنیاد ہی ان انتہاپسند نظریات پر رکھی گئی ہے۔ اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی اگر اپنے ہندوتوا نظریات کو چھوڑتی ہے تو اس کے لیے بطور پارٹی قائم رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ مذہب اور قوم پرستی کی بنیاد پر قائم ہونے والی ہر سیاسی تنظیم اور سیاسی جماعت کی سب سے بڑی طاقت اور کمزوری اس کے اپنے نظریات ہی ہوتے ہیں۔
مذہب اور قوم پرستی کے نظریات کو لے کر سیاست کرنے والی جماعتوں کے پاس تبدیلی کے آپشنز بہت کم ہوتے ہیں۔ تبدیلی اور ترقی کے فیز میں جانے کے لیے نئے نظریات کو قبول کرنا لازم ہوتا ہے جب کہ مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی لیڈرشپ کے لیے پرانے نظریات ترک کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ایسی جماعتیں مخصوص حالات اور سیاسی فضاء میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کر لیتی ہیں لیکن ایک آئینی اور جمہوری ملک میں مخصوص حالات اور سیاسی فضاء ایک جیسی نہیں رہ سکتی۔ جیسے ہی یہ تبدیل ہوں گی، اسی طرح مذہبی اور قوم پرست سیاسی جماعتیں زوال پذیر ہو جائیں گی۔ بی جے پی بھی اب اس مرحلے میں داخل ہوتی نظر آ رہی ہے۔
جنوبی ایشیا میں نئی صف بندیاں ہونے جا رہی ہیں۔ بھارت کی کوآپریٹ ورلڈ جنوبی ایشیا میں تنازعات کو ختم کرنے کے آپشن کی طرف جاتی نظر آ رہی ہے کیونکہ عالمی سطح پر بھی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ ان صف بندیوں کی بنیاد کاروبار پر ہے۔ کاروبار چلانے کے لیے مختلف قسم کے سیاسی، معاشرتی نظریات اور اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارت دنیا کی 7 بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔
بھارت کی کوآپریٹ ورلڈ کے مفادات اپنے ملک سے نکل کر دیگر ملکوں تک پھیل رہے ہیں۔ اس لیے انھیں سب سے پہلے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت کا احساس ہو رہا ہے۔ بھارت میں بی جے پی اور اس جیسی دیگر تنظیمیں اچھی ہمسائیگی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ویسے بھی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کمیونزم اور کیپٹل ازم کے درمیان تنازع اختتام کو پہنچ چکا ہے۔
آج کا کیپٹل ازم بھی پرانے نظریات کو ترک کرنے کی تگ ودو میں ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جو انقلاب برپا کیا ہے، اس نے پرانے سیاسی اور معاشی نظریات کو تبدیلی لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ماضی کے ذرایع پیداوار جدیدیت اختیار کر رہے ہیں۔
ایگری کلچر ٹیکنالوجی اور باٹنی میں ہونے والی تحقیقات نے زرعی شعبے میں انقلاب برپا کر دیے ہیں۔ اب ایک ایکڑ زمین ایک برس میں کئی قسم کی فصلیں تیار کر سکتی ہے اور ان کی پیداوار بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کاروباروں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔
اب آن لائن ٹریڈنگ اور آن لائن ادائیگیاں اور وصولیاں ہو رہی ہیں۔ کریڈٹ کارڈز اور ڈیبٹ کارڈز نے سولڈ کرنسی کی اہمیت کم کر دی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ 2024کے الیکشن میں بی جے پی شدید مشکلات سے دوچار ہو گی۔
ایسے وقت میں جب بی جے پی کی قیادت لوک سبھا کے الیکشن تیسری بار جیتنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، کرناٹک میں شکست نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
بھارت کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کے مطابق کرناٹک کے انتخابات میں کانگریس پارٹی نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو عبرتناک شکست دی ہے۔
بھارتی الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کانگریس پارٹی کرناٹک اسمبلی کی ایک سو پینتیس نشستیں جیت کر صوبائی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے ۔ بی جے پی کو 66 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے جب کہ جنتا دل پارٹی انیس نشستیں جیت چکی ہے۔
کرناٹک کی ریاستی اسمبلی 224 ارکان پر مشتمل ہے اور وزیراعلیٰ کے لیے کسی بھی جماعت کا 113 نشستیں جیتنا ضروری ہے۔ یوں کرناٹک کا وزیراعلیٰ کانگریس کا ہوگا۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کرناٹک میں انتخابی فتح کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ نفرت کا بازار بند ہوگیا اور محبت کی دکان کھل گئی ہے۔یہ کرناٹک کے عوام کی فتح ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کرناٹک میں بی جے پی کی انتخابی ریلیوں میں بھرپور شرکت کی تھی اور حسب معمول اپنی تقریروں میں پاکستان کے خلاف بات کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جس میں انھیں منہ کی کھانی پڑی۔
بھارت میں اگلے برس اپریل یا اوائل مئی میں جنرل الیکشن ہونے ہیں، بھارتی راجیہ سبھا کے الیکشن بھی اگلے برس ہونے ہیں۔ لوک سبھا الیکشن سے پہلے تقریباً نو مزید ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ہونے ہیں جن میں مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی بڑی ریاستوں کے الیکشن شامل ہیں۔
رواں برس میں تری پورہ، میگھالے، میزو رام، ناگا لینڈ اسمبلیوں کے الیکشن ہونے ہیں۔ کرناٹک اسمبلی میں اب کانگریس پارٹی بغیر کسی اتحادی کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ 2018کے الیکشن میں منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے کوئی ایک پارٹی حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔ 2018کے الیکشن کے بعد کانگریس اور جنتا دل نے مل کر حکومت بنائی لیکن یہ اتحاد زیادہ دیر چل نہ سکا، یوں یہ اتحادی حکومت ختم ہوگئی۔
اس کے بعد بی جے پی نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، کرناٹک میں 5 برس تک سیاسی رسہ کشی ہوتی رہی جس کی وجہ سے صوبائی حکومت عوام کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکی۔ نتیجہ بی جے پی کی شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
کانگریس نے 2018کے مقابلے میں 55 فیصد زیادہ ووٹ حاصل کیے جب کہ بی جے پی کے ووٹ بینک میں38 فیصد کمی ہوئی ہے، جنتادل کو بھی 18 فیصد کم ووٹ ملے۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ کرناٹک کے ووٹرز نے ایک پارٹی کو بھاری مینڈیٹ دیا تاکہ ریاست کا انتظام ہموار اور مستحکم انداز میں چلے۔
کرناٹک کے الیکشن نتائج کو اگر مرکزی دھارے میں دیکھا جائے تو بی جے پی کی قیادت جو کچھ سوچ کر سیاست کررہی ہے،اس کے کامیاب ہونے کے امکانات کم ہوتے نظر آرہے ہیں۔وزیراعظم نریندر مودی کی شخصیت کا سحر کم ہوتا جارہا ہے،بھارتی بزنس کلاس بھی تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔
بی جے پی کی مرکزی قیادت میں کرزما نہیں رہا ہے، ان کی وضع قطع اور پہناوے نوجوان نسل کو متاثر نہیں کر رہے، بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ زعفرانی لباس میں نظر آتے ہیں۔ اس سے ان کا امیج ایک ہندو پروہت کا نظر آتا ہے۔ بھلے ہی وہ ذاتی طور پر ایماندار اور مخلص شخص ہوں گے لیکن ان کا حلیہ انھیں واضح طور پر کٹر مذہبی شخص ظاہر کرتا ہے۔ ایسا حقیقت میں بھی ہے۔
وہ برملا ہندو فلسفے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ مرکز میں نریندر مودی اب پہلے سے بھی زیادہ مذہب کی طرف راغب نظر آتے ہیں۔ وہ ذہنی طور پر ایک برہم چاری ہندو ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ راشٹریہ سیوک سنگ کے سیاسی نظریے کے پیروکار بھی ہیں۔ بھارت کے سیکولر تشخص میں یہ شناخت فٹ نہیں بیٹھتی۔ اسی طرح اترپردیش ایک خاصی ترقی یافتہ ریاست ہے۔
اترپردیش کے کلچر اور سیاست میں ماڈرن نظریات والے وزیراعلیٰ کی گنجائش ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کی شخصیت سیکولرزم سے بالکل برعکس ہے۔ نریندر مودی بھی سیکولر اور بھارت کے وزیراعظم سے زیادہ کسی مذہبی سیاسی جماعت کے لیڈر نظر آتے ہیں۔
بھارت کے نوجوانوں کو ایسی شخصیات پرانے وقتوں کے اور بدلتے ہوئے حالات سے دور لوگ نظر آتے ہیں جب کہ کانگریس پارٹی میں راہول گاندھی، پریانکا گاندھی اور سچن پائلٹ جیسے ماڈرن اور سیکولر رہنما موجود ہیں، وہ بھارت کی پڑھی لکھی نوجوان کلاس کے جدید ذہن کو متاثر کررہے ہیں۔
اس لیے تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ آنے والے ریاستی اسمبلی کے الیکشنز کے نتائج لوک سبھا کے الیکشن نتائج پر اثرانداز بھی ہوں گے اور ان سے کسی حد تک یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ بھارت میں اگلی حکومت کس پارٹی کی ہو گی۔
بی جے پی مسلسل دوسری بار حکمرانی کر رہی ہے۔ نریندر مودی بھی دو ٹرم سے وزیراعظم چلے آ رہے ہیں۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت اگلا الیکشن جیتنے کے لیے ابھی سے تیاریاں شروع کر رہی ہے تاہم ان کے پاس بھارتی عوام کو متاثر کرنے کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔ وہ پرانے ہندوتوا بیانیے کو لے کر ہی چل رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سینئر قیادت اپنے انتہاپسند نظریات کو ترک نہیں کر سکتی کیونکہ ان کی بنیاد ہی ان انتہاپسند نظریات پر رکھی گئی ہے۔ اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی اگر اپنے ہندوتوا نظریات کو چھوڑتی ہے تو اس کے لیے بطور پارٹی قائم رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ مذہب اور قوم پرستی کی بنیاد پر قائم ہونے والی ہر سیاسی تنظیم اور سیاسی جماعت کی سب سے بڑی طاقت اور کمزوری اس کے اپنے نظریات ہی ہوتے ہیں۔
مذہب اور قوم پرستی کے نظریات کو لے کر سیاست کرنے والی جماعتوں کے پاس تبدیلی کے آپشنز بہت کم ہوتے ہیں۔ تبدیلی اور ترقی کے فیز میں جانے کے لیے نئے نظریات کو قبول کرنا لازم ہوتا ہے جب کہ مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی لیڈرشپ کے لیے پرانے نظریات ترک کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ایسی جماعتیں مخصوص حالات اور سیاسی فضاء میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کر لیتی ہیں لیکن ایک آئینی اور جمہوری ملک میں مخصوص حالات اور سیاسی فضاء ایک جیسی نہیں رہ سکتی۔ جیسے ہی یہ تبدیل ہوں گی، اسی طرح مذہبی اور قوم پرست سیاسی جماعتیں زوال پذیر ہو جائیں گی۔ بی جے پی بھی اب اس مرحلے میں داخل ہوتی نظر آ رہی ہے۔
جنوبی ایشیا میں نئی صف بندیاں ہونے جا رہی ہیں۔ بھارت کی کوآپریٹ ورلڈ جنوبی ایشیا میں تنازعات کو ختم کرنے کے آپشن کی طرف جاتی نظر آ رہی ہے کیونکہ عالمی سطح پر بھی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ ان صف بندیوں کی بنیاد کاروبار پر ہے۔ کاروبار چلانے کے لیے مختلف قسم کے سیاسی، معاشرتی نظریات اور اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارت دنیا کی 7 بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔
بھارت کی کوآپریٹ ورلڈ کے مفادات اپنے ملک سے نکل کر دیگر ملکوں تک پھیل رہے ہیں۔ اس لیے انھیں سب سے پہلے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت کا احساس ہو رہا ہے۔ بھارت میں بی جے پی اور اس جیسی دیگر تنظیمیں اچھی ہمسائیگی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ویسے بھی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کمیونزم اور کیپٹل ازم کے درمیان تنازع اختتام کو پہنچ چکا ہے۔
آج کا کیپٹل ازم بھی پرانے نظریات کو ترک کرنے کی تگ ودو میں ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جو انقلاب برپا کیا ہے، اس نے پرانے سیاسی اور معاشی نظریات کو تبدیلی لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ماضی کے ذرایع پیداوار جدیدیت اختیار کر رہے ہیں۔
ایگری کلچر ٹیکنالوجی اور باٹنی میں ہونے والی تحقیقات نے زرعی شعبے میں انقلاب برپا کر دیے ہیں۔ اب ایک ایکڑ زمین ایک برس میں کئی قسم کی فصلیں تیار کر سکتی ہے اور ان کی پیداوار بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کاروباروں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔
اب آن لائن ٹریڈنگ اور آن لائن ادائیگیاں اور وصولیاں ہو رہی ہیں۔ کریڈٹ کارڈز اور ڈیبٹ کارڈز نے سولڈ کرنسی کی اہمیت کم کر دی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ 2024کے الیکشن میں بی جے پی شدید مشکلات سے دوچار ہو گی۔