کینسر ایک جان لیوا مرض
کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں دنیا میں ہر سال لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کینسر سب سے تیزی سے پھیلنے والا مرض بن چکا ہے اندازہ کریں دنیا بھر میں ہونے والی اموات میں سے ہر آٹھویں وجہ کینسر ہے۔ اور یہ تعداد ایڈز ٹی بی اور ملیریا سے ہونے والی مشترکہ اموات سے بھی زیادہ ہے اس وقت دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2030 تک یہ تعداد دگنی ہو جائے گی۔
کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں دنیا میں ہر سال لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ الارمنگ بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ممالک میں، غور فرمائیں 70فیصد اموات کینسر کے باعث ہوتی ہیں ۔ کینسر سے بچاؤ کے لیے ہم جیسے کم آمدنی والے ممالک کے پاس 30فیصد سے بھی کم وسائل ہیں۔
کیونکہ اس کا علاج انتہائی مہنگا ہے۔ نہ صرف غریب بلکہ اچھی حیثیت کے لوگوں کو بھی اس بیماری کے علاج کے لیے زیوارت قیمتی اشیاء یہاں تک کہ گھر بھی فروخت کرنا پڑتے ہیں۔ اب مریض بچتا ہے یا نہیں اس کی قسمت پر منحصر ہے۔
ورلڈ کینسر ریسرچ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 20ہزار سے زائد افراد الکوحل استعمال کرنے کی وجہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہمارے مذہب میں شراب الکوحل کے استعمال کو چودہ سوسال پہلے ہی منع کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ اس کے مضر اثرات انسانی تہذیب کی ارتقا کے ساتھ ہی سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ نشہ کی ابتداء ہمیشہ اس کی تھوڑی سی مقدار سے شروع ہوتی ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کی مقدار اپنی انتہا پر پہنچ جاتی ہے۔
جیسے جیسے انسانی خون میں شراب جذب ہوتی ہے اس کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ روزانہ استعمال کی نوبت آجاتی ہے۔ غریب اور کم آمدن افراد کی آمدن کا بڑا حصہ اس پر خرچ ہو جاتا ہے۔ جس سے گھر اور بچوں کی ضروریات کے لیے بہت کم رقم بچ پاتی ہے۔ اس سے خاندانی اور سماجی مسائل پیدا ہونے سے جرائم چوری اور ڈاکے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کئی دہائیاں پہلے جرمنی میں الکوحل کو سماجی طور پر انتہائی مہلک قرار دینے والے وزیر کو استعفی دینا پڑا کیونکہ وہ فی کس شراب کی راشن بندی کرنا چاہتے تھے خود ہمارے ہمسائے بھارت میں الکوحلک افراد کی تعداد میں ہر گزرتے دن بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
جسکی وجہ سے سنگین خاندانی سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں شراب پر پابندی کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں عوام دوسرے نشوں میں مبتلا ہو گئے ہیں یعنی بات وہیں کی وہیں ہے۔
امریکی محققین نے کینسر کی 31اقسام کا تجزیہ کیا جن میں 9اقسام کو موروثی کہا جا سکتا ہے جو والدین سے منتقل ہوتی ہیں۔ کینسر سے متعلق تحقیق کرنے والی بین الاقوامی ایجنسی کے اندازے کے مطابق دنیا میں 5میں سے ایک شخص کو کینسر ہوتا ہے۔ جب کہ 8میں سے ایک مرد اور 11میں سے ایک خاتون اس مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ نئے تخمینے بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں پانچ کروڑ سے زائد افراد کینسر کی تشخیص کے بعد اس مرض کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
سرطان کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے تازہ پیش رفت میں سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ قدیم وائرس کی ایسی باقیات جنھوں نے لاکھوں سال انسانی ڈی این اے کے اندر چھپ کر گزارے ہیں انسانی جسم کو سرطان سے لڑنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
ایک کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ ان قدیم وائرس کی غیر فعال باقیات اس وقت متحرک ہو جاتی ہیں جب سرطان کے خلیے بے قابو ہوجاتے ہیں۔ غیر ارادی طور پر اس سے انسان کے جسم میں موجود مدافعتی نظام کو ،مخصوص سرطان کو ہدف بنانے، اور اس پر حملہ آور ہونے میں مدد ملتی ہے۔
اس بیماری میں ایک اہم کردار ریٹرو وائرس کا ہے جو بڑی چالاکی سے اپنی جنیاتی ہدایات کی ایک کاپی انسانی جسم میں چھوڑ دیتا ہے۔ انسانی ڈی این اے کا 8فیصد حصہ ایسے ہی وائرل اقسام پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے چند ریٹرو وائرس کروڑوں سال قبل انسان کے جنیاتی کوڈ کا مستقل حصہ بن گئے تھے جب کہ چند شاید ہزاروں سال قبل انسانی ڈی این اے میں داخل ہوئے ہوں گے۔ کسی سرطان کے خلیے میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے جب یہ بے قابو ہو کر بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ ریٹرو وائرس اب ہمیں بچا رہے ہیں جو حیران کن ہے۔
اب سائنسدان امید کر رہے ہیں کہ کینسر کا علاج کرنے والی ویکسین ہی نہیں بلکہ مستقبل میں سرطان کی بیماری سے بچانے والی ویکسین بھی ایک دن ممکن ہو جائے گی۔ کیا پاکستان کا نظام بھی کینسر جیسی بیماری کا شکار ہو گیا ہے۔کبھی اس بیماری کا ابتدائی اسٹیج پر پتہ چل جاتا ہے کبھی آخری اسٹیج پر ۔ خدا نخواستہ ہم آخری اسٹیج پر تو نہیں پہنچ گئے ۔ خطے کے حالات، آثار و قرائین سے تو ایسے ہی لگتا ہے۔
کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں دنیا میں ہر سال لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ الارمنگ بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ممالک میں، غور فرمائیں 70فیصد اموات کینسر کے باعث ہوتی ہیں ۔ کینسر سے بچاؤ کے لیے ہم جیسے کم آمدنی والے ممالک کے پاس 30فیصد سے بھی کم وسائل ہیں۔
کیونکہ اس کا علاج انتہائی مہنگا ہے۔ نہ صرف غریب بلکہ اچھی حیثیت کے لوگوں کو بھی اس بیماری کے علاج کے لیے زیوارت قیمتی اشیاء یہاں تک کہ گھر بھی فروخت کرنا پڑتے ہیں۔ اب مریض بچتا ہے یا نہیں اس کی قسمت پر منحصر ہے۔
ورلڈ کینسر ریسرچ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 20ہزار سے زائد افراد الکوحل استعمال کرنے کی وجہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہمارے مذہب میں شراب الکوحل کے استعمال کو چودہ سوسال پہلے ہی منع کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ اس کے مضر اثرات انسانی تہذیب کی ارتقا کے ساتھ ہی سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ نشہ کی ابتداء ہمیشہ اس کی تھوڑی سی مقدار سے شروع ہوتی ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کی مقدار اپنی انتہا پر پہنچ جاتی ہے۔
جیسے جیسے انسانی خون میں شراب جذب ہوتی ہے اس کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ روزانہ استعمال کی نوبت آجاتی ہے۔ غریب اور کم آمدن افراد کی آمدن کا بڑا حصہ اس پر خرچ ہو جاتا ہے۔ جس سے گھر اور بچوں کی ضروریات کے لیے بہت کم رقم بچ پاتی ہے۔ اس سے خاندانی اور سماجی مسائل پیدا ہونے سے جرائم چوری اور ڈاکے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کئی دہائیاں پہلے جرمنی میں الکوحل کو سماجی طور پر انتہائی مہلک قرار دینے والے وزیر کو استعفی دینا پڑا کیونکہ وہ فی کس شراب کی راشن بندی کرنا چاہتے تھے خود ہمارے ہمسائے بھارت میں الکوحلک افراد کی تعداد میں ہر گزرتے دن بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
جسکی وجہ سے سنگین خاندانی سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں شراب پر پابندی کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں عوام دوسرے نشوں میں مبتلا ہو گئے ہیں یعنی بات وہیں کی وہیں ہے۔
امریکی محققین نے کینسر کی 31اقسام کا تجزیہ کیا جن میں 9اقسام کو موروثی کہا جا سکتا ہے جو والدین سے منتقل ہوتی ہیں۔ کینسر سے متعلق تحقیق کرنے والی بین الاقوامی ایجنسی کے اندازے کے مطابق دنیا میں 5میں سے ایک شخص کو کینسر ہوتا ہے۔ جب کہ 8میں سے ایک مرد اور 11میں سے ایک خاتون اس مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ نئے تخمینے بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں پانچ کروڑ سے زائد افراد کینسر کی تشخیص کے بعد اس مرض کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
سرطان کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے تازہ پیش رفت میں سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ قدیم وائرس کی ایسی باقیات جنھوں نے لاکھوں سال انسانی ڈی این اے کے اندر چھپ کر گزارے ہیں انسانی جسم کو سرطان سے لڑنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
ایک کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ ان قدیم وائرس کی غیر فعال باقیات اس وقت متحرک ہو جاتی ہیں جب سرطان کے خلیے بے قابو ہوجاتے ہیں۔ غیر ارادی طور پر اس سے انسان کے جسم میں موجود مدافعتی نظام کو ،مخصوص سرطان کو ہدف بنانے، اور اس پر حملہ آور ہونے میں مدد ملتی ہے۔
اس بیماری میں ایک اہم کردار ریٹرو وائرس کا ہے جو بڑی چالاکی سے اپنی جنیاتی ہدایات کی ایک کاپی انسانی جسم میں چھوڑ دیتا ہے۔ انسانی ڈی این اے کا 8فیصد حصہ ایسے ہی وائرل اقسام پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے چند ریٹرو وائرس کروڑوں سال قبل انسان کے جنیاتی کوڈ کا مستقل حصہ بن گئے تھے جب کہ چند شاید ہزاروں سال قبل انسانی ڈی این اے میں داخل ہوئے ہوں گے۔ کسی سرطان کے خلیے میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے جب یہ بے قابو ہو کر بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ ریٹرو وائرس اب ہمیں بچا رہے ہیں جو حیران کن ہے۔
اب سائنسدان امید کر رہے ہیں کہ کینسر کا علاج کرنے والی ویکسین ہی نہیں بلکہ مستقبل میں سرطان کی بیماری سے بچانے والی ویکسین بھی ایک دن ممکن ہو جائے گی۔ کیا پاکستان کا نظام بھی کینسر جیسی بیماری کا شکار ہو گیا ہے۔کبھی اس بیماری کا ابتدائی اسٹیج پر پتہ چل جاتا ہے کبھی آخری اسٹیج پر ۔ خدا نخواستہ ہم آخری اسٹیج پر تو نہیں پہنچ گئے ۔ خطے کے حالات، آثار و قرائین سے تو ایسے ہی لگتا ہے۔