حکومت کے پاس معاشی سدھار کے محدود مواقع
آئی ایم ایف کو ہر مرحلے کی مکمل گارنٹی فراہمی بھیانک خواب سے کم نہیں
پاکستان ابھی تک آئی ایم ایف کا نواں جائزہ مکمل نہیں کرسکا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک بری خبر ہے۔
سپریم کورٹ کی یقین دہانیوں کے باجود سیاسی درجہ حرارت کم نہیں ہورہا ہے، ملک معاشی بدحالی کی لپیٹ میں ہے، روپے کا 280 کے قریب مستحکم ہونا ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن کیا یہ کافی ہے؟
ڈالر کی سپلائی کو بڑھانے کے لیے تجارتی خسارے کا گلا گھونٹا جارہا ہے، صرف انتہائی ضرورت کی اشیاء درآمد کرنے کی اجازت دی جارہی ہے اور اس میں بھی تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں، ان مہینوں میں کوئی بھی کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس حکومت کے لیے مددگار ثابت ہوگا کیوں کہ حکومت کو جون کے اختتام تک 3.7 بلین ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کے باعث محنت کش طبقہ معاشی طور پر شدید دباؤ میں ہے، وزیراعظم
پاکستان سعودی عرب، چین اور یو اے ای کی مدد سے یہ ادائیگیاں ممکن بنا سکتا ہے، آئی ایم ایف اگلے مالی سال کے بجٹ کا ریویو کرنا چاہتا ہے، لیکن اگلا مالی سال الیکشن سال بھی ہے، ایسے میں حکومت کے لیے یہ ایک بھیانک خواب سے کم نہیں ہے، اس بار حکومت کے پاس مواقع کم ہیں، کیوں کہ اب آئی ایم ایف ہر مرحلے کی مکمل گارنٹی چاہتا ہے، تمام اقسام کی سبسڈیز واپس لینا ہوں گی۔
ایکسپورٹرز کو سستی لانگ ٹرم فنانسنگ میسر نہیں ہے اور نہ ہی گیس اور بجلی پر کسی قسم کی سبسڈی دی جارہی ہے، روپے کی گراوٹ میں بے انتہا کمی ابھی تک ایکسپورٹس کو ڈبل ڈیجٹ میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، اسی طرح درآمدی معیشت رک گئی ہے، جس کی وجہ سے اوور آل اکنامک ایکٹیویٹی، ایمپلائمنٹ ریٹ، ایکسپینشن پلان، منافع، اور ٹیکس کی وصولیوں وغیرہ پر منفی اثر پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال معاشی شرح نمو محض 0.8 فیصد رہے گی، وزارت خزانہ
اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوجاتا ہے تو بھی درآمدات میں استحکام آنے میں کچھ وقت لگے گا، سعودی عرب اور یو اے ای نے ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے، چین ڈیبٹ کو رول اوور کر رہا ہے، فارن ریزرو بڑھ رہے ہیں، تجارتی خسارہ کم ہورہا ہے، اسٹیٹ بینک ایکسپورٹرز کو رقوم کی فراہمی میں تاخیر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
حالیہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ حکومت ریجنل کمپیٹیٹیو انرجی ٹیرف کی صورت میں ایکسپورٹ پر 80 بلین روپے کی سبسڈی دے رہی ہے، اگر سال بھر میں اضافی ایکسپورٹ تین سے چار بلین ڈالر رہی ہے، تو یہ برا اضافہ نہیں ہے۔
پاکستان کے لیے اگلے چند سال مزید چیلنجنگ رہیں گے، مقامی اور غیر ملکی قرضوں میں کمی کرنے کے لیے پاکستان کو معاشی جنگ لڑنا ہوگی، اس کے لیے پاکستان کو ذرعی، ریئل اسٹیٹ، ٹرید اور سروسز میں ٹیکس وصولی کو بڑھانا ہوگا، خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی اور بلیک مارکیٹ کو دستاویزی بنانا ہوگا۔
سپریم کورٹ کی یقین دہانیوں کے باجود سیاسی درجہ حرارت کم نہیں ہورہا ہے، ملک معاشی بدحالی کی لپیٹ میں ہے، روپے کا 280 کے قریب مستحکم ہونا ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن کیا یہ کافی ہے؟
ڈالر کی سپلائی کو بڑھانے کے لیے تجارتی خسارے کا گلا گھونٹا جارہا ہے، صرف انتہائی ضرورت کی اشیاء درآمد کرنے کی اجازت دی جارہی ہے اور اس میں بھی تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں، ان مہینوں میں کوئی بھی کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس حکومت کے لیے مددگار ثابت ہوگا کیوں کہ حکومت کو جون کے اختتام تک 3.7 بلین ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کے باعث محنت کش طبقہ معاشی طور پر شدید دباؤ میں ہے، وزیراعظم
پاکستان سعودی عرب، چین اور یو اے ای کی مدد سے یہ ادائیگیاں ممکن بنا سکتا ہے، آئی ایم ایف اگلے مالی سال کے بجٹ کا ریویو کرنا چاہتا ہے، لیکن اگلا مالی سال الیکشن سال بھی ہے، ایسے میں حکومت کے لیے یہ ایک بھیانک خواب سے کم نہیں ہے، اس بار حکومت کے پاس مواقع کم ہیں، کیوں کہ اب آئی ایم ایف ہر مرحلے کی مکمل گارنٹی چاہتا ہے، تمام اقسام کی سبسڈیز واپس لینا ہوں گی۔
ایکسپورٹرز کو سستی لانگ ٹرم فنانسنگ میسر نہیں ہے اور نہ ہی گیس اور بجلی پر کسی قسم کی سبسڈی دی جارہی ہے، روپے کی گراوٹ میں بے انتہا کمی ابھی تک ایکسپورٹس کو ڈبل ڈیجٹ میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، اسی طرح درآمدی معیشت رک گئی ہے، جس کی وجہ سے اوور آل اکنامک ایکٹیویٹی، ایمپلائمنٹ ریٹ، ایکسپینشن پلان، منافع، اور ٹیکس کی وصولیوں وغیرہ پر منفی اثر پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال معاشی شرح نمو محض 0.8 فیصد رہے گی، وزارت خزانہ
اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوجاتا ہے تو بھی درآمدات میں استحکام آنے میں کچھ وقت لگے گا، سعودی عرب اور یو اے ای نے ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے، چین ڈیبٹ کو رول اوور کر رہا ہے، فارن ریزرو بڑھ رہے ہیں، تجارتی خسارہ کم ہورہا ہے، اسٹیٹ بینک ایکسپورٹرز کو رقوم کی فراہمی میں تاخیر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
حالیہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ حکومت ریجنل کمپیٹیٹیو انرجی ٹیرف کی صورت میں ایکسپورٹ پر 80 بلین روپے کی سبسڈی دے رہی ہے، اگر سال بھر میں اضافی ایکسپورٹ تین سے چار بلین ڈالر رہی ہے، تو یہ برا اضافہ نہیں ہے۔
پاکستان کے لیے اگلے چند سال مزید چیلنجنگ رہیں گے، مقامی اور غیر ملکی قرضوں میں کمی کرنے کے لیے پاکستان کو معاشی جنگ لڑنا ہوگی، اس کے لیے پاکستان کو ذرعی، ریئل اسٹیٹ، ٹرید اور سروسز میں ٹیکس وصولی کو بڑھانا ہوگا، خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی اور بلیک مارکیٹ کو دستاویزی بنانا ہوگا۔