اداروں اور پارٹی سربراہوں کی آمریت

ادارے کا سربراہ اقتدار کے نشے میں یہ نہیں سوچتا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اقتدار ساتھ چھوڑ دیتا ہے

m_saeedarain@hotmail.com

قومی اسمبلی میں ایک رکن محسن داوڑکا کہنا تھا کہ ایک سابق چیف جسٹس نے اپنے من مانے فیصلے پر قائم رہ کر اپنے ہی شہر کراچی میں ایک بڑی رہائشی عمارت اپنے حکم سے منہدم کرا دی تھی جس میں رہنے والے سیکڑوں افراد اپنے گھروں سے محروم اور لاکھوں روپے کا مالی نقصان اٹھا کر سڑکوں پر آگئے تھے، جن کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی اور نہ انھیں کوئی معاوضہ ملا۔

عدلیہ کے ایک سربراہ نے عمران خان کی بنی گالا کی غیر قانونی تعمیرات کو معمولی جرمانے کے بعد قانونی بنا دیا تھا تو ایک دوسرے عدالتی سربراہ نے کراچی کی اہم شاہراہ پر بنی ایک بڑی بلڈنگ تعمیر کے بعد غیر قانونی قرار دے کر مکمل منہدم کرا کر ہی دم لیا تھا اور انھوں نے تو طارق روڈ پر ایک بڑی مسجد کی تعمیر بھی غیر قانونی قرار دے کر گرانے کا فیصلہ دیا تھا مگر مذہبی اور عوامی حلقوں کی سخت مزاحمت کے باعث ناکام رہے تھے۔

فیصلہ دیتے وقت ان کے عدالتی اختیارات کے آخری دن تھے اس لیے وہ مسجد نہ گروا سکے جس کے نتیجے میں انھیں مذہبی عوامی ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑتا مگر انھوں نے اپنی ضد میں بلڈنگ گروا کر درجنوں افراد کو بے گھر ضرور کرا دیا تھا اور کسی کی بھی درخواست نہیں مانی تھی اور اپنے دور میں ہی ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر اعظم جیسی مراعات خود ہی اپنے حکم سے حاصل کرلی تھیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اس کے سربراہ کی ذاتی جاگیر ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو جیسے چاہے چلائے، تقرریاں کرے، لوگوں کو اختلاف رائے پر پارٹی سے نکالے یا اپنی ہی طرف سے ناپسندیدہ بلکہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیے شخص کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے بعد اپنی پارٹی کا صدر بھی بنا دے تو اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ وہ چپڑاسی قرار دیے گئے خوشامدی کو وزیر داخلہ جیسا اہم عہدہ کیوں عنایت کیا تھا۔

میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کے عتاب برداشت کرتے وقت کہا تھا کہ وہ (ن) لیگ کو دھوکا دینے والوں کو پارٹی میں واپس نہیں لیں گے مگر انھوں نے تیسری بار وزیر اعظم بن کر نہ صرف جنرل مشرف کے ساتھیوں کو واپس لیا بلکہ انھیں سرکاری عہدے بھی دیے تھے۔


فوجی بالاتروں کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے والے جب اپنے لانے والوں کو ہی آنکھیں دکھانے لگے تو انھیں لانے والے انھیں ہٹا بھی سکتے ہیں پھر وہ کہتا پھرے کے مجھے کیوں نکالا۔ وہ گوجرانوالہ کے جلسے میں دو جنرلوں کو اس کا ذمے دار بھی قرار دے اور پھر مجبور ہو جائے کہ اپنی پارٹی کو کہے کہ وہ اسی جنرل کو تین سال کی توسیع دے دے۔

سرکاری افسر کی طاقت اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے ماتحت اپنے سربراہ کی اطاعت کے پابند ہوتے ہیں۔ بعض سرکاری اعلیٰ افسروں کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی اعلیٰ سول افسر کو ملازمت سے فارغ کردے۔

ملک میں ہر سیاسی وزیر اعظم من مانیوں کا عادی رہا ہے جسے اس کی کچن کابینہ کے ارکان بھی بہ مشکل سمجھا پاتے ہیں۔ بالاتروں کی حمایت حاصل ہو مگر ایوان میں اکثریت نہ بھی ہو تو عمران خان جیسا وزیر اعظم اپنے سارے سیاسی مخالفین کو گرفتار کرا دیتا ہے مگر دو تہائی اکثریت کا حامل نواز شریف جیسا وزیر اعظم آرمی چیف کو ہٹانے کی سزا بھی بھگتتا ہے اور جلاوطن بھی ہو جاتا ہے اور شکر کرتا ہے کہ اس کی جان بچ گئی اور وہ بھٹو جیسے عدالتی قتل کے فیصلے میں پھانسی چڑھنے سے بچ جاتا ہے۔

ملک میں اب فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بعد عدالتی اسٹیبلشمنٹ کی بھی باتیں ہو رہی ہیں مگر پارٹیوں کے سربراہ کبھی اپنی غلطیوں اور من مانیوں پر غور نہیں کرتے کہ وہ اقتدار میں آمروں کو بھی پیچھے کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر ادارہ آئین کی بات ضرور کرتا ہے مگر آئین کی خلاف ورزی بھی ضرور کرتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ یہ اقتدار اور اختیار ختم بھی ہوتا ہے۔

ادارے کا سربراہ اقتدار کے نشے میں یہ نہیں سوچتا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اقتدار ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ ہر ادارے میں سربراہوں کی ریٹائرمنٹ ہے سیاست میں ریٹائرمنٹ نہیں، اس لیے 70سال سے زیادہ کا ہو جانے کے بعد بھی اسے اقتدار کی طلب رہتی ہے۔ ادارے ہوں یا سیاسی پارٹیاں کسی کے سربراہ نے تاعمر اقتدار میں نہیں رہنا مرنا بھی ہے اس لیے اگر ہر سربراہ انجام پیش نظر رکھے من مانیاں اور آمریت چھوڑ دے تو اس کا اور ادارے کا مستقبل بہتر رہ سکتا ہے ورنہ پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو آج ہو رہا ہے۔
Load Next Story