سیاسی صورتحال
بطور کپتان اپنی ٹیم کو سنبھالنا بھی ان کا کام ہے۔ ساری ٹیم اس طرح قانون کی گرفت میں دینا کوئی اچھی کپتانی نہیں
جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تب پی ڈی ایم سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے جا رہی ہو گی لیکن جب تک آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے دھرنا کوئی نہ کوئی شکل لے چکا ہوگا۔ اس لیے ابھی دھرنے پر نہیں لکھ سکتا۔
دوسری طرف عمران خان نے بھی رہائی کے بعد جو خطاب کیا ہے اس نے ملک میں لگی آگ کو بجھانے کے بجائے بڑھایا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فی الحال عمران خان آگ کو بجھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ آگ بڑھانے کی پالیسی پر ایک سال سے کام کر رہے ہیں اور ابھی اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
14مئی کو عمران خان نے ایک احتجاج کی کال دی تھی لیکن ان کی اس کال پر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ پنجاب میں انتخابات نہ ہونے پر دی جانے والی احتجاج کی کال پر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ ویسے تو تحریک انصاف کی ساری قیادت اس وقت پکڑی جا چکی ہے۔ کارکن بھی پکڑے جا چکے ہیں۔ صرف عمران خان کی ہی رہائی ہوئی ہے۔ اب اکیلے عمران خان کیا احتجاج کریں۔ ساتھ بھی تو کوئی ہونا چاہیے۔ اس لیے رہائی کے فوری بعد عمران خان کی جانب سے 14مئی کو دی جانی والی احتجاجی کال ناکام ہو گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی احتجاجی سیاست کے لیے کارکنوں کے محتاج ہیں۔ عوام ساتھ نہیں ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ عمران خان نے اپنی گرفتاری کے بعد احتجاج کی جو پلاننگ کی تھی اس میں یہ یقین تھا کہ عوام کا جم غفیر نکل آئے گا۔ جس کے ساتھ ہم جو بھی کریں گے وہ لگے گا کہ عوام نے کیا ہے، لیکن عوام نہیں نکلے۔ اس لیے جو کیا وہ تحریک انصاف کے گلے پڑگیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد جن جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا وہ طے تھے۔ لیکن عوام کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے ساری پلاننگ فیل ہو گئی ہے۔ بلکہ الٹا پوری تحریک انصاف مشکل میں پڑ گئی ہے۔
ملک میں افواہیں ہیں کہ فوجی مقامات کو جلانے اور ان پر حملہ آور ہونے پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ یہ بات ابھی کنفرم نہیں ہے۔ لیکن اس کی بازگشت بہت ہے۔ زبان زد عام ہے کہ فوج نے کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگانے اور جی ایچ کیو پر حملہ جیسے دیگر سنگین جرائم کا مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت درج کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے لیکن کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، صرف اعلان باقی ہے۔
تاہم ابھی تک جو بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں وہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات پر ہی ہوئی ہیں۔ ابھی آرمی ایکٹ کے تحت کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ ابھی صرف اس کی بازگشت ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ نا ممکن نہیں۔ ملک کے حالات جس طرف جا رہے ہیں۔ بات وہاں تک پہنچ چکی ہے۔ عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بھی ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
کیا اسٹیبلشمنٹ یہ سوچ رہی ہے کہ اگر فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو پاکستان کی عام عدالتوں سے کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکتا تو انھیں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر کے انھیں ہی کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی د ہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔
کیا اب سیاسی دہشت گردوں کے لیے بھی آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات فوجی عدالتوں میں ہی چلیں گے۔ پہلے یہ طے ہوا تھا کہ ہماری عدالتوں میں دہشت گردوںکو سزا دینے کی اہلیت نہیں ہے۔ کیا اب یہ بھی طے ہو جائے گا کہ ان میں سیاسی دہشت گردوں کو سزا دینے کی بھی اہلیت نہیں ہے۔
اگر اسٹیبلشمنٹ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اسے بھی عدالتوں سے انصاف نہیں مل سکتا تو کیا ہوگا۔ اگر یہ سوچ بن جائے کہ کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگانے میں ملوث لوگوں کو بھی ضمانتیں مل گئی ہیں۔ اگر یہ ہو جائے کہ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کو بھی ضمانتیں مل گئی ہیں۔ ایم ایم عالم کا جہاز جلانے والوں کو بھی ضمانت مل گئی ہے کاکول اکیڈمی پر حملہ کرنے والوں کو بھی ضمانت مل گئی ہے۔
ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ کو جلانے والوں کو بھی ضمانت مل گئی ہے تو پھر کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ کیا یہ ضمانتیں ایک سیاسی جماعت کا حق ہیں۔ باقی سب کے لیے نہیں ہیں۔ یہ سوال تو بنے گا۔ عدالتوں کا تحریک انصاف کے لیے ضمانتوں کا اور معیار ہے جب کہ باقی ملک کے باقی شہریوں کے لیے دوسرا معیار ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں جو ہوا اس کے بعد سپریم کورٹ نے انھیں جیسے ضمانت دی اس سے ملک میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیا۔ اس کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ نے ان سنگین واقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ عدالت کا انھیں اس طرح غیر معمولی انصاف دینا کوئی اچھی روایت نہیں مانی جائے گی۔ آج سپریم کورٹ کے باہر جو دھرنا نظرآ رہا ہے وہ بھی اسی وجہ سے ہے۔ عدلیہ اس صورتحال سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی، اس ساری صورتحال کی کہیں انھیں بھی ذمے داری اٹھانا ہوگی۔
عمران خان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان کی سیاسی قوت بہت کمزور ہو گئی ہے۔ ان کی لڑنے والی فورس ایک ہی دن میں گرفت میں آگئی ہے۔ ان کی سیاسی فورس بھی گرفت میں آگئی ہے۔ ایک ہی دن میں ساری قوت کو گرفت میں دے دینا کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں نظر آئی۔ عمران خان کی گرفتاری کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں تھا کہ عمران خان اپنی ساری قوت اس میں لگا دیتے۔
بطور کپتان اپنی ٹیم کو سنبھالنا بھی ان کا کام ہے۔ ساری ٹیم اس طرح قانون کی گرفت میں دینا کوئی اچھی کپتانی نہیں۔ ان کے مقابلے میں دیگر سیاسی لیڈروں نے ہمیشہ اپنی سیاسی قوت بچانے اور اس کو سنبھال کر رکھنے کی پالیسی پر کام کیا ہے۔ اس طرح ریاست سے ٹکرانا کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں نظر آئی۔
میڈیا کو دو دھاری تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی دو دھاری تلوار ہی نظر آیا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے ہمیشہ سوشل میڈیا سے فائدہ ہی اٹھایا ہے۔ یہ ان کا کامیاب ہتھیار رہا ہے۔ لیکن اس بار سوشل میڈیا ہی تحریک انصاف کی سیاسی موت کا باعث بن گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے خود شئیر کی جانے والی وڈیوز ہی ان کے خلاف ثبوت بن گئی ہیں۔ ان کی اپنی لوڈ کی گئی وڈیوز ہی ان کی گرفتاری کا سبب بن گئی ہیں۔ بڑے شوق اور فاتحانہ انداز میں اپ لوڈ کی جانے والی وڈیوز ہی ان کی مشکل کا باعث بن گئی ہیں۔ مزید کسی ثبوت کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ اب سوشل میڈیا ہی ان کے خلاف ثبوت بن گیا ہے۔
ایسی وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔ جن میں گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکن معافیاں بھی مانگ رہے ہیں۔ گرفتاری کے بعد پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں۔ کراچی میں رینجرز کی چوکی کو آگ لگا کر وڈیو اپ لوڈ کرنے والے باپ بیٹے نے پکڑے جانے کے بعد اب پاک فوج زندہ باد اور معافی کی وڈیو بھی بنوا دی ہے۔
اس لیے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف سے غلطی ہوئی ہے۔ جس کا اب وہ خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اب وہ جس مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ اس سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ بلکہ حالات مشکل سے مشکل ہوتے جائیں گے۔
دوسری طرف عمران خان نے بھی رہائی کے بعد جو خطاب کیا ہے اس نے ملک میں لگی آگ کو بجھانے کے بجائے بڑھایا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فی الحال عمران خان آگ کو بجھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ آگ بڑھانے کی پالیسی پر ایک سال سے کام کر رہے ہیں اور ابھی اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
14مئی کو عمران خان نے ایک احتجاج کی کال دی تھی لیکن ان کی اس کال پر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ پنجاب میں انتخابات نہ ہونے پر دی جانے والی احتجاج کی کال پر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ ویسے تو تحریک انصاف کی ساری قیادت اس وقت پکڑی جا چکی ہے۔ کارکن بھی پکڑے جا چکے ہیں۔ صرف عمران خان کی ہی رہائی ہوئی ہے۔ اب اکیلے عمران خان کیا احتجاج کریں۔ ساتھ بھی تو کوئی ہونا چاہیے۔ اس لیے رہائی کے فوری بعد عمران خان کی جانب سے 14مئی کو دی جانی والی احتجاجی کال ناکام ہو گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی احتجاجی سیاست کے لیے کارکنوں کے محتاج ہیں۔ عوام ساتھ نہیں ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ عمران خان نے اپنی گرفتاری کے بعد احتجاج کی جو پلاننگ کی تھی اس میں یہ یقین تھا کہ عوام کا جم غفیر نکل آئے گا۔ جس کے ساتھ ہم جو بھی کریں گے وہ لگے گا کہ عوام نے کیا ہے، لیکن عوام نہیں نکلے۔ اس لیے جو کیا وہ تحریک انصاف کے گلے پڑگیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد جن جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا وہ طے تھے۔ لیکن عوام کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے ساری پلاننگ فیل ہو گئی ہے۔ بلکہ الٹا پوری تحریک انصاف مشکل میں پڑ گئی ہے۔
ملک میں افواہیں ہیں کہ فوجی مقامات کو جلانے اور ان پر حملہ آور ہونے پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ یہ بات ابھی کنفرم نہیں ہے۔ لیکن اس کی بازگشت بہت ہے۔ زبان زد عام ہے کہ فوج نے کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگانے اور جی ایچ کیو پر حملہ جیسے دیگر سنگین جرائم کا مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت درج کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے لیکن کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، صرف اعلان باقی ہے۔
تاہم ابھی تک جو بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں وہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات پر ہی ہوئی ہیں۔ ابھی آرمی ایکٹ کے تحت کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ ابھی صرف اس کی بازگشت ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ نا ممکن نہیں۔ ملک کے حالات جس طرف جا رہے ہیں۔ بات وہاں تک پہنچ چکی ہے۔ عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بھی ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
کیا اسٹیبلشمنٹ یہ سوچ رہی ہے کہ اگر فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو پاکستان کی عام عدالتوں سے کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکتا تو انھیں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر کے انھیں ہی کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی د ہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔
کیا اب سیاسی دہشت گردوں کے لیے بھی آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات فوجی عدالتوں میں ہی چلیں گے۔ پہلے یہ طے ہوا تھا کہ ہماری عدالتوں میں دہشت گردوںکو سزا دینے کی اہلیت نہیں ہے۔ کیا اب یہ بھی طے ہو جائے گا کہ ان میں سیاسی دہشت گردوں کو سزا دینے کی بھی اہلیت نہیں ہے۔
اگر اسٹیبلشمنٹ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اسے بھی عدالتوں سے انصاف نہیں مل سکتا تو کیا ہوگا۔ اگر یہ سوچ بن جائے کہ کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگانے میں ملوث لوگوں کو بھی ضمانتیں مل گئی ہیں۔ اگر یہ ہو جائے کہ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کو بھی ضمانتیں مل گئی ہیں۔ ایم ایم عالم کا جہاز جلانے والوں کو بھی ضمانت مل گئی ہے کاکول اکیڈمی پر حملہ کرنے والوں کو بھی ضمانت مل گئی ہے۔
ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ کو جلانے والوں کو بھی ضمانت مل گئی ہے تو پھر کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ کیا یہ ضمانتیں ایک سیاسی جماعت کا حق ہیں۔ باقی سب کے لیے نہیں ہیں۔ یہ سوال تو بنے گا۔ عدالتوں کا تحریک انصاف کے لیے ضمانتوں کا اور معیار ہے جب کہ باقی ملک کے باقی شہریوں کے لیے دوسرا معیار ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں جو ہوا اس کے بعد سپریم کورٹ نے انھیں جیسے ضمانت دی اس سے ملک میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیا۔ اس کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ نے ان سنگین واقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ عدالت کا انھیں اس طرح غیر معمولی انصاف دینا کوئی اچھی روایت نہیں مانی جائے گی۔ آج سپریم کورٹ کے باہر جو دھرنا نظرآ رہا ہے وہ بھی اسی وجہ سے ہے۔ عدلیہ اس صورتحال سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی، اس ساری صورتحال کی کہیں انھیں بھی ذمے داری اٹھانا ہوگی۔
عمران خان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان کی سیاسی قوت بہت کمزور ہو گئی ہے۔ ان کی لڑنے والی فورس ایک ہی دن میں گرفت میں آگئی ہے۔ ان کی سیاسی فورس بھی گرفت میں آگئی ہے۔ ایک ہی دن میں ساری قوت کو گرفت میں دے دینا کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں نظر آئی۔ عمران خان کی گرفتاری کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں تھا کہ عمران خان اپنی ساری قوت اس میں لگا دیتے۔
بطور کپتان اپنی ٹیم کو سنبھالنا بھی ان کا کام ہے۔ ساری ٹیم اس طرح قانون کی گرفت میں دینا کوئی اچھی کپتانی نہیں۔ ان کے مقابلے میں دیگر سیاسی لیڈروں نے ہمیشہ اپنی سیاسی قوت بچانے اور اس کو سنبھال کر رکھنے کی پالیسی پر کام کیا ہے۔ اس طرح ریاست سے ٹکرانا کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں نظر آئی۔
میڈیا کو دو دھاری تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی دو دھاری تلوار ہی نظر آیا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے ہمیشہ سوشل میڈیا سے فائدہ ہی اٹھایا ہے۔ یہ ان کا کامیاب ہتھیار رہا ہے۔ لیکن اس بار سوشل میڈیا ہی تحریک انصاف کی سیاسی موت کا باعث بن گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے خود شئیر کی جانے والی وڈیوز ہی ان کے خلاف ثبوت بن گئی ہیں۔ ان کی اپنی لوڈ کی گئی وڈیوز ہی ان کی گرفتاری کا سبب بن گئی ہیں۔ بڑے شوق اور فاتحانہ انداز میں اپ لوڈ کی جانے والی وڈیوز ہی ان کی مشکل کا باعث بن گئی ہیں۔ مزید کسی ثبوت کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ اب سوشل میڈیا ہی ان کے خلاف ثبوت بن گیا ہے۔
ایسی وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔ جن میں گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکن معافیاں بھی مانگ رہے ہیں۔ گرفتاری کے بعد پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں۔ کراچی میں رینجرز کی چوکی کو آگ لگا کر وڈیو اپ لوڈ کرنے والے باپ بیٹے نے پکڑے جانے کے بعد اب پاک فوج زندہ باد اور معافی کی وڈیو بھی بنوا دی ہے۔
اس لیے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف سے غلطی ہوئی ہے۔ جس کا اب وہ خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اب وہ جس مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ اس سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ بلکہ حالات مشکل سے مشکل ہوتے جائیں گے۔