خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
عمران خان کی گرفتاری پر جو ردعمل سامنے آیا، وہ جمہوری سیاسی پارٹی کا نہیں تھا
گزشتہ دنوں پاکستان میں جس طرح کے دلدوزمناظر دیکھنے میں آئے، وہ ہر گز خوش کن تھے اور نہ قابل تعریف بلکہ قابل مذمت ضرور ہیں ،جس طرح ریاست کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور دھوئیں کے بادل آسمان پر چھا گئے، ان بادلوں کو دیکھ کر ہروہ سچا پاکستانی اشکبار ہو گیا جس کو پاکستان سے اٹوٹ محبت ہے اور وہ پاکستان کی سلامتی پر اپنی جان چھڑکتا ہے۔
پاکستان کے خلاف جس وقت یہ واردات ہو رہی تھی، میں گاؤں میں تھا اور محدود ذرایع ابلاغ کے ذریعے جو کچھ دیکھنے کو ملا ،اس پر دوردراز دیہات میں بسنے والے پاکستانی بھی غم زدہ دکھائی دیے۔خطہ پوٹھوار کی پہچان ہی کھیتی باڑی اور فوجی جوان ہے ۔
کوہستان نمک کے اس جفا کش علاقے سے جوان سے لے کرجرنیل تک فوج میں اپنی خدمات ادا کر رہے ہیں وہ اور ان کے اہل خانہ افواج پاکستان سے غیر مشروط محبت اپنی زندگی کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔
جب بھی فوج کی کوئی گاڑی گاؤں کی بڑی شاہراہ سے گزرتی ہے تو بچے بوڑھے فوجی جوانوں کو سیلوٹ کرنااپنا فرض سمجھتے ہیں ۔گاؤں میں گزرے بچپن کے دنوں میں میں نے خود بھی یہ فرض سرانجام دیا ہے اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے بھی لگائے ہیں۔
گاؤں کا کوئی فوجی جوان جب چھٹی پر گھر آتا ہے تو اس سے فوج کی زندگی کے شب و روز کے قصے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں اور افواج پاکستان سے اپنی محبت تازہ کرتے ہیں۔ اس خطہ میں کوئی قبرستان ایسا نہیں ہے جس میں شہداء مدفون نہ ہوں جنھوں نے دفاع وطن کی خاطر اپنا آج آیندہ نسلوں کے لیے قربان کر دیا۔پاکستان میں سیاست کے گرم بازار میں سیاستدان اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔
ریاست پاکستان کے مفاد کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف اپنے اقتدار کی بات کی جارہی ہے۔ عوام ان کے طرز سیاست کو بغور دیکھ رہے ہیں اور وہ وقت دورنہیں کہ عوام اس نتیجہ تک پہنچ جائیں گے کہ ریاست سے سیاست اور مفادات کو مقدم رکھنے والے کون لوگ ہیں ؟ تحریک انصاف حکومت کی گزشتہ برس رخصتی کے بعدعمران خان نے سیاسی میدان میں جو افراتفری پھیلا رکھی ہے۔
اس سے عوام الناس میں اپنے رہنماؤں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ابہام پایا جاتا ہے اور وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہے یا غلط سمت میں جارہا ہے ، ادھر قوم ایک ایسی دلدل میں پہنچ چکی ہے جس سے نکلنے کا فی الحال کوئی راستہ نظر نہیں آرہااور نہ ہی کوئی بہتری کے راستے کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔
ہوشربا مہنگائی نے عوام کے اوسان خطا کر رکھے ہیں جب کہ سیاست دانوں نے قوم کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے، یہ فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ کون صحیح راستے پرتھا اور کون قوم کو بھٹکا رہا تھا۔ لیکن کیا بدقسمتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں ہی یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ پاکستانی قوم کا ایک گروہ اپنی خواہشات کے تابع ہو کر اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اس نے اپنی ہی افواج کی تنصیبات ، شہداء کی یادگاروںاورگھروں پر حملہ کر دیا۔
حملہ آور گروہ، اب لاکھ کہتا رہے کہ اس احتجاج کی آڑ میں شر پسند عناصر نے افواج پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن حالات و واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والے گروہ کے سرکردہ رہنما اپنے پیرو کاروں کو لے کر ان مقامات تک آئے، جس کا نتیجہ پاکستانی قوم اور دنیا بھر کے سامنے ہے۔
بلاشبہ جو کام ہمارا ازلی دشمن ہندوستان گزشتہ پچھتر برس میں نہ کر سکا ،وہ خود کو پاکستانی کہلانے والے ایک گروہ نے کر دکھایا اور اب اس پر ندامت اور معافی مانگنے کے بجائے بونگی اور لایعنی تاویلیں پیش کر رہے ہیںلیکن اب ان تاویلیوں کو اس گروہ کے اپنے پیروکار بھی ماننے کو تیار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ ایک نکتے پر ہی تو پاکستانی قوم ہمیشہ متفق رہی ہے اور وہ نکتہ افواج پاکستان کی غیر مشروط محبت اور حمایت کا ہے جس پر قوم کبھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔
عمران خان کی گرفتاری پر جو ردعمل سامنے آیا، وہ جمہوری سیاسی پارٹی کا نہیں تھا۔ حکومت اور افواج پاکستان کی جانب سے ان پر تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کی کاروائیوںپر فوری ردعمل سامنے نہیں آیا بلکہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا گیا، حکومتی مشینری نے ملک بھر میں سوشل میڈیا کی بندش کا فیصلہ بھی بروقت کیا جس سے افواہوں اور پروپگینڈے کے آگے بند باندھنے میں خاطر خواہ مدد ملی، اگر یہ فیصلہ بروقت نہ کیا جاتا تو شاید ریاست کا بہت زیادہ نقصان ہو جاتا۔ عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو فوری عدالتی ریلیف فراہم کردیا ۔
اس پر سوالات تو اٹھیں گے۔ تحریک انصاف کی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ملک بھر میں جو آگ بھڑکائی اس نے ہر اس درد مند پاکستانی کو رلا دیا ہے جو اپنے وطن اور اس کی محافظ افواج سے محبت کرتا ہے۔
ریاست پاکستان کے مختلف شہروں سے آگ کے شعلے اور دھوئیں کے بلند ہوتے بادل اپنے ہدف کو خاکستر کر کے بجھ ضرورگئے ہیں لیکن اس راکھ کی چنگاریاں محب وطن پاکستانیوں کے دلوںکو مسلسل جلا رہی ہیں۔ فیض ؔصاحب کی نظم کاایک بے مثال شعر ہمارے آج کے حالات کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
پاکستان کے خلاف جس وقت یہ واردات ہو رہی تھی، میں گاؤں میں تھا اور محدود ذرایع ابلاغ کے ذریعے جو کچھ دیکھنے کو ملا ،اس پر دوردراز دیہات میں بسنے والے پاکستانی بھی غم زدہ دکھائی دیے۔خطہ پوٹھوار کی پہچان ہی کھیتی باڑی اور فوجی جوان ہے ۔
کوہستان نمک کے اس جفا کش علاقے سے جوان سے لے کرجرنیل تک فوج میں اپنی خدمات ادا کر رہے ہیں وہ اور ان کے اہل خانہ افواج پاکستان سے غیر مشروط محبت اپنی زندگی کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔
جب بھی فوج کی کوئی گاڑی گاؤں کی بڑی شاہراہ سے گزرتی ہے تو بچے بوڑھے فوجی جوانوں کو سیلوٹ کرنااپنا فرض سمجھتے ہیں ۔گاؤں میں گزرے بچپن کے دنوں میں میں نے خود بھی یہ فرض سرانجام دیا ہے اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے بھی لگائے ہیں۔
گاؤں کا کوئی فوجی جوان جب چھٹی پر گھر آتا ہے تو اس سے فوج کی زندگی کے شب و روز کے قصے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں اور افواج پاکستان سے اپنی محبت تازہ کرتے ہیں۔ اس خطہ میں کوئی قبرستان ایسا نہیں ہے جس میں شہداء مدفون نہ ہوں جنھوں نے دفاع وطن کی خاطر اپنا آج آیندہ نسلوں کے لیے قربان کر دیا۔پاکستان میں سیاست کے گرم بازار میں سیاستدان اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔
ریاست پاکستان کے مفاد کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف اپنے اقتدار کی بات کی جارہی ہے۔ عوام ان کے طرز سیاست کو بغور دیکھ رہے ہیں اور وہ وقت دورنہیں کہ عوام اس نتیجہ تک پہنچ جائیں گے کہ ریاست سے سیاست اور مفادات کو مقدم رکھنے والے کون لوگ ہیں ؟ تحریک انصاف حکومت کی گزشتہ برس رخصتی کے بعدعمران خان نے سیاسی میدان میں جو افراتفری پھیلا رکھی ہے۔
اس سے عوام الناس میں اپنے رہنماؤں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ابہام پایا جاتا ہے اور وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہے یا غلط سمت میں جارہا ہے ، ادھر قوم ایک ایسی دلدل میں پہنچ چکی ہے جس سے نکلنے کا فی الحال کوئی راستہ نظر نہیں آرہااور نہ ہی کوئی بہتری کے راستے کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔
ہوشربا مہنگائی نے عوام کے اوسان خطا کر رکھے ہیں جب کہ سیاست دانوں نے قوم کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے، یہ فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ کون صحیح راستے پرتھا اور کون قوم کو بھٹکا رہا تھا۔ لیکن کیا بدقسمتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں ہی یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ پاکستانی قوم کا ایک گروہ اپنی خواہشات کے تابع ہو کر اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اس نے اپنی ہی افواج کی تنصیبات ، شہداء کی یادگاروںاورگھروں پر حملہ کر دیا۔
حملہ آور گروہ، اب لاکھ کہتا رہے کہ اس احتجاج کی آڑ میں شر پسند عناصر نے افواج پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن حالات و واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والے گروہ کے سرکردہ رہنما اپنے پیرو کاروں کو لے کر ان مقامات تک آئے، جس کا نتیجہ پاکستانی قوم اور دنیا بھر کے سامنے ہے۔
بلاشبہ جو کام ہمارا ازلی دشمن ہندوستان گزشتہ پچھتر برس میں نہ کر سکا ،وہ خود کو پاکستانی کہلانے والے ایک گروہ نے کر دکھایا اور اب اس پر ندامت اور معافی مانگنے کے بجائے بونگی اور لایعنی تاویلیں پیش کر رہے ہیںلیکن اب ان تاویلیوں کو اس گروہ کے اپنے پیروکار بھی ماننے کو تیار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ ایک نکتے پر ہی تو پاکستانی قوم ہمیشہ متفق رہی ہے اور وہ نکتہ افواج پاکستان کی غیر مشروط محبت اور حمایت کا ہے جس پر قوم کبھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔
عمران خان کی گرفتاری پر جو ردعمل سامنے آیا، وہ جمہوری سیاسی پارٹی کا نہیں تھا۔ حکومت اور افواج پاکستان کی جانب سے ان پر تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کی کاروائیوںپر فوری ردعمل سامنے نہیں آیا بلکہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا گیا، حکومتی مشینری نے ملک بھر میں سوشل میڈیا کی بندش کا فیصلہ بھی بروقت کیا جس سے افواہوں اور پروپگینڈے کے آگے بند باندھنے میں خاطر خواہ مدد ملی، اگر یہ فیصلہ بروقت نہ کیا جاتا تو شاید ریاست کا بہت زیادہ نقصان ہو جاتا۔ عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو فوری عدالتی ریلیف فراہم کردیا ۔
اس پر سوالات تو اٹھیں گے۔ تحریک انصاف کی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ملک بھر میں جو آگ بھڑکائی اس نے ہر اس درد مند پاکستانی کو رلا دیا ہے جو اپنے وطن اور اس کی محافظ افواج سے محبت کرتا ہے۔
ریاست پاکستان کے مختلف شہروں سے آگ کے شعلے اور دھوئیں کے بلند ہوتے بادل اپنے ہدف کو خاکستر کر کے بجھ ضرورگئے ہیں لیکن اس راکھ کی چنگاریاں محب وطن پاکستانیوں کے دلوںکو مسلسل جلا رہی ہیں۔ فیض ؔصاحب کی نظم کاایک بے مثال شعر ہمارے آج کے حالات کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد