بلند فشار خون تعارف تشخیص اور علاج
احتیاطی تدابیر اپنا کر مرض کی شدت پر قابو پایا جا سکتا ہے
اب سے ڈیڑھ دو سو برس پہلے کی بات ہے، اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا غالب نے ایک خوب صورت شعر کہا تھا:
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
خون کا رگوں میں دوڑنا پھرنا کوئی عجیب بات نہیں ہے اور یہ زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے مگر آنکھ سے لہو کا ٹپکنا ایک شاعرانہ تعلّی ہے اور اس کے ذریعے غالب اپنے درد کی شدت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 17 مئی کو بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈپریشر سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
یہ دن منانے کا مقصد لوگوں کو ہائی بلڈپریشر کے بارے میں درست معلومات کی فراہمی اور اس سے بچائو کے متعلق تدابیر اپنانے میں عوام کی رہنمائی کرنا ہے۔ اس موقع پر کچھ معروضی حقائق کی بات ضرور ہونی چاہئے۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے دوران خون کا جو دبائو رگوں کی دیواروں پر پڑتا ہے، اسے فشار خون کہا جاتا ہے۔ فشار خون یا بلڈ پریشر کا ایک حد میں رہنا ضروری ہے۔ فشار خون کے حد سے بڑھ جانے کو ہائپرٹینشن (Hypertension) کہا جاتا ہے۔ بلند فشار خون کا اگر علاج نہ کیا جائے تو جسم کے متعدد اہم اعضاء پر اس کا اثر پڑتا ہے جن میں پردہ چشم یا Retina بھی شامل ہے۔
یہ صحیح ہے کہ لہو آنکھ سے تو نہیں ٹپکتا مگر اس کا بڑھتا ہوا دبائو آنکھ کو شدید متاثر کرتا ہے اور بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں انسان نابینا پن کا شکار ہو سکتا ہے۔
بلند فشار خون کا تاریخی پس منظر بہت اہم اور دل چسپ ہے۔ ایک زمانے میں خون کو جسم میں موجود ایک ساکت و جامد مائع سمجھا جاتا تھا۔ یونانی حکماء بھی اسی تصور کے قائل تھے۔ سب سے پہلے مسلمان سائنسدان اور طبیب ابن نفیس نے انکشاف کیا کہ خون رگوں میں رواں دواں رہتا ہے۔
ابن نفیس کا تعلق شام کے شہر دمشق سے تھا جہاں وہ 1213ء میں پیدا ہوا۔ اس کا انتقال مصر کے شہر قاہرہ میں 1288ء میں ہوا۔ دل کے دھڑکنے کے دوران خون کے رگوں میں آنے کا تصور ابن نفیس نے پیش کیا۔ برطانوی طبیب ولیم ہاروے (متوفی1657ئ) نے اس تصور کو مزید تفصیل سے بیان کیا۔ ہوتا اصل میں یوں ہے کہ جب دل سکڑتا ہے تو دل کے بائیں حصے سے رگوں اور نالیوں میں خون کی آمد ہوتی ہے۔
جب دل پھیلتا ہے تو جسم کا استعمال شدہ گندہ خون رگوں کے ذریعے دل کے دائیں حصے میں داخل ہو جاتا ہے۔ استعمال شدہ گندے خون کی صفائی پھیپھڑوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ دل کے سکڑنے اور پھیلنے کا عمل مستقل جاری رہتا ہے اور اسی عمل کو دل کی دھڑکن کا نام دیا جاتا ہے۔ دوران خون کے ذریعے پورے جسم کو توانائی اور آکسیجن فراہم ہوتی ہے اور یہ عمل زندگی کے سفر کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
دل کے سکڑنے کے دوران خون کا جو دبائو نالیوں پر پڑتا ہے، اسے سسٹولک بلڈپریشر (Systolic BP) کہا جاتا ہے، جبکہ دل کے پھیلنے کے دوران نالیوں پر پڑنے والے دبائو کو ڈائیاسٹولک بلڈ پریشر (Diastolic BP) کہتے ہیں۔ خون کا دبائو دن بھر یکساں نہیں رہتا بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور اس کا تعلق ہماری حرکات و سکنات سے ہوتا ہے۔
کمی بیشی کے باوجود خون کا دبائو بحیثیت مجموعی ایک حد میں رہتا ہے البتہ جب خون کا دبائو مستقل طور پر ایک مقررہ حد سے بڑھ جائے تو اس صورتحال کو ہائی بلڈ پریشر یا ہائپرٹینشن (Hypertension) کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا موثر علاج ضروری ہے۔
خون کا دبائو کم ہونے کو Blood Pressure" "Low کہا جاتا ہے اور اسے عمومی طور پر کوئی مرض نہیں سمجھا جاتا، البتہ اسہال، قے اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے فشار خون میں جو کمی واقع ہوتی ہے اس کا تدارک ضروری ہے۔
بلند فشار خون کی بعض اوقات کوئی علامات و شکایات نہیں ہوتیں مگر وہ اندرونی طور پر جسم کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے اور انسان موت کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے اسی لیے اس مرض کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے۔ خون کا دبائو بڑھنے کی شکایات عام طورپر مندرجہ ذیل ہوتی ہیں۔
سر درد، تھکن، دل کی دھڑکن کا بڑھنا، نظروں کا دھندلا پن یا دو چیزیں نظر آنا، غشی طاری ہو جانا، ناک سے خون آنا، سانس لینے میں مشکل ہونا اور متلی و قے آنا۔بلند فشار خون کی دو قسمیں ہیں، پرائمری یا Essentialاور ثانوی یا Secondary۔ پرائمری بلند فشار خون کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی مگر اس کا علاج کامیابی سے ہو جاتا ہے۔
ثانوی بلند فشار خون کسی اور جسمانی عارضے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے اس لیے بلند فشار خون کے ساتھ ساتھ جسمانی عارضے کا علاج کرنا بھی ضروری ہو۔ 90فی صد سے زیادہ لوگ پرائمری بلند فشار خون کا شکار ہوتے ہیں۔
بلند فشار خون کے حوالے سے کچھ عوامل اور محرکات ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں جو فشار خون میں زیادتی کا باعث بنتے ہیں مثلاً تمباکو نوشی، شراب اور دیگر منشیات کا استعمال، وزن کی زیادتی، جسمانی طور پر غیر فعال ہونا، نمک کا زیادہ استعمال اور سن رسیدگی یا عمر کا زیادہ ہونا۔ بلند فشار خون اکثر ایک خاندانی مرض ہوتا ہے اور وراثت میں اولاد کو منتقل ہوتا ہے۔
بلند فشار خون کی پیمائش کے لیے مرکری یا پارے کو پیمانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ناپنے کی اکائی ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل اعداد و شمار بہت اہم اور ہماری توجہ کے متقاضی ہیں۔
مثالی فشار خون: 80/120 ملی میٹر ایچ جی (مرکری) سے کم۔
خیال رہے کہ 120و ہ دبائو ہے جو دل کے سکڑنے کے دوران ہوتا ہے یعنی BP Systolic جبکہ 80کا درجہ اس دبائو کو ظاہر کرتا ہے جو دل کے پھیلنے کے دوران ہوتا ہے یعنی Diastolic BP۔
عمومی فشار خون: 120/80 یا 129/84 ملی میٹر ایچ جی
عمومی سے زیادہ فشار خون: 130/85 یا 139/89 ملی میٹر ایچ جی
بلند فشار خون: 140/90 ملی میٹر ایچ جی کے مساوی یا اس سے زائد
بحرانی بلند فشار خون: 180/120 ملی میٹر ایچ جی کے مساوی یا اس سے زائد
خیال رہے کہ بحرانی بلند فشار خون یا crises Hypertensive کی صورت میں خون کی رگ پھٹ سکتی ہے اور مریض فالج کا شکار ہو سکتا ہے۔ بلند فشار خون کی تشخیص بہت اہم معاملہ ہے اور صحیح تشخیص کے بعد ہی علاج کا مرحلہ آتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مختلف تکالیف جیسے شدید سردرد، گھبراہٹ یا جسم میں درد کی صورت میں خون کا دبائو وقتی طورپر بڑھ سکتا ہے۔
یہ ہمارے جسم کا عمومی ردعمل ہوتا ہے۔ وقتی طور پر بڑھے ہوئے خون کے دبائو کی بنیاد پر مرض کی حتمی تشخیص نہیں ہوتی۔ دو سے چار ہفتوں تک خون کے دبائو کے مسلسل مشاہدے کے بعد یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مریض بلند فشار خون کے عارضے میں مبتلا ہے یا نہیں؟
اس وقت دنیا میں 26 فی صد (تقریباً ایک ارب) افراد بلند فشار خون کے مرض کا شکار ہیں۔ پاکستان کی صورتحال بھی خاصی تشویشناک ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر 18فی صد کے لگ بھگ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں جبکہ 45 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں یہ تعداد 33 فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں 45 سال سے زائد عمر کا ہر تیسرا شخص بلند فشار خون کا مریض ہے۔
بد قسمتی سے آگہی نہ ہونے کی وجہ سے بچاس فی صد افراد میں اس مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی جبکہ تشخیص کے بعد بھی صرف 12.5 فی صد افراد کا باقاعدہ علاج ہوتا ہے۔ پاکستان میں بلند فشار خون کی وجہ سے اموات بھی خاصی بڑھ چکی ہیں۔ وطن عزیز میں ہر سال ایک لاکھ میں سے تقریباً 23 افراد بلند فشار خون کے باعث موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بلند فشار خون کا صحیح علاج نہ ہونے کی صورت میں بہت ساری پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں جو مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہیں مثلاً دل کا دورہ، فالج، گردوں کے نظام میں خرابی، دل کا ناکارہ پن، پردہ چشم میں خرابی، شریانوں کا غیر معمولی پھیلائو، ادراک و شعور کے مسائل اور یادداشت میں شدید کمی وغیرہ۔ بلند فشار خون کی حتمی تشخیص کے بعد علاج کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
اگر خون کا دبائو بہت زیادہ نہیں ہے تو ابتدا میں علاج کے لیے دوائیں استعمال نہیں کی جاتیں بلکہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ پانچ احتیاطی تدابیر ایسی ہیں جن کو اختیار کرنے سے عمومی طور پر پچاس فی صد سے زائد لوگوں کو دوائوں کی حاجت نہیں رہتی۔ یہ پانچ تدابیر درج ذیل ہیں۔
۱۔ صحتمند غذا بطور خاص سبزیوں کا زیادہ استعمال
۲۔ کھانے میں نمک کی مقدار کم کرنا یا بالکل چھوڑ دینا
۳۔ وزن کو کم کرنا
۴۔ ورزش کی عادت کو باقاعدہ طور پر اپنانا
۵۔ تمباکو نوشی اور منشیات سے مکمل اجتناب
یہ پانچوں تدابیر اختیار کرنے کے بعد تین سے چار ماہ تک باقاعدگی سے خون کے دبائو کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اگر پھر بھی صورتحال بہتر نہیں ہوتی تو ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ادویات طویل عرصے تک استعمال کی جاتی ہیں اور خاصے مریضوں کو زندگی بھر ادویات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
اِس بات کا فیصلہ ایک ماہر معالج ہی کر سکتا ہے کہ ادویات جاری رکھنی ہیں یا نہیں۔ خیال رہے کہ ادویات کے استعمال کے دوران بھی مذکورہ بالا احتیاطی تدابیر ترک نہیں کی جاتیں۔ یہ تدابیر ادویات کو کم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور ان کے ذریعے ادویات چھوڑنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سکون قلب کے لیے ہمیں نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔ کھانے پینے اور دیگر معاملات میں میانہ روی اور اعتدال، غصے اور اشتعال سے گریز، آزمائشوں اور تکالیف میں اللہ تعالیٰ سے رجوع، باقاعدگی سے مطالعہ قرآن اور نماز کا اہتمام ، یہ ساری عادات اور رویے ایسے ہیں، جن سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کا داخلی نظام درست ہوتا ہے اور مختلف امراض سے محفوظ رہنے میں مدد ملتی ہے۔
(ڈاکٹر افتخار برنی، ماہر نفسیاتی امراض ہیںاور اسلام آباد میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔)
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
خون کا رگوں میں دوڑنا پھرنا کوئی عجیب بات نہیں ہے اور یہ زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے مگر آنکھ سے لہو کا ٹپکنا ایک شاعرانہ تعلّی ہے اور اس کے ذریعے غالب اپنے درد کی شدت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 17 مئی کو بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈپریشر سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
یہ دن منانے کا مقصد لوگوں کو ہائی بلڈپریشر کے بارے میں درست معلومات کی فراہمی اور اس سے بچائو کے متعلق تدابیر اپنانے میں عوام کی رہنمائی کرنا ہے۔ اس موقع پر کچھ معروضی حقائق کی بات ضرور ہونی چاہئے۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے دوران خون کا جو دبائو رگوں کی دیواروں پر پڑتا ہے، اسے فشار خون کہا جاتا ہے۔ فشار خون یا بلڈ پریشر کا ایک حد میں رہنا ضروری ہے۔ فشار خون کے حد سے بڑھ جانے کو ہائپرٹینشن (Hypertension) کہا جاتا ہے۔ بلند فشار خون کا اگر علاج نہ کیا جائے تو جسم کے متعدد اہم اعضاء پر اس کا اثر پڑتا ہے جن میں پردہ چشم یا Retina بھی شامل ہے۔
یہ صحیح ہے کہ لہو آنکھ سے تو نہیں ٹپکتا مگر اس کا بڑھتا ہوا دبائو آنکھ کو شدید متاثر کرتا ہے اور بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں انسان نابینا پن کا شکار ہو سکتا ہے۔
بلند فشار خون کا تاریخی پس منظر بہت اہم اور دل چسپ ہے۔ ایک زمانے میں خون کو جسم میں موجود ایک ساکت و جامد مائع سمجھا جاتا تھا۔ یونانی حکماء بھی اسی تصور کے قائل تھے۔ سب سے پہلے مسلمان سائنسدان اور طبیب ابن نفیس نے انکشاف کیا کہ خون رگوں میں رواں دواں رہتا ہے۔
ابن نفیس کا تعلق شام کے شہر دمشق سے تھا جہاں وہ 1213ء میں پیدا ہوا۔ اس کا انتقال مصر کے شہر قاہرہ میں 1288ء میں ہوا۔ دل کے دھڑکنے کے دوران خون کے رگوں میں آنے کا تصور ابن نفیس نے پیش کیا۔ برطانوی طبیب ولیم ہاروے (متوفی1657ئ) نے اس تصور کو مزید تفصیل سے بیان کیا۔ ہوتا اصل میں یوں ہے کہ جب دل سکڑتا ہے تو دل کے بائیں حصے سے رگوں اور نالیوں میں خون کی آمد ہوتی ہے۔
جب دل پھیلتا ہے تو جسم کا استعمال شدہ گندہ خون رگوں کے ذریعے دل کے دائیں حصے میں داخل ہو جاتا ہے۔ استعمال شدہ گندے خون کی صفائی پھیپھڑوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ دل کے سکڑنے اور پھیلنے کا عمل مستقل جاری رہتا ہے اور اسی عمل کو دل کی دھڑکن کا نام دیا جاتا ہے۔ دوران خون کے ذریعے پورے جسم کو توانائی اور آکسیجن فراہم ہوتی ہے اور یہ عمل زندگی کے سفر کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
دل کے سکڑنے کے دوران خون کا جو دبائو نالیوں پر پڑتا ہے، اسے سسٹولک بلڈپریشر (Systolic BP) کہا جاتا ہے، جبکہ دل کے پھیلنے کے دوران نالیوں پر پڑنے والے دبائو کو ڈائیاسٹولک بلڈ پریشر (Diastolic BP) کہتے ہیں۔ خون کا دبائو دن بھر یکساں نہیں رہتا بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور اس کا تعلق ہماری حرکات و سکنات سے ہوتا ہے۔
کمی بیشی کے باوجود خون کا دبائو بحیثیت مجموعی ایک حد میں رہتا ہے البتہ جب خون کا دبائو مستقل طور پر ایک مقررہ حد سے بڑھ جائے تو اس صورتحال کو ہائی بلڈ پریشر یا ہائپرٹینشن (Hypertension) کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا موثر علاج ضروری ہے۔
خون کا دبائو کم ہونے کو Blood Pressure" "Low کہا جاتا ہے اور اسے عمومی طور پر کوئی مرض نہیں سمجھا جاتا، البتہ اسہال، قے اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے فشار خون میں جو کمی واقع ہوتی ہے اس کا تدارک ضروری ہے۔
بلند فشار خون کی بعض اوقات کوئی علامات و شکایات نہیں ہوتیں مگر وہ اندرونی طور پر جسم کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے اور انسان موت کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے اسی لیے اس مرض کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے۔ خون کا دبائو بڑھنے کی شکایات عام طورپر مندرجہ ذیل ہوتی ہیں۔
سر درد، تھکن، دل کی دھڑکن کا بڑھنا، نظروں کا دھندلا پن یا دو چیزیں نظر آنا، غشی طاری ہو جانا، ناک سے خون آنا، سانس لینے میں مشکل ہونا اور متلی و قے آنا۔بلند فشار خون کی دو قسمیں ہیں، پرائمری یا Essentialاور ثانوی یا Secondary۔ پرائمری بلند فشار خون کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی مگر اس کا علاج کامیابی سے ہو جاتا ہے۔
ثانوی بلند فشار خون کسی اور جسمانی عارضے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے اس لیے بلند فشار خون کے ساتھ ساتھ جسمانی عارضے کا علاج کرنا بھی ضروری ہو۔ 90فی صد سے زیادہ لوگ پرائمری بلند فشار خون کا شکار ہوتے ہیں۔
بلند فشار خون کے حوالے سے کچھ عوامل اور محرکات ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں جو فشار خون میں زیادتی کا باعث بنتے ہیں مثلاً تمباکو نوشی، شراب اور دیگر منشیات کا استعمال، وزن کی زیادتی، جسمانی طور پر غیر فعال ہونا، نمک کا زیادہ استعمال اور سن رسیدگی یا عمر کا زیادہ ہونا۔ بلند فشار خون اکثر ایک خاندانی مرض ہوتا ہے اور وراثت میں اولاد کو منتقل ہوتا ہے۔
بلند فشار خون کی پیمائش کے لیے مرکری یا پارے کو پیمانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ناپنے کی اکائی ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل اعداد و شمار بہت اہم اور ہماری توجہ کے متقاضی ہیں۔
مثالی فشار خون: 80/120 ملی میٹر ایچ جی (مرکری) سے کم۔
خیال رہے کہ 120و ہ دبائو ہے جو دل کے سکڑنے کے دوران ہوتا ہے یعنی BP Systolic جبکہ 80کا درجہ اس دبائو کو ظاہر کرتا ہے جو دل کے پھیلنے کے دوران ہوتا ہے یعنی Diastolic BP۔
عمومی فشار خون: 120/80 یا 129/84 ملی میٹر ایچ جی
عمومی سے زیادہ فشار خون: 130/85 یا 139/89 ملی میٹر ایچ جی
بلند فشار خون: 140/90 ملی میٹر ایچ جی کے مساوی یا اس سے زائد
بحرانی بلند فشار خون: 180/120 ملی میٹر ایچ جی کے مساوی یا اس سے زائد
خیال رہے کہ بحرانی بلند فشار خون یا crises Hypertensive کی صورت میں خون کی رگ پھٹ سکتی ہے اور مریض فالج کا شکار ہو سکتا ہے۔ بلند فشار خون کی تشخیص بہت اہم معاملہ ہے اور صحیح تشخیص کے بعد ہی علاج کا مرحلہ آتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مختلف تکالیف جیسے شدید سردرد، گھبراہٹ یا جسم میں درد کی صورت میں خون کا دبائو وقتی طورپر بڑھ سکتا ہے۔
یہ ہمارے جسم کا عمومی ردعمل ہوتا ہے۔ وقتی طور پر بڑھے ہوئے خون کے دبائو کی بنیاد پر مرض کی حتمی تشخیص نہیں ہوتی۔ دو سے چار ہفتوں تک خون کے دبائو کے مسلسل مشاہدے کے بعد یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مریض بلند فشار خون کے عارضے میں مبتلا ہے یا نہیں؟
اس وقت دنیا میں 26 فی صد (تقریباً ایک ارب) افراد بلند فشار خون کے مرض کا شکار ہیں۔ پاکستان کی صورتحال بھی خاصی تشویشناک ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر 18فی صد کے لگ بھگ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں جبکہ 45 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں یہ تعداد 33 فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں 45 سال سے زائد عمر کا ہر تیسرا شخص بلند فشار خون کا مریض ہے۔
بد قسمتی سے آگہی نہ ہونے کی وجہ سے بچاس فی صد افراد میں اس مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی جبکہ تشخیص کے بعد بھی صرف 12.5 فی صد افراد کا باقاعدہ علاج ہوتا ہے۔ پاکستان میں بلند فشار خون کی وجہ سے اموات بھی خاصی بڑھ چکی ہیں۔ وطن عزیز میں ہر سال ایک لاکھ میں سے تقریباً 23 افراد بلند فشار خون کے باعث موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بلند فشار خون کا صحیح علاج نہ ہونے کی صورت میں بہت ساری پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں جو مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہیں مثلاً دل کا دورہ، فالج، گردوں کے نظام میں خرابی، دل کا ناکارہ پن، پردہ چشم میں خرابی، شریانوں کا غیر معمولی پھیلائو، ادراک و شعور کے مسائل اور یادداشت میں شدید کمی وغیرہ۔ بلند فشار خون کی حتمی تشخیص کے بعد علاج کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
اگر خون کا دبائو بہت زیادہ نہیں ہے تو ابتدا میں علاج کے لیے دوائیں استعمال نہیں کی جاتیں بلکہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ پانچ احتیاطی تدابیر ایسی ہیں جن کو اختیار کرنے سے عمومی طور پر پچاس فی صد سے زائد لوگوں کو دوائوں کی حاجت نہیں رہتی۔ یہ پانچ تدابیر درج ذیل ہیں۔
۱۔ صحتمند غذا بطور خاص سبزیوں کا زیادہ استعمال
۲۔ کھانے میں نمک کی مقدار کم کرنا یا بالکل چھوڑ دینا
۳۔ وزن کو کم کرنا
۴۔ ورزش کی عادت کو باقاعدہ طور پر اپنانا
۵۔ تمباکو نوشی اور منشیات سے مکمل اجتناب
یہ پانچوں تدابیر اختیار کرنے کے بعد تین سے چار ماہ تک باقاعدگی سے خون کے دبائو کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اگر پھر بھی صورتحال بہتر نہیں ہوتی تو ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ادویات طویل عرصے تک استعمال کی جاتی ہیں اور خاصے مریضوں کو زندگی بھر ادویات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
اِس بات کا فیصلہ ایک ماہر معالج ہی کر سکتا ہے کہ ادویات جاری رکھنی ہیں یا نہیں۔ خیال رہے کہ ادویات کے استعمال کے دوران بھی مذکورہ بالا احتیاطی تدابیر ترک نہیں کی جاتیں۔ یہ تدابیر ادویات کو کم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور ان کے ذریعے ادویات چھوڑنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سکون قلب کے لیے ہمیں نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔ کھانے پینے اور دیگر معاملات میں میانہ روی اور اعتدال، غصے اور اشتعال سے گریز، آزمائشوں اور تکالیف میں اللہ تعالیٰ سے رجوع، باقاعدگی سے مطالعہ قرآن اور نماز کا اہتمام ، یہ ساری عادات اور رویے ایسے ہیں، جن سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کا داخلی نظام درست ہوتا ہے اور مختلف امراض سے محفوظ رہنے میں مدد ملتی ہے۔
(ڈاکٹر افتخار برنی، ماہر نفسیاتی امراض ہیںاور اسلام آباد میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔)