امریکی مفادات کا محافظ
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس غلطی کا احساس ادارہ جاتی سطح پر ہونے کے بعد سجدہ سہو کر لیا گیا
کیا پاکستان میں قانون اور آئین باہم ٹکرا چکے ہیں یا اس بریک ڈاؤن کا سبب کچھ اور بھی ہے؟
سوال ایک ہے اور مفروضے بے شمار لیکن سچ یہ ہے کہ نہ بات سمجھ میں آ رہی ہے اور نہ جھگڑا ختم ہونے میں آ رہا ہے۔ اس اندھیرے میں روشنی کہاں سے ملے؟ ہمارے دائیں بائیں دکھائی دینے والے سب کردار تو الجھے ہوئے ہیں اور اس قدر مصروف ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ خود ہی سے بے خبر ہیں۔ پھر یہ الجھن کیسے سلجھے؟ بزرگ کہتے ہیں کہ جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے اور کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو ٹھہر جائیے اور لحظہ سانس لے کر بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
چند ہفتے قبل مشرق وسطی میں چین کے تعلق سے جو ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی، اس میں ہمارے لیے اطمینان کے بہت سے پہلو تھے۔ ہمارے پہلو میں موجود ایران اور عزیز از جان سعودی عرب کے درمیان دہائیوں پرانے اختلافات ختم ہو جائیں اور وہ باہم شیر و شکر دکھائی دیں تو پاکستان سے زیادہ خوش اور کون ہو گا لیکن کیا پڑوس سے آنے والے ٹھنڈی ہوا کے اس جھونکے میں ہی ہمارے لیے کچھ چنگاری پوشیدہ ہے؟ یہ سوال اتنا سیدھا نہیں۔
چین کے تعاون کے ساتھ ایران سعودی دوستی دو طرح کے پہلو رکھتی ہے۔ اول، خطے میں ترقی اور خوش حالی کی نوید اور دوم، ایک عالمی کشمکش کے اثرات جس کے تحت ہماری داخلی سیاست تہہ و بالا ہو جائے جس کے اثرات ہمارے سامنے ہیں۔
سعودی چین دوستی اور اس میں چین کے کردار کا عمومی طور پر خیر مقدم کیا گیا۔ ایسا ہونا ہی چاہیے تھا کیوں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ باہم دست و گریباں دنیا میں دانش مندی جگہ پا رہی ہے اور ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کر کے آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سعودی ایران تعلقات کی بحالی اور اس میں چین کا کردار سامنے آیا تو اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ دنیا سرد جنگ کے زمانے سے نکل آئی ہے اور اب ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ نیا دور کیسا ہو گا اور کیا نتائج لائے گا؟ اسے سمجھنے کے لیے ذہن میں پہلے سے موجود تصورات ایک کچھ دیر کے لیے محو کر کے نئے حالات کو سمجھنا چاہیے۔
موجودہ قومی اور علاقائی صورت حال میں عمران خان واحد سیاسی شخصیت ہیں جو یہاں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ 2018 میں بھی انھوں نے یہی خدمت انجام دی، اب بھی وہ یہی کام کر رہے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں ریاستی قوتیں ان کی پشت پر کھڑی ہوئی تھیں۔ ان سے یہ غلطی سرزد ہوئی لیکن بعد میں انھوں نے اسے تسلیم کیا۔
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس غلطی کا احساس ادارہ جاتی سطح پر ہونے کے بعد سجدہ سہو کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود بعض ایکٹر اپنے مفادات یا کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے نظریات پر راسخ ہیں اور پرانی دھڑے بندی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے ملک آئینی بریک ڈان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس بحران کاواحد حل یہ ہے کہ تمام فریق فروعی مطالبات اور بے جا ضد ختم کر کے آئین کے سامنے سر جھکا دیں۔ ایسا نہیں ہو گا تو پارلیمان عوامی قوت کے بل بوتے پر قومی مفادات کا تحفظ کرے گی اور باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔
سوال ایک ہے اور مفروضے بے شمار لیکن سچ یہ ہے کہ نہ بات سمجھ میں آ رہی ہے اور نہ جھگڑا ختم ہونے میں آ رہا ہے۔ اس اندھیرے میں روشنی کہاں سے ملے؟ ہمارے دائیں بائیں دکھائی دینے والے سب کردار تو الجھے ہوئے ہیں اور اس قدر مصروف ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ خود ہی سے بے خبر ہیں۔ پھر یہ الجھن کیسے سلجھے؟ بزرگ کہتے ہیں کہ جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے اور کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو ٹھہر جائیے اور لحظہ سانس لے کر بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
چند ہفتے قبل مشرق وسطی میں چین کے تعلق سے جو ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی، اس میں ہمارے لیے اطمینان کے بہت سے پہلو تھے۔ ہمارے پہلو میں موجود ایران اور عزیز از جان سعودی عرب کے درمیان دہائیوں پرانے اختلافات ختم ہو جائیں اور وہ باہم شیر و شکر دکھائی دیں تو پاکستان سے زیادہ خوش اور کون ہو گا لیکن کیا پڑوس سے آنے والے ٹھنڈی ہوا کے اس جھونکے میں ہی ہمارے لیے کچھ چنگاری پوشیدہ ہے؟ یہ سوال اتنا سیدھا نہیں۔
چین کے تعاون کے ساتھ ایران سعودی دوستی دو طرح کے پہلو رکھتی ہے۔ اول، خطے میں ترقی اور خوش حالی کی نوید اور دوم، ایک عالمی کشمکش کے اثرات جس کے تحت ہماری داخلی سیاست تہہ و بالا ہو جائے جس کے اثرات ہمارے سامنے ہیں۔
سعودی چین دوستی اور اس میں چین کے کردار کا عمومی طور پر خیر مقدم کیا گیا۔ ایسا ہونا ہی چاہیے تھا کیوں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ باہم دست و گریباں دنیا میں دانش مندی جگہ پا رہی ہے اور ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کر کے آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سعودی ایران تعلقات کی بحالی اور اس میں چین کا کردار سامنے آیا تو اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ دنیا سرد جنگ کے زمانے سے نکل آئی ہے اور اب ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ نیا دور کیسا ہو گا اور کیا نتائج لائے گا؟ اسے سمجھنے کے لیے ذہن میں پہلے سے موجود تصورات ایک کچھ دیر کے لیے محو کر کے نئے حالات کو سمجھنا چاہیے۔
موجودہ قومی اور علاقائی صورت حال میں عمران خان واحد سیاسی شخصیت ہیں جو یہاں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ 2018 میں بھی انھوں نے یہی خدمت انجام دی، اب بھی وہ یہی کام کر رہے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں ریاستی قوتیں ان کی پشت پر کھڑی ہوئی تھیں۔ ان سے یہ غلطی سرزد ہوئی لیکن بعد میں انھوں نے اسے تسلیم کیا۔
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس غلطی کا احساس ادارہ جاتی سطح پر ہونے کے بعد سجدہ سہو کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود بعض ایکٹر اپنے مفادات یا کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے نظریات پر راسخ ہیں اور پرانی دھڑے بندی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے ملک آئینی بریک ڈان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس بحران کاواحد حل یہ ہے کہ تمام فریق فروعی مطالبات اور بے جا ضد ختم کر کے آئین کے سامنے سر جھکا دیں۔ ایسا نہیں ہو گا تو پارلیمان عوامی قوت کے بل بوتے پر قومی مفادات کا تحفظ کرے گی اور باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔