اقتصادی راہداری کا معیشت کی بحالی میں کردار
بلاشبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ معاشی خوشحالی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا
چین کی قومی کمیٹی برائے ترقی واصلاحات کے ترجمان مینگ وی نے کہا ہے کہ اس سال چین پاکستان اقتصادی راہداری کے آغاز کی دسویں سالگرہ ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین اور پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر اور گوادر پورٹ ، توانائی ڈھانچے کی تعمیر اور صنعتی تعاون پرتوجہ مرکرتے ہوئے ون پلس فور تعاون کا خاکہ تشکیل دیا ہے اور مثبت نتائج حاصل کیے ہیں۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق سال دوہزار بائیس کے اختتام تک چین پاکستان اقتصادی راہداری سے براہ راست دو لاکھ چھتیس ہزار ملازمین پیدا ہوئی ہیں اور پاکستانی ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 55ہزار تک پہنچ چکی ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری تعاون کو مسلسل فروغ دیں گے اور بیلٹ اینڈ روڈ کی اعلیٰ معیار کی ترقی کے لیے ایک نمایندہ منصوبہ تعمیر کریں گے ۔
درحقیقت چین ،پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے ''سی پیک'' کی اہمیت اب دو ہمسایہ ملکوں کی سرحدوں سے نکل کر ہزاروں میل دور یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک تک نمایاں ہو چکی ہے اور متعدد ملکوں کے حکمران اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش اور دلچسپی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس منصوبے کی افادیت بڑھتی جا رہی ہے جس کے اثرات اس منصوبے میں شامل ممالک کے ساتھ ساتھ منصوبے سے باہر ملکوں پر بھی پڑیں گے۔
منصوبے کے حوالے سے نمایاں اور مرکزی کردار پاکستان کا ہوگا کیونکہ سی پیک کا داخلی دروازہ ''درہ خنجراب'' اور خارجی دروازہ ''گوادر'' دونوں پاکستان میں ہیں۔ اس لیے اس منصوبے کی کامیابی کا دارومدار اور انحصار پاکستان پر ہوگا اور چونکہ دنیا کی معیشت، تجارت اور حتیٰ کہ بین الاقوامی سیاست پر اثر انداز ہونے والے اس میگا پروجیکٹ میں پاکستان کو قائدانہ کردار ملنے جا رہا ہے۔
کیا پاکستان منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مطلوبہ انتظامات اور اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو سکے گا؟ کیا منصوبے کے اثرات اور ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے بہتر پالیسی اور موثر حکمت عملی بنائی گئی ہے؟ کیا سی پیک سے واقعی پاکستان کے تمام علاقوں میں یکساں ترقی ہوگی؟
ان سوالات کا جواب اس وقت صرف دعوؤں یا اعلانات میں تلاش کرنا بے سود ہو گا اور جب اس منصوبے پر پوری طرح عملدرآمد اور تجارتی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا تب ساری صورتحال واضح ہوجائے گی۔
پاکستان اور چین کی حکومتوں کے مابین متعدد اجلاسوں اور طویل غور و خوض کے بعد جب دنیا کی تاریخ کے اس سب سے بڑے بین البراعظمی منصوبے کا باضابطہ اعلان ہوا تو پاکستان کا روایتی دشمن بھارت بلبلہ اٹھا۔ دبے الفاظ میں امریکا نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی۔ مگر پوری دنیا میں اس منصوبے کی بڑھتی ہوئی افادیت اور مقبولیت نے بھارت کے منفی تاثرات اور بے جا اعتراضات کو زائل کردیا۔
لہٰذا بین الاقوامی سطح پر تو منصوبے کی راہ میں کوئی رکاوٹ فی الحال نظر نہیں آتی۔ البتہ پاکستان کے اندر بعض حلقوں اور علاقوں کی طرف سے سی پیک کے روٹ اور اس میں شامل منصوبوں سے متعلق کچھ شکایات اور تحفظات ضرور ہیں۔
ہماری ان سطور کے ذریعے گزارش ہے کہ اگر سی پیک سے ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں ''یکساں ترقی'' اور معاشی خوشحالی کے وعدے اور دعوے کو سچ ثابت کرنا ہے تو پھر سب سے پہلا حق گلگت بلتستان کا ہے جہاں پہلے پاکستان اور چین کو حقیقی طور پر ہمسائیگی کے رشتے میں منسلک کرنے اور دونوں ملکوں کی لازوال اور بے مثال دوستی کو دوام اور استحکام بخشنے والی عظیم شاہراہ قراقرم تعمیر ہوئی۔
جسے دنیا کے آٹھویں عجوبے کا نام بھی دیا گیا۔ اور اب جب کہ دنیا کے ''نواں عجوبہ، سی پیک'' نے بھی گلگت بلتستان ہی میں جنم لیا ہے، اس لیے گلگت بلتستان کے عوام کو اس عظیم منصوبے کے ثمرات سے مستفید اور فیضیاب ہونے کے لیے لازمی طور پر مواقع اور سہولتیں مہیا کی جائیں۔
جس کے نتیجے میں نہ صرف گلگت بلتستان میں مثالی ترقی اور حقیقی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا بلکہ1947میں ڈوگرہ استبداد سے آزادی حاصل کر کے پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے سے لے کر اب تک آئینی حیثیت کا تعین نہ ہونے کے باعث پائی جانے والی احساس محرومی کا بھی کافی حد تک ازالہ ہو جائے گا۔
یہاں اس حقیقت کا ذکر بھی ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور بھارت کی مذموم سازشوں اور مکروہ پروپیگنڈوں کے باوجود گلگت بلتستان کے لوگوں کا اپنے ملک پاکستان کے ساتھ وفاداری اور جان نثاری میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ گلگت بلتستان کا بچہ بچہ پاکستان کا سپاہی ہے۔
پاکستان کے ارباب اختیار کو یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ بھارت کو سی پیک کبھی بھی ہضم نہیں ہوگا۔پاکستان میں اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک ) سے روزگار کے مزید لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے اور منصوبہ کی تکمیل سے غربت کی شرح میں نمایاں کمی لائی جا سکے گی۔سی پیک کے تحت تعمیر کی جانے والی ملتان سکھر موٹروے سے 23ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
سی پیک منصوبہ تکمیل کے بعد اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث یورپ اورایشیائی ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرے گا جس سے خطے کی تجارت اوراقتصادی و سماجی روابط کے اضافہ میں مدد ملے گی۔ پاکستان میں اقتصادی و صنعتی ترقی کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت مشترکہ حکمت عملی سے ہنر مند افرادی قوت کی دستیابی اور دونوں ممالک کی کاروباری برادری کے باہمی روابط کو بھی فروغ دیا جارہا ہے۔پشاور کراچی موٹروے کا ملتان سکھر سیکشن مکمل ہوچکاہے اور ٹریفک کے لیے کھلا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبہ کے تحت تعمیر کی جانے والی پشاور کراچی موٹروے حیدرآباد، سکھر، ملتان، لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں سے ہوتی ہوئی پشاور پہنچتی ہے۔گوادر پورٹ اب آپریشنل ہو چکا ہے۔ ایسٹ بے ایکسپرس وے مکمل ہو چکی ہے ،یہ گوادر کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ملاتی ہے۔
حکام نے بتایا کہ سی پیک کے تحت پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ ہکلہ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک پاکستان چین اقتصادی راہداری کے سلسلے میں زیر تعمیر موٹروے کے اہم حصے پر تعمیراتی کام حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
سی پیک پراجیکٹس پر تیزی سے عمل درآمد کے ساتھ ، صورتحال میں بہتری آ ئے گی اور سستی اشیا اور روزگار کی فراہمی کے لحاظ سے عوام کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی رونما ہو گی۔ .
بلاشبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)منصوبہ معاشی خوشحالی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا جس سے ملک میں وسیع پیمانے پر معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ چین کی حکومت کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے باعث پاکستان علاقائی اقتصادی سرگرمیوں میں اہم فریق بن گیا ہے۔
منصوبے سے تجارت کے ذریعے اربوں ڈالر کی آمدن ہوگی اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، پاور جنریشن، ٹرانسپورٹیشن، ریلویز، زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی اور سیاحت کے شعبوں میں ہزاروں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ سی پیک کے اہم منصوبوں میں پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبے کے ذریعے ملک بھر میں زیرتعمیر خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی دوسرے ممالک نے بھی اس میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
جن کی شمولیت سے معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی۔چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت خصوصی اقتصادی زونز پر تعمیری کام زور و شور سے جاری ہے۔یہ خصوصی اقتصادی زون پورے ملک میں بنائے جا رہے ہیں۔ ان زونز کا بنیادی مقصد چینی صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ہے۔ دونوں ممالک پہلے ہی میگا پراجیکٹ میں تیسری پارٹی کو شرکت کی پیش کش کر چکے ہیں۔
سعودی عرب ، قطر ، ایران ، مشرق وسطٰی کے ممالک اور کچھ یورپی ممالک پہلے ہی صنعتی زونز میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہارکر چکے ہیں۔سی پیک میں تیسری پارٹی کی شمولیت سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا کیونکہ اس سے غیر ملکی کمپنیوں کو حکومت پاکستان کی پیش کردہ منافع بخش سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد ملے گی جب کہ پاکستان کو عالمی منڈی میں اپنی برآمدات کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔
چینی حکام نے سی پیک اور خصوصی اقتصادی زونز میں وسیع تر شرکت کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری (منصوبہ)کے تحت رواں سال پاک چین شراکت داری کومزید دوام ملے گا اور دوطرفہ تعاون کے سنگ میل طے ہوں گے، دوسرا مرحلہ عوامی فلاح و بہبود سے تعلق رکھتا ہے جس میں درجنوں منصوبوں پر کام جاری ہے۔ اگلے مرحلہ میں چار اہم شعبوں میں پیشرفت کی جائے گی جن میں پہلا شعبہ صنعت سے تعلق رکھتا ہے جب کہ دیگر شعبوں میں زراعت، سماجی اور معاشی شعبہ کی ترقی اور گوادر نیو سٹی شامل ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاک،چین اسٹریٹجک شراکت داری دن بہ دن مضبوطی کی راہ پر گامزن ہے اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ شراکت داری عالمی سطح پر اور خطے میں نہایت اہمیت کی حامل ہے جب کہ یہ مستقبل میں مزید مستحکم ہو جائے گی۔قومی امید ہے کہ پاکستان چین اور دوست ممالک کے تعاون معاشی بحران سے جلد نکل آئے گا اور ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین اور پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر اور گوادر پورٹ ، توانائی ڈھانچے کی تعمیر اور صنعتی تعاون پرتوجہ مرکرتے ہوئے ون پلس فور تعاون کا خاکہ تشکیل دیا ہے اور مثبت نتائج حاصل کیے ہیں۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق سال دوہزار بائیس کے اختتام تک چین پاکستان اقتصادی راہداری سے براہ راست دو لاکھ چھتیس ہزار ملازمین پیدا ہوئی ہیں اور پاکستانی ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 55ہزار تک پہنچ چکی ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری تعاون کو مسلسل فروغ دیں گے اور بیلٹ اینڈ روڈ کی اعلیٰ معیار کی ترقی کے لیے ایک نمایندہ منصوبہ تعمیر کریں گے ۔
درحقیقت چین ،پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے ''سی پیک'' کی اہمیت اب دو ہمسایہ ملکوں کی سرحدوں سے نکل کر ہزاروں میل دور یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک تک نمایاں ہو چکی ہے اور متعدد ملکوں کے حکمران اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش اور دلچسپی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس منصوبے کی افادیت بڑھتی جا رہی ہے جس کے اثرات اس منصوبے میں شامل ممالک کے ساتھ ساتھ منصوبے سے باہر ملکوں پر بھی پڑیں گے۔
منصوبے کے حوالے سے نمایاں اور مرکزی کردار پاکستان کا ہوگا کیونکہ سی پیک کا داخلی دروازہ ''درہ خنجراب'' اور خارجی دروازہ ''گوادر'' دونوں پاکستان میں ہیں۔ اس لیے اس منصوبے کی کامیابی کا دارومدار اور انحصار پاکستان پر ہوگا اور چونکہ دنیا کی معیشت، تجارت اور حتیٰ کہ بین الاقوامی سیاست پر اثر انداز ہونے والے اس میگا پروجیکٹ میں پاکستان کو قائدانہ کردار ملنے جا رہا ہے۔
کیا پاکستان منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مطلوبہ انتظامات اور اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو سکے گا؟ کیا منصوبے کے اثرات اور ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے بہتر پالیسی اور موثر حکمت عملی بنائی گئی ہے؟ کیا سی پیک سے واقعی پاکستان کے تمام علاقوں میں یکساں ترقی ہوگی؟
ان سوالات کا جواب اس وقت صرف دعوؤں یا اعلانات میں تلاش کرنا بے سود ہو گا اور جب اس منصوبے پر پوری طرح عملدرآمد اور تجارتی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا تب ساری صورتحال واضح ہوجائے گی۔
پاکستان اور چین کی حکومتوں کے مابین متعدد اجلاسوں اور طویل غور و خوض کے بعد جب دنیا کی تاریخ کے اس سب سے بڑے بین البراعظمی منصوبے کا باضابطہ اعلان ہوا تو پاکستان کا روایتی دشمن بھارت بلبلہ اٹھا۔ دبے الفاظ میں امریکا نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی۔ مگر پوری دنیا میں اس منصوبے کی بڑھتی ہوئی افادیت اور مقبولیت نے بھارت کے منفی تاثرات اور بے جا اعتراضات کو زائل کردیا۔
لہٰذا بین الاقوامی سطح پر تو منصوبے کی راہ میں کوئی رکاوٹ فی الحال نظر نہیں آتی۔ البتہ پاکستان کے اندر بعض حلقوں اور علاقوں کی طرف سے سی پیک کے روٹ اور اس میں شامل منصوبوں سے متعلق کچھ شکایات اور تحفظات ضرور ہیں۔
ہماری ان سطور کے ذریعے گزارش ہے کہ اگر سی پیک سے ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں ''یکساں ترقی'' اور معاشی خوشحالی کے وعدے اور دعوے کو سچ ثابت کرنا ہے تو پھر سب سے پہلا حق گلگت بلتستان کا ہے جہاں پہلے پاکستان اور چین کو حقیقی طور پر ہمسائیگی کے رشتے میں منسلک کرنے اور دونوں ملکوں کی لازوال اور بے مثال دوستی کو دوام اور استحکام بخشنے والی عظیم شاہراہ قراقرم تعمیر ہوئی۔
جسے دنیا کے آٹھویں عجوبے کا نام بھی دیا گیا۔ اور اب جب کہ دنیا کے ''نواں عجوبہ، سی پیک'' نے بھی گلگت بلتستان ہی میں جنم لیا ہے، اس لیے گلگت بلتستان کے عوام کو اس عظیم منصوبے کے ثمرات سے مستفید اور فیضیاب ہونے کے لیے لازمی طور پر مواقع اور سہولتیں مہیا کی جائیں۔
جس کے نتیجے میں نہ صرف گلگت بلتستان میں مثالی ترقی اور حقیقی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا بلکہ1947میں ڈوگرہ استبداد سے آزادی حاصل کر کے پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے سے لے کر اب تک آئینی حیثیت کا تعین نہ ہونے کے باعث پائی جانے والی احساس محرومی کا بھی کافی حد تک ازالہ ہو جائے گا۔
یہاں اس حقیقت کا ذکر بھی ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور بھارت کی مذموم سازشوں اور مکروہ پروپیگنڈوں کے باوجود گلگت بلتستان کے لوگوں کا اپنے ملک پاکستان کے ساتھ وفاداری اور جان نثاری میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ گلگت بلتستان کا بچہ بچہ پاکستان کا سپاہی ہے۔
پاکستان کے ارباب اختیار کو یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ بھارت کو سی پیک کبھی بھی ہضم نہیں ہوگا۔پاکستان میں اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک ) سے روزگار کے مزید لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے اور منصوبہ کی تکمیل سے غربت کی شرح میں نمایاں کمی لائی جا سکے گی۔سی پیک کے تحت تعمیر کی جانے والی ملتان سکھر موٹروے سے 23ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
سی پیک منصوبہ تکمیل کے بعد اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث یورپ اورایشیائی ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرے گا جس سے خطے کی تجارت اوراقتصادی و سماجی روابط کے اضافہ میں مدد ملے گی۔ پاکستان میں اقتصادی و صنعتی ترقی کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت مشترکہ حکمت عملی سے ہنر مند افرادی قوت کی دستیابی اور دونوں ممالک کی کاروباری برادری کے باہمی روابط کو بھی فروغ دیا جارہا ہے۔پشاور کراچی موٹروے کا ملتان سکھر سیکشن مکمل ہوچکاہے اور ٹریفک کے لیے کھلا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبہ کے تحت تعمیر کی جانے والی پشاور کراچی موٹروے حیدرآباد، سکھر، ملتان، لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں سے ہوتی ہوئی پشاور پہنچتی ہے۔گوادر پورٹ اب آپریشنل ہو چکا ہے۔ ایسٹ بے ایکسپرس وے مکمل ہو چکی ہے ،یہ گوادر کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ملاتی ہے۔
حکام نے بتایا کہ سی پیک کے تحت پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ ہکلہ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک پاکستان چین اقتصادی راہداری کے سلسلے میں زیر تعمیر موٹروے کے اہم حصے پر تعمیراتی کام حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
سی پیک پراجیکٹس پر تیزی سے عمل درآمد کے ساتھ ، صورتحال میں بہتری آ ئے گی اور سستی اشیا اور روزگار کی فراہمی کے لحاظ سے عوام کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی رونما ہو گی۔ .
بلاشبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)منصوبہ معاشی خوشحالی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا جس سے ملک میں وسیع پیمانے پر معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ چین کی حکومت کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے باعث پاکستان علاقائی اقتصادی سرگرمیوں میں اہم فریق بن گیا ہے۔
منصوبے سے تجارت کے ذریعے اربوں ڈالر کی آمدن ہوگی اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، پاور جنریشن، ٹرانسپورٹیشن، ریلویز، زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی اور سیاحت کے شعبوں میں ہزاروں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ سی پیک کے اہم منصوبوں میں پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبے کے ذریعے ملک بھر میں زیرتعمیر خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی دوسرے ممالک نے بھی اس میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
جن کی شمولیت سے معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی۔چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت خصوصی اقتصادی زونز پر تعمیری کام زور و شور سے جاری ہے۔یہ خصوصی اقتصادی زون پورے ملک میں بنائے جا رہے ہیں۔ ان زونز کا بنیادی مقصد چینی صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ہے۔ دونوں ممالک پہلے ہی میگا پراجیکٹ میں تیسری پارٹی کو شرکت کی پیش کش کر چکے ہیں۔
سعودی عرب ، قطر ، ایران ، مشرق وسطٰی کے ممالک اور کچھ یورپی ممالک پہلے ہی صنعتی زونز میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہارکر چکے ہیں۔سی پیک میں تیسری پارٹی کی شمولیت سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا کیونکہ اس سے غیر ملکی کمپنیوں کو حکومت پاکستان کی پیش کردہ منافع بخش سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد ملے گی جب کہ پاکستان کو عالمی منڈی میں اپنی برآمدات کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔
چینی حکام نے سی پیک اور خصوصی اقتصادی زونز میں وسیع تر شرکت کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری (منصوبہ)کے تحت رواں سال پاک چین شراکت داری کومزید دوام ملے گا اور دوطرفہ تعاون کے سنگ میل طے ہوں گے، دوسرا مرحلہ عوامی فلاح و بہبود سے تعلق رکھتا ہے جس میں درجنوں منصوبوں پر کام جاری ہے۔ اگلے مرحلہ میں چار اہم شعبوں میں پیشرفت کی جائے گی جن میں پہلا شعبہ صنعت سے تعلق رکھتا ہے جب کہ دیگر شعبوں میں زراعت، سماجی اور معاشی شعبہ کی ترقی اور گوادر نیو سٹی شامل ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاک،چین اسٹریٹجک شراکت داری دن بہ دن مضبوطی کی راہ پر گامزن ہے اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ شراکت داری عالمی سطح پر اور خطے میں نہایت اہمیت کی حامل ہے جب کہ یہ مستقبل میں مزید مستحکم ہو جائے گی۔قومی امید ہے کہ پاکستان چین اور دوست ممالک کے تعاون معاشی بحران سے جلد نکل آئے گا اور ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔