کیا جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ممکن ہے

بھارت منفی رویہ ہے جو اس نے اپنے تمام ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ اپنایا ہوا ہے

jabbar01@gmail.com

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ انسان نے اپنی سماجی زندگی کا آغاز خاندان کی شکل میں کیا، وہ پانی کے ذخیروں اور خاص طور پر دریاؤں کے کنارے زرخیز علاقوں میں رفتہ رفتہ آباد ہوتا گیا، خاندانوں نے مل کر قبائل کی بنیاد رکھی اور قبیلوں نے مل کر طاقتور قبائل اور خاندانی موروثیت کی بنیاد پر بادشاہت کی بنیاد ڈالی اور ایک طویل عرصے تک ان بادشاہتوں کا وجود رہا۔

سلطنتوں کے توسیع پسندانہ عزائم بادشاہوں کے درمیان تنازعات اور جنگوں کے واقعات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں سلطنتوں کا خاتمہ ہوا۔ سلطنتوں کے خاتمے کے نتیجے میں شہری ریاستوں نے جنم لیا۔

روم میں ایک چھوٹی سی شہری ریاست تھی جو اس وقت اٹلی کا ایک شہر ہے۔ ماضی قدیم میں رومیوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی، سائنسی ایجادات اور منظم فوجی طاقت کی بنیاد پر ریاست کی توسیع پر خاص توجہ دی۔ انھوں نے اپنے قرب و جوار کی ریاستوں کے ساتھ دیگر براعظموں کی ریاستوں کو بھی اپنی سلطنت میں داخل کرلیا۔

ان کی دیکھا دیکھی یورپ کی دیگر ریاستوں برطانیہ ، فرانس، اسپین، پرتگال کو بھی یہ احساس پیدا ہوا کہ اپنی دولت اور قوت کو بڑھانے کے لیے دور دراز علاقوں پر قبضہ کیا جائے۔ اس نئے نظام کو نوآبادیات (کالونی ازم) کا نام دیا گیا جس کا مقصد غریب اور پس ماندہ ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کر کے ان پر اپنی سیاسی بالادستی کو قائم کرنا تھا اور اس طرح سامراجی ممالک نے اس عمل کو عالمی تجارت اور ان نوآبادیات کو تہذیب یافتہ بنانے کا نام دے کر ان پر اپنی بالادستی قائم کردی۔ یہ سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔ اس عمل نے یورپ کی مزید خوشحالی کا راستہ کھول دیا۔

1712 میں یورپ میں ایک نئی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی۔ عظیم مفکر روسو کی تحریروں کے نتیجے میں یورپ میں سیاسی بیداری کی ایک تحریک برپا ہوئی، نپولین نے روسو کی تحریروں کو اپنی سیاسی جدوجہد کے ذریعے عملی شکل دی، جس کے نتیجے میں یورپ میں بادشاہوں اور جاگیرداروں کے تسلط کا خاتمہ ہوا اور وہاں جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ جمہوری حکومت کے قیام کے نتیجے میں عوام کی رائے نے اہمیت اختیار کی، اسے انقلاب فرانس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس انقلاب کے اثرات یورپ کی دیگر ریاستوں کے ساتھ دنیا کے دیگر حصوں بالخصوص دور دراز خطوں میں قائم یورپی کالونیوں پر بھی مرتب ہوئے اور وہاں آزادی کی تحریکوں نے سر اٹھایا اور اس طرح حق خود مختیاری کی صدائیں ہر طرف سے بلند تر ہونے لگیں اس طرح آزادی کی تحریکوں کا آغاز ہوا۔

سامراجی قوتوں میں توسیع پسندانہ عزائم، قومی مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے آپس میں باہمی عداوت موجود تھی۔ ہر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتا تھا جس کے نتیجے میں ان کے مابین باہم تصادم بھی رہتا تھا، لیکن یہ لڑائیاں دو یا چند ریاستوں تک محدود تھیں لیکن پھر ان لڑائیوں نے 1914 میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس جنگ کو جنگ عظیم اول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اسی حوالے سے دوسری جنگ کا آغاز 1939 میں ہوا۔ اس جنگ کو جنگ عظیم دوم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان دونوں جنگوں کے نتیجے میں یورپ کا دنیا کی سیاست پر کنٹرول کمزور ہو گیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد بیشتر نوآبادیاتی ممالک نے قومی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ اس کے نتیجے میں سامراجی قوتوں کو مجبوراً اپنی نوآبادیات کو آزادی دینی پڑی۔ اس طرح دنیا کی بیشتر اقوام نے خود مختیاری اور آزادی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان اور بھارت کا قیام بھی ان ہی تحریکوں کا نتیجہ ہے۔


یورپ کی عظیم طاقتیں کمزور ہوئیں تو امریکا اور روس دو طاقتور ممالک کے طور پر سامنے آئے، دونوں نے ایک دوسرے پر دفاعی، اقتصادی بالخصوص نظریاتی بالادستی کی کوشش کی۔ اس نے عالمی سیاست پر کیا اثرات مرتب کیے اس پر آیندہ کسی کالم میں اظہار خیال کیا جائے گا۔ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کی ہولناکیوں اور تباہیوں نے دنیا کو قیام امن کے لیے سوچنے پر مجبور کردیا اس طرح اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا۔

ایسے ممالک جو جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں جن کے مفادات، اخلاقی اقدار اور مسائل کم و بیش مشترکہ ہوتے ہیں جغرافیائی لحاظ سے اسے خطے اور بین الاقوامی سیاست میں علاقائیت کا نام دیا جاتا ہے۔

یورپ جو جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم میں تختہ مشق بنا ہوا تھا، اس نے جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کو دیکھا، وہیں سے اس نے اتحاد اور اتفاق کا سبق سیکھا اور اس نے باہمی عداوت، فوجی ٹکراؤ اور پرانی رنجشوں کو دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں یورپ میں علاقائی بنیادوں پر ازسر نو منظم ہونے کے ساتھ اپنے مشترکہ مسائل باہمی کوششوں سے حل کرنے کا آغاز ہوا۔

اسی تناظر میں 1946 میں انگلینڈ کے وزیر اعظم نے ریاست ہائے متحدہ یورپ کا خواب یورپی اقوام کے سامنے پیش کیا۔ یورپی اقوام نے نئے عالمی ماحول میں باہمی انحصار اور تعاون کی افادیت کو شدت سے محسوس کیا، اس طرح یورپی اتحاد کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس کے نتیجے میں یورپی یونین کا قیام عمل میں آیا۔

اس عمل نے یورپی ممالک کو ایک وحدت میں تبدیل کردیا، یہ عمل یورپی اقوام کی زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرے نزدیک یورپ کی قومی وحدت میں تبدیلی ہی اس کی ترقی کا راز ہے۔

پاکستان، بھارت، بنگال، نیپال، مالدیپ، سری لنکا، بھوٹان اور افغانستان دنیا کے جس خطے میں واقع ہیں یہ خطہ جنوبی ایشیا کہلاتا ہے۔ یہ خطہ بہترین انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس کے باوجود یہ خطہ اقتصادی مسائل کا شکار ہے۔ اس خطے کے عوام کی اکثریت بھوک اور افلاس کا شکار ہے۔

یورپی یونین کے قیام اور اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے یہاں کے اہل بصیرت میں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کے حوالے سے زور دیا جانے لگا اور اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسی تناظر میں بنگلہ دیش نے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون پر ایک ورکنگ پیپر تیار کیا جسے تمام جنوبی ایشیائی ممالک نے تسلیم کیا اس طرح جنوبی ایشیا کی علاقائی تنظیم ''سارک'' کا قیام عمل میں آیا۔

اس تنظیم کے قیام کے نتیجے میں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان اقتصادی شعبوں میں تعاون کو فروغ ضرور حاصل ہوا لیکن یہ تنظیم خود کو یورپی یونین کی طرح ایک اقتصادی وحدت میں تبدیل نہ کرسکی۔

اس کی بڑی وجہ بھارت منفی رویہ ہے جو اس نے اپنے تمام ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ اپنایا ہوا ہے۔ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جب تک بھارت کی جانب سے کشمیر کے مسئلے پر توجہ نہیں دی جائے گی، اس وقت تک جنوبی ایشیا میں اس کا قیام ممکن نہیں۔
Load Next Story