جھوٹ کی دنیا کو خیر آباد کہہ دو
یہ ہی ان کی آخری اور بہترین متاع تھی اور اس کو بھی انھوں نے وطن کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا
ایتھنزکے عظیم جمہوریت پر ست ، منتظم اور خطیب پیری کلیس کو جب ان یونانی بہادروں کی تدفین کے موقع پر تقریرکی دعوت دی گئی جو اپنے ملک کے لیے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں کام آئے تھے تو اس نے اپنی تقریر میں کہا '' لوگو ! ایتھنز کی عظمت پہچانو، اس کے قابل بنو، اسی سے محبت کرو، دیکھو ان شہیدوں کے لہو نے اس کے چہرے کو گلنار بنا دیا ہے انھیں اپنے فرائض کا علم تھا وہ اپنے معیار سے فروتر نہ رہے اگر وہ کبھی کسی مہم میں ناکام رہے تو انھوں نے جان دے کر اس کوتاہی کی تلافی کردی۔
یہ ہی ان کی آخری اور بہترین متاع تھی اور اس کو بھی انھوں نے وطن کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا وہ مر گئے تاکہ ہم اور ہمارا شہر زندہ رہے انھوں نے ابدی عظمت حاصل کر لی وہ عظمت جو سدا بہار ہے جسے کبھی زوال نہیں۔ انھوں نے وہ مقبرہ پایا جو انتہائی طور پر قابل عزت ہے یہ سنگ و خشت کا مقبرہ نہیں جس میں ان کی ہڈیاں دفن ہیں وہ قلبی مقبرہ جس میں ان کی یادیں مشک افشاں ہیں اور جو ہمیشہ لوگوں کو فکر و عمل اور تقریر و تحریر پر اکساتی رہیں گی۔
ساری دنیا شہیدوں کی یادگار ہے صرف وہ کتبے ہی ان کی یادگار نہیں جو ان کے لوح مزار پر لگے ہوئے ہیں۔ ان کی یاد لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی اور اس کی تب و تاب میں اضافہ ہوتا رہے گا اب یہ آپ کی ہمت پر منحصر ہے کہ آپ بھی ان کی پیروی کریں اور ویسا ہی عمل پیش کریں یہ سمجھ لیجیے کہ مسرت کا دارو مدار آپ کی آزادی پر ہے اورآزادی کا انحصار آپ کی ہمت پر ہے۔
خطرات کے سامنے آپ کے عزم و یقین میں کوئی کمزوری نہ آنے پائے موت کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھنے والے نہ بد قسمت ہوتے ہیں نہ ذلیل اور نہ ہی وہ اعلیٰ کردار سے محروم ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جو اپنی زندگی قومی مقاصد پر لگا دیتی ہیں۔
ہر معقول آدمی اس ذلت کو زیادہ تکلیف دہ سمجھتا ہے جو اس کی اپنی غلطی یا سستی کی وجہ سے پیش آتی ہے اور اس موت کا خیر مقدم کرتا ہے جو نادید ہ طور پر میدان کار زار میں اسے نصیب ہوتی ہے جب کہ وہ جذبہ حب الوطنی سے سر شار ہوتا ہے۔
اس لیے میں شہیدوں کے والدین سے ہمدرد ی کا اظہار نہ کروں گا بلکہ ان کو مبارکباد دوں گا وہ بخو بی جانتے ہیں کہ یہ دنیا تبدیلی اور ترقی کے امکانات سے بھری ہوئی ہے اور مردوں کی یہ انتہائی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو عزت و عظمت کی قربان گاہ پر نذرانہ دے دیں جیسا کہ ان شہدا ء نے کیا آپ کو لازم ہے کہ پورے وقار کے ساتھ ان کا ماتم کریں۔
ان کی زندگی اس اعلیٰ سطح پر تھی جہاں موت اور مسرت ہم آغوش ہوتی ہیں آپ ان شہیدوں کی اعلیٰ مقصدیت پر غور کریں اور انھیں جو شہرت عام اور بقائے دوام حاصل ہوئی ہے اسے نگاہ میں رکھیں اور اپنے غموں کو بھول جائیں احساس عزت و عظمت لازوال ہیں۔ بڑھاپے میں روپیہ نہیں کام آتا بلکہ وہ عزت کام آتی ہے جو آپ کو اپنے گھر میں اپنے ملک میں اپنے ہم چشموں اور ہم جلیسوں سے ملتی ہے ہمارے شہدا اپنے امتحان و آزمائش میں سرخرو رہے اور قوم ان کی وجہ سے سر بلند ہے۔''
پیری کلیس کی تقریرکا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر چلا چلا کر ہمیں بول رہا ہے ،کیا میں سچ نہیں ہوں، بولو پاکستان کے تیئس کروڑ لوگوں بولو کیا میں سچ نہیں ہوں، ہاں ہاں تم سب کے سب سچ ہو، میں گواہی دیتا ہوں کیا میر ے تیئس کروڑ ہم وطنوں تم بھی یہ ہی گواہی دیتے ہو، بولو خدا کے واسطے جواب دو اتنی خاموشی کیوں ہے، اتنا سناٹا کیوں ہے؟ خدارا اپنی چپ توڑ دو، اپنے لبوں کو آزاد ہونے دو ، انھیں سچ کہنے دو۔ اسی چپ نے تمہیں عذابوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔
تمہاری خاموشی ہی تمہارا اصل جرم ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر تم گواہی کیوں نہیں دیتے ہو۔ اگر نہیں دیتے ہو تو کیا مان لیا جائے کہ سابق گورنر چوہدری سرور صحیح کہتے ہیں کہ یہاں سچ کا قحط ہے۔ آخر ساری چیزوں کا قحط ہمارے ہی ملک میں کیوں ہے کیا ہماری زمین اتنی بانجھ ہوگئی ہے؟ کیا ہم صرف جھوٹ بولنے کے عادی ہوچکے ہیں؟ کیا ہمیں جھوٹ سن کر ہی تسکین ملتی ہے؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سچ سنتے ہی ہماری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے، منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتے ہیں سچ بولنے والا ڈرکر ایسے بھاگتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ ہم قصے کہانیوں میں مست رہتے ہیں جیسے ہمارے اجداد الف لیلیٰ، اڑن کھٹولہ ، آلہ دین کا چراغ کی کہانیوں میں مست رہتے تھے۔
اس کے بعد نسیم حجازی کے تاریخی ناول، ٹارزن کی کہانی ، تین عورتیں تین کہانیاں ، خالد بن ولید ، محمود غزنوی کے کارناموں، مغل بادشاہوں کے فسانوں میں مشغول رہتے تھے۔
ہم بہت دلچسپ قوم واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے متعلق قرۃ العین حیدر نے اپنے ناول آگ کے دریا میں بالکل سچ لکھا ہے وہ لکھتی ہیں '' پاکستان میں جو نفسا نفسی کا عالم اور حب وطن کی کمی نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس سرزمین سے کوئی بے اختیار جذباتی اور روحانی لگاؤ نہیں وہ موقع اور سیکیورٹی کی تلاش میں یہاں آئے ہیں۔
یہاں کے کچھ لوگوں کے لاشعور میں ہجرت کا فسوں بسا ہوا پچھلی صد ی میں ایشیا میں سیاسی بیداری کے پھیلتے ہی یہ قوم متضاد مخالف وفاداریوں کی کش مکش کا شکار ہوگئی، رہا ہند میں محبت دوسرے ملک سے اس کی محبوب سوچ تھی۔ پان اسلام ازم کی تحریک نے اس تصورکو اور دل آویز بنایا اور مسلمان کے یہاں نیشنل ازم اور وطن پرستی کا تصور ہی بدل گیا۔
دنیا کے ہر مسئلے کی تان آخر میں آکر ایک ہی لفظ پر ٹوٹتی ہے کہ اسلام خطرے میں ہے۔ ساری دنیا کی طرف سے مذہب کا ٹھیکہ اس وقت ان لوگوں نے لے رکھا ہے ہر چیز پر تنگ نظری کا غلاف چڑھا ہوا ہے۔ موسیقی ، آرٹ ، تہذیب ، علم و ادب سب کو ملا کے ایک نقطہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔'' میرے ہم وطنو ، خدارا قصے کہانیوں سے باہر نکل آؤ، جھوٹ کی دنیا کو خیر آباد کہہ دو صرف سچ بولو اور سنو اپنی عظمت کو پہچانو، پاکستان کی عظمت کو پہچانو، اسی سے محبت کرو، مسرت کا دارومدار آپ کی آزادی پر ہے اور آزادی کا انحصار آپ کی ہمت پر ہے۔
آج جو چند ہزار انتہا پسند اور دہشتگرد ہمیں غلام بنانا چاہتے ہیں، آئیں ! ہم مل کر انھیں مار بھگائیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں بقول پیری کلیس کے ''بڑھاپے میں روپیہ نہیں کام آتا بلکہ وہ عزت کام آتی ہے جو آپ کو اپنے گھر میں ، اپنے ملک میں ، اپنے ہم چشموں میں اور ہم جلیسوں سے ملتی ہے۔'' ہم سب کو بھی ایک روز بوڑھا ہونا ہے۔
آئیں! سب سے پہلے ہم اپنے ان 60 ہزار فوجیوں ، شہریوں ، بچوں کو جنہوں نے اپنی جانیں اس لیے قربان کی ہیں یہ ملک زندہ رہے آپ اور میں زندہ رہیں۔ مل کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر خراج عقیدت پیش کریں اور پھر اپنی مسلح افواج کے ساتھ مل کر اپنی آزادی ، اپنی تہذیب و تمدن، اپنی خوش حالی وترقی کی خاطر اپنی جانوں کی پروانہ کرتے ہوئے اپنے اور اپنے ملک کے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
یہ ہی ان کی آخری اور بہترین متاع تھی اور اس کو بھی انھوں نے وطن کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا وہ مر گئے تاکہ ہم اور ہمارا شہر زندہ رہے انھوں نے ابدی عظمت حاصل کر لی وہ عظمت جو سدا بہار ہے جسے کبھی زوال نہیں۔ انھوں نے وہ مقبرہ پایا جو انتہائی طور پر قابل عزت ہے یہ سنگ و خشت کا مقبرہ نہیں جس میں ان کی ہڈیاں دفن ہیں وہ قلبی مقبرہ جس میں ان کی یادیں مشک افشاں ہیں اور جو ہمیشہ لوگوں کو فکر و عمل اور تقریر و تحریر پر اکساتی رہیں گی۔
ساری دنیا شہیدوں کی یادگار ہے صرف وہ کتبے ہی ان کی یادگار نہیں جو ان کے لوح مزار پر لگے ہوئے ہیں۔ ان کی یاد لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی اور اس کی تب و تاب میں اضافہ ہوتا رہے گا اب یہ آپ کی ہمت پر منحصر ہے کہ آپ بھی ان کی پیروی کریں اور ویسا ہی عمل پیش کریں یہ سمجھ لیجیے کہ مسرت کا دارو مدار آپ کی آزادی پر ہے اورآزادی کا انحصار آپ کی ہمت پر ہے۔
خطرات کے سامنے آپ کے عزم و یقین میں کوئی کمزوری نہ آنے پائے موت کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھنے والے نہ بد قسمت ہوتے ہیں نہ ذلیل اور نہ ہی وہ اعلیٰ کردار سے محروم ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جو اپنی زندگی قومی مقاصد پر لگا دیتی ہیں۔
ہر معقول آدمی اس ذلت کو زیادہ تکلیف دہ سمجھتا ہے جو اس کی اپنی غلطی یا سستی کی وجہ سے پیش آتی ہے اور اس موت کا خیر مقدم کرتا ہے جو نادید ہ طور پر میدان کار زار میں اسے نصیب ہوتی ہے جب کہ وہ جذبہ حب الوطنی سے سر شار ہوتا ہے۔
اس لیے میں شہیدوں کے والدین سے ہمدرد ی کا اظہار نہ کروں گا بلکہ ان کو مبارکباد دوں گا وہ بخو بی جانتے ہیں کہ یہ دنیا تبدیلی اور ترقی کے امکانات سے بھری ہوئی ہے اور مردوں کی یہ انتہائی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو عزت و عظمت کی قربان گاہ پر نذرانہ دے دیں جیسا کہ ان شہدا ء نے کیا آپ کو لازم ہے کہ پورے وقار کے ساتھ ان کا ماتم کریں۔
ان کی زندگی اس اعلیٰ سطح پر تھی جہاں موت اور مسرت ہم آغوش ہوتی ہیں آپ ان شہیدوں کی اعلیٰ مقصدیت پر غور کریں اور انھیں جو شہرت عام اور بقائے دوام حاصل ہوئی ہے اسے نگاہ میں رکھیں اور اپنے غموں کو بھول جائیں احساس عزت و عظمت لازوال ہیں۔ بڑھاپے میں روپیہ نہیں کام آتا بلکہ وہ عزت کام آتی ہے جو آپ کو اپنے گھر میں اپنے ملک میں اپنے ہم چشموں اور ہم جلیسوں سے ملتی ہے ہمارے شہدا اپنے امتحان و آزمائش میں سرخرو رہے اور قوم ان کی وجہ سے سر بلند ہے۔''
پیری کلیس کی تقریرکا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر چلا چلا کر ہمیں بول رہا ہے ،کیا میں سچ نہیں ہوں، بولو پاکستان کے تیئس کروڑ لوگوں بولو کیا میں سچ نہیں ہوں، ہاں ہاں تم سب کے سب سچ ہو، میں گواہی دیتا ہوں کیا میر ے تیئس کروڑ ہم وطنوں تم بھی یہ ہی گواہی دیتے ہو، بولو خدا کے واسطے جواب دو اتنی خاموشی کیوں ہے، اتنا سناٹا کیوں ہے؟ خدارا اپنی چپ توڑ دو، اپنے لبوں کو آزاد ہونے دو ، انھیں سچ کہنے دو۔ اسی چپ نے تمہیں عذابوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔
تمہاری خاموشی ہی تمہارا اصل جرم ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر تم گواہی کیوں نہیں دیتے ہو۔ اگر نہیں دیتے ہو تو کیا مان لیا جائے کہ سابق گورنر چوہدری سرور صحیح کہتے ہیں کہ یہاں سچ کا قحط ہے۔ آخر ساری چیزوں کا قحط ہمارے ہی ملک میں کیوں ہے کیا ہماری زمین اتنی بانجھ ہوگئی ہے؟ کیا ہم صرف جھوٹ بولنے کے عادی ہوچکے ہیں؟ کیا ہمیں جھوٹ سن کر ہی تسکین ملتی ہے؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سچ سنتے ہی ہماری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے، منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتے ہیں سچ بولنے والا ڈرکر ایسے بھاگتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ ہم قصے کہانیوں میں مست رہتے ہیں جیسے ہمارے اجداد الف لیلیٰ، اڑن کھٹولہ ، آلہ دین کا چراغ کی کہانیوں میں مست رہتے تھے۔
اس کے بعد نسیم حجازی کے تاریخی ناول، ٹارزن کی کہانی ، تین عورتیں تین کہانیاں ، خالد بن ولید ، محمود غزنوی کے کارناموں، مغل بادشاہوں کے فسانوں میں مشغول رہتے تھے۔
ہم بہت دلچسپ قوم واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے متعلق قرۃ العین حیدر نے اپنے ناول آگ کے دریا میں بالکل سچ لکھا ہے وہ لکھتی ہیں '' پاکستان میں جو نفسا نفسی کا عالم اور حب وطن کی کمی نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس سرزمین سے کوئی بے اختیار جذباتی اور روحانی لگاؤ نہیں وہ موقع اور سیکیورٹی کی تلاش میں یہاں آئے ہیں۔
یہاں کے کچھ لوگوں کے لاشعور میں ہجرت کا فسوں بسا ہوا پچھلی صد ی میں ایشیا میں سیاسی بیداری کے پھیلتے ہی یہ قوم متضاد مخالف وفاداریوں کی کش مکش کا شکار ہوگئی، رہا ہند میں محبت دوسرے ملک سے اس کی محبوب سوچ تھی۔ پان اسلام ازم کی تحریک نے اس تصورکو اور دل آویز بنایا اور مسلمان کے یہاں نیشنل ازم اور وطن پرستی کا تصور ہی بدل گیا۔
دنیا کے ہر مسئلے کی تان آخر میں آکر ایک ہی لفظ پر ٹوٹتی ہے کہ اسلام خطرے میں ہے۔ ساری دنیا کی طرف سے مذہب کا ٹھیکہ اس وقت ان لوگوں نے لے رکھا ہے ہر چیز پر تنگ نظری کا غلاف چڑھا ہوا ہے۔ موسیقی ، آرٹ ، تہذیب ، علم و ادب سب کو ملا کے ایک نقطہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔'' میرے ہم وطنو ، خدارا قصے کہانیوں سے باہر نکل آؤ، جھوٹ کی دنیا کو خیر آباد کہہ دو صرف سچ بولو اور سنو اپنی عظمت کو پہچانو، پاکستان کی عظمت کو پہچانو، اسی سے محبت کرو، مسرت کا دارومدار آپ کی آزادی پر ہے اور آزادی کا انحصار آپ کی ہمت پر ہے۔
آج جو چند ہزار انتہا پسند اور دہشتگرد ہمیں غلام بنانا چاہتے ہیں، آئیں ! ہم مل کر انھیں مار بھگائیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں بقول پیری کلیس کے ''بڑھاپے میں روپیہ نہیں کام آتا بلکہ وہ عزت کام آتی ہے جو آپ کو اپنے گھر میں ، اپنے ملک میں ، اپنے ہم چشموں میں اور ہم جلیسوں سے ملتی ہے۔'' ہم سب کو بھی ایک روز بوڑھا ہونا ہے۔
آئیں! سب سے پہلے ہم اپنے ان 60 ہزار فوجیوں ، شہریوں ، بچوں کو جنہوں نے اپنی جانیں اس لیے قربان کی ہیں یہ ملک زندہ رہے آپ اور میں زندہ رہیں۔ مل کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر خراج عقیدت پیش کریں اور پھر اپنی مسلح افواج کے ساتھ مل کر اپنی آزادی ، اپنی تہذیب و تمدن، اپنی خوش حالی وترقی کی خاطر اپنی جانوں کی پروانہ کرتے ہوئے اپنے اور اپنے ملک کے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔