کتاب ریزہ ریزہ شبنم شبنم کی نیویارک میں تقریب رونمائی

دیکھنے میں یہ حضرت چھوٹے سے لگتے ہیں مگر ہیں یہ بڑے آدمی عمر کے لحاظ سے بھی اور کام کے لحاظ سے بھی

hamdam.younus@gmail.com

ماہ مئی کا آغاز ہوتے ہی امریکا کی بیشتر ریاستوں میں سوکھے درختوں پر سبزہ آنا شروع ہو جاتا ہے اور درختوں کی مرجھائی ہوئی شاخیں پھر سے مسکرانے لگتی ہیں اور بہار کی آمد کو محسوس کرتے ہوئے خزاں کا موسم اپنے الوداعی قدموں کے ساتھ پلٹنا شروع کردیتا ہے اور امریکا کی اردو بستیوں میں بھی سماجی ثقافتی اور ادبی سرگرمیاں زور پکڑنے لگتی ہیں۔

شعر و ادب کی محفلیں بھی اپنا رنگ جمانے لگتی ہیں، ایسی ہی ایک ادبی تقریب کا اہتمام میرے چھٹے شعری مجموعے ریزہ ریزہ، شبنم شبنم کی رونمائی سے کیا گیا۔ یہ تقریب نیویارک کی مشہور ادبی تنظیم بزم خیام نے سجائی تھی اور اس کی معاونت نیویارک کے مشہور سماجی ادارے صوفی اڈلٹ ڈے کیئر نے کی تھی لنچ کے بعد اس تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا تھا۔

تقریب کی نظامت پہلے عتیق صدیقی اور پھر نیویارک کے نامور شاعر رئیس وارثی کے سپرد کی گئی۔ ابتدا میں نیویارک کی مشہور سماجی و ثقافتی شخصیت افتخار بٹ نے راقم الحروف کو گلدستہ پیش کیا۔

اس تقریب میں نیو یارک، نیوجرسی اور بوسٹن سے بھی مقتدر ادبی و ثقافتی شخصیات نے شرکت کی تھی سب سے پہلے بزم خیام کے صدر جمال محسن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ شاعر تو نہیں ہیں مگر ایک ادیب ہونے کے ناتے یونس ہمدم کی تحریروں اور ان کی شاعری کے بہت پہلے سے معترف رہے ہیں اور ان کے مشہور اور دلکش نغمات ریڈیو پاکستان سے سنتے رہے ہیں۔

ان کے گیتوں کی دھوم پاکستان، ہندوستان اور اب امریکا میں بھی خوب مچی ہوئی ہے۔ ان کی اب تک چھ نثری کتابیں اور چھ شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور مقبولیت کی سند حاصل کرچکے ہیں، میرے بڑے بھائی صبیح محسن سے ان کی دیرینہ دوستی رہی ہے مگر میری بے تکلفی ان سے امریکا میں ہوئی ہے۔

رئیس وارثی نے صاحب کتاب کے بارے میں کچھ گفتگو کرتے ہوئے مشہور افسانہ نگار اور نیوز پاکستان نیویارک اخبار کے کالم نویس کامل احمر کو مائیک پر بلایا ۔کامل احمر نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یونس ہمدم سے ان کا تعلق بہت دیرینہ ہے ہم دونوں نے نوعمری کے زمانے میں اخبارات میں بچوں کے صفحات پر لکھنا شروع کیا تھا اور اس وقت ہمارے ساتھ لکھنے والوں میں آج کے نامور شاعر و ادیب انور شعور، رضوان صدیقی، پروفیسر نوشابہ صدیقی، پروفیسر یونس شرر، پروفیسر ہارون رشید بھی شامل تھے پھر انھوں نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ بمبئی فلم انڈسٹری کے نامور فلمی گیت نگاروں ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری اور حسرت جے پوری کے گیتوں سے متاثر ہو کر یونس ہمدم نے بھی فلمی نغمہ نگار بننے کا فیصلہ کیا اور پھر خدا کے فضل سے اور اپنی محنتوں کے ساتھ یہ لاہور کی فلم انڈسٹری تک پہنچ گئے پھر وہاں انھوں نے نامور شاعروں و نغمہ نگاروں قتیل شفائی، منیر نیازی، حمایت علی شاعر اور کلیم عثمانی کے درمیان رہ کر اپنا ایک جداگانہ مقام بنایا اور فلم انڈسٹری میں جم کر دس سال گزارے اور خوب شہرت بھی کمائی۔

اس تقریب میںبوسٹن سے چار گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد مشہور اردو کرکٹ کمنٹیٹر حسن جلیل نے بھی شرکت کر کے اپنی دیرینہ دوستی کا ثبوت دیا تھا اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہ میں نے ریڈیو سے بحیثیت صداکار اپنے کیریئر کا آغاز کیا، پھر میں اردو کرکٹ کمنٹری کے شعبے سے وابستہ ہو گیا تھا میری ریڈیو اسٹیشن پر یونس ہمدم سے بارہا ملاقاتیں رہی ہیں پھر یہ لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے اور وہاں اس دور کے نامور فلمی نغمہ نگاروں کے درمیان اپنی ایک جداگانہ پہچان پیدا کی۔

ان کے لکھے ہوئے گیتوں نے کئی گلوکاروں اور گلوکاراؤں کو شہرت بخشی جن میں ناہید اختر، اے نیر، تحسین جاوید اور حمیرا چنا کے نام شامل ہیں پھر یہ فلمی دنیا سے لوٹے تو علمی دنیا کی طرف آگئے اور لگا تار لکھتے رہے اور اس وقت ان کی چھ نثری کتابیں اور چھ شعری مجموعے عوام میں قبولیت حاصل کرچکے ہیں اور امریکا میں بھی ان کا ادبی سفر بڑی توانائی کے ساتھ جاری ہے۔ جمیل عثمان نے مائیک پر آ کر پہلے یونس ہمدم کو کتاب کی رونمائی پر مبارک باد دی پھر مضمون کا آغاز کرتے ہوئے کہا میرے مضمون کا عنوان ہے سہانے گیتوں اور مدھر نغموں کا خالق، نغمہ نگار یونس ہمدم کو کون نہیں جانتا یہ ہم پیشہ و ہم مشرب و ہمراز ہے میرا اور اس کے علاوہ ہمدم بھی ہے صرف میرا ہی نہیں تمام اہل قلم اور فلمی دنیا کے دوستوں کا ہمدم دیرینہ ہے۔

دیکھنے میں یہ حضرت چھوٹے سے لگتے ہیں مگر ہیں یہ بڑے آدمی عمر کے لحاظ سے بھی اور کام کے لحاظ سے بھی یہ دہلی میں پیدا ہوئے مگر دہلی کے روڑے نہ بن سکے ابھی کم سن ہی تھے کہ والدین انھیں لے کر پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی اور یہ صحیح معنوں میں Karachite بن گئے پھر یہ فلم کی نگری لاہور سدھار گئے اور وہاں جا کر چھا گئے یونس ہمدم نے اسلامیہ کالج کراچی سے بی۔اے کیا جہاں نذیر بیگ (فلم اسٹار ندیم) ٹی وی آرٹسٹ طلعت حسین ٹی وی پروڈیوسر ایم ظہیر خان، آفتاب عظیم، سلیم جعفری، شاہد اقبال، غزالہ یاسمین اور نام ور کلاسیکل و غزل سنگر استاد امیر احمد خان ان کے کالج میں ہم جماعت تھے اور جب کہ ہمارے وکیل انصاری بھی اسی کالج کے پڑھے ہوئے ہیں ، یہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے نثر نگار بھی ہیں۔

ان کی نثر کی کتاب بات ہے برداشت کی اور یادیں باتیں فلم نگر کی جیساکہ نام سے ظاہر ہے فلمی دنیا کے رنگین قصے اور دلچسپ تذکرے ہیں یہ کتاب بڑی مقبول ہوئی اس کتاب کے پانچ والیوم آ چکے ہیں اور اس کی ڈیمانڈ میں اب بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

یونس ہمدم کی ایک وجہ شہرت کمرشل اشتہارات کے لیے ان کے لکھے ہوئے جنگلز ہیں ان کے لکھے ہوئے جنگلز اتنے مقبول ہوئے کہ زبان زدعام ہوگئے مثلاً آج کل ڈنٹونک کا بول بالا ہے، بچے دو ہی اچھے، جتنی بجلی بچائی جائے گی آپ ہی کے لیے کام آئے گی، نئے نئے پودے لگائیں آلودگی سے ملک کو بچائیں، وغیرہ وغیرہ اب آتے ہیں۔ ان کی شاعری کی طرف سمرسٹ ماہم نے کہا ہے کہ the crown of literature is an poetry یعنی شاعری ادب کا تاج ہے اب مثال کے طور پر یونس ہمدم کی یہ خوبصورت شاعری ملاحظہ فرمائیے:

پھول اس نے لگایا بالوں میں

کھل گئے پھول پھر خیالوں میں

اس کی نظریں تھیں یا کہ میخانہ

مے بھری تھی نظر کے پیالوں میں


٭٭٭

آپ کا حسن نظر ہے اور بس

ہر نظر جادو اثر ہے اور بس

کل تلک خالی مکاں جیسا تھا دل

آج وہ خوشیوں کا گھر ہے اور بس

انگریز شاعر اور فلاسفر سموئل ٹیلر کولرج کا کہنا ہے Poetry the best words in the best order یعنی شاعری کیا ہے بہترین الفاظ کو بہترین ترتیب سے سجا دینا یونس ہمدم نے کیسے بہترین الفاظ کو ایک ترتیب دی ہے دیکھیے:

کھلی کھلی سی گلاب آنکھیں

کہ جیسے چھلکے شراب آنکھیں

جو خوشبوؤں کا خزانہ رکھیں

خمار آلود خواب آنکھیں

یونس ہمدم ایک حساس آدمی ہے ذرا اس کی سوچ دیکھیے:

جیتے مرتے ہیں جو مفلسی اوڑھ کر

شاد کیسے رہیں زندگی اوڑھ کر

جمیل عثمان کے بعد مشہور فلمساز و شاعر آفتاب قمر زیدی نے بھی یونس ہمدم کے ساتھ لاہور فلم انڈسٹری سے وابستہ اپنی یادیں اور باتیں بڑے دلچسپ انداز میں شیئر کیں پھر تقریب کے صدر فائق صدیقی صاحب نے تقریب کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ یونس ہمدم کے بارے میں اتنا کچھ کہا جا چکا ہے کہ میں اب کچھ کہوں گا تو وہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔

یہ ایک ہیرے جیسی شخصیت ہیں اور یہاں جتنی بھی شخصیات جمع ہیں میرے حساب سے وہ سب قیمتی اور ہیرے جیسی ہی ہیں۔ یونس ہمدم خوش قسمت ہیں کہ اتنے انمول لوگ ان کے ہمدم دیرینہ ہیں۔
Load Next Story