پی ٹی آئی رہنماؤں کی رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری آئی جی اسلام آباد کو نوٹس
ہم کہتے ہیں سویلائزڈ ملک ہے، کورٹ آرڈرز کیساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسکو ثابت نہیں کرتا ، عدالت کے ریمارکس
ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری اور رہائی کے بعد ملیکہ بخاری و علی محمد خان کی دوبارہ گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں عدالت کے concern ہیں۔ حکومت نے کوشش کی ہے کہ عدالتی رِٹ کو شکست دی جائے ۔ ہم کہتے ہیں سویلائزڈ ملک ہے، کورٹ کے آرڈرز کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کو ثابت نہیں کرتا ۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئینی عدالتوں کے خلاف ایک کمپین لانچ کی گئی ۔ یہ عدالتیں قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے لیے بیٹھی ہیں ۔ جو کمپین چلا رہے ہیں کل وہی انہی عدالتوں سے اسی طرح ریلیف لے رہے تھے ۔ ہم ججز ٹاک شوز نہیں کر سکتے وہاں بیٹھ کر دفاع نہیں کر سکتے ۔ ہماری طاقت بار ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالت کی رِٹ اس ملک کا وقار ہے ۔ جو کچھ پر تشدد واقعات ہوئے ان کو کوئی Justify نہیں کر رہا ۔ ملک کے لیے اعلیٰ اتھارٹی کے سامنے یہ معاملہ رکھیں۔
اٹارنی جنرل نے سماعت کے دوران کہا کہ یہ ملک آئین کے تحت ہی چلنا ہے ۔ عدالتیں اور تمام آئینی اداروں نے آئین کے اندر رہ کر ہی کام کرنا ہے ۔
عدالت نے کہا کہ یہ وقت گزر جائے گا لیکن اس کے اثرات ملک پر برقرار رہیں گے ۔ ہم یہاں صرف سروس کے لیے ہیں ۔د وران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب جذباتی ہو گئے۔ اس موقع پر روسٹرم پر کھڑے وکلا نے کہا ہم عدالت کے ساتھ ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ پنجاب پولیس ڈائریکٹ اسلام آباد سے کسی کو گرفتار نہیں کر سکتی ۔ بادی النظر میں اسلام آباد پولیس خود کو اس سے الگ نہیں کر سکتی ۔ کیا پنجاب پولیس کو اسلام آباد پولیس نے بلایا تھا کہ عدالت نے گرفتاری سے روکا ہوا ہے ؟ ۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کیا وجہ ہے آئینی ادارے کے آرڈرز کو ہوا میں اُڑایا جا رہا ہے؟۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اس سنگین معاملے کو ہائر اتھارٹی کے سامنے رکھا جائے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید کہا کہ یہ وقت گزر جائے گا ، لیکن یہ دھبے ہمیشہ رہیں گے۔ ہم یہاں خدمت کے لیے بیٹھے ہیں ہم جمہوریت میں رہ رہے ہیں۔ ہم اس کمپین سے بھی واقف ہیں جو آئینی عدالتوں کے خلاف جاری ہے۔ جو بھی ہوا وہ پاکستان کے سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کے کیس میں آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے کہا عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کو پنجاب پولیس کے حوالے کیوں کیا گیا؟ عدالت نے پیر تک آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا۔
دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پی ٹی آئی رہنما ملیکہ بخاری اور علی محمد خان کی رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری پر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی اور اٹارنی جنرل و آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 23 مئی تک ملتوی کردی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں عدالت کے concern ہیں۔ حکومت نے کوشش کی ہے کہ عدالتی رِٹ کو شکست دی جائے ۔ ہم کہتے ہیں سویلائزڈ ملک ہے، کورٹ کے آرڈرز کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کو ثابت نہیں کرتا ۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئینی عدالتوں کے خلاف ایک کمپین لانچ کی گئی ۔ یہ عدالتیں قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے لیے بیٹھی ہیں ۔ جو کمپین چلا رہے ہیں کل وہی انہی عدالتوں سے اسی طرح ریلیف لے رہے تھے ۔ ہم ججز ٹاک شوز نہیں کر سکتے وہاں بیٹھ کر دفاع نہیں کر سکتے ۔ ہماری طاقت بار ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالت کی رِٹ اس ملک کا وقار ہے ۔ جو کچھ پر تشدد واقعات ہوئے ان کو کوئی Justify نہیں کر رہا ۔ ملک کے لیے اعلیٰ اتھارٹی کے سامنے یہ معاملہ رکھیں۔
اٹارنی جنرل نے سماعت کے دوران کہا کہ یہ ملک آئین کے تحت ہی چلنا ہے ۔ عدالتیں اور تمام آئینی اداروں نے آئین کے اندر رہ کر ہی کام کرنا ہے ۔
عدالت نے کہا کہ یہ وقت گزر جائے گا لیکن اس کے اثرات ملک پر برقرار رہیں گے ۔ ہم یہاں صرف سروس کے لیے ہیں ۔د وران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب جذباتی ہو گئے۔ اس موقع پر روسٹرم پر کھڑے وکلا نے کہا ہم عدالت کے ساتھ ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ پنجاب پولیس ڈائریکٹ اسلام آباد سے کسی کو گرفتار نہیں کر سکتی ۔ بادی النظر میں اسلام آباد پولیس خود کو اس سے الگ نہیں کر سکتی ۔ کیا پنجاب پولیس کو اسلام آباد پولیس نے بلایا تھا کہ عدالت نے گرفتاری سے روکا ہوا ہے ؟ ۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کیا وجہ ہے آئینی ادارے کے آرڈرز کو ہوا میں اُڑایا جا رہا ہے؟۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اس سنگین معاملے کو ہائر اتھارٹی کے سامنے رکھا جائے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید کہا کہ یہ وقت گزر جائے گا ، لیکن یہ دھبے ہمیشہ رہیں گے۔ ہم یہاں خدمت کے لیے بیٹھے ہیں ہم جمہوریت میں رہ رہے ہیں۔ ہم اس کمپین سے بھی واقف ہیں جو آئینی عدالتوں کے خلاف جاری ہے۔ جو بھی ہوا وہ پاکستان کے سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کے کیس میں آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے کہا عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کو پنجاب پولیس کے حوالے کیوں کیا گیا؟ عدالت نے پیر تک آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا۔
دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پی ٹی آئی رہنما ملیکہ بخاری اور علی محمد خان کی رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری پر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی اور اٹارنی جنرل و آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 23 مئی تک ملتوی کردی۔