جسم میں تحلیل ہوجانے والے برقی آلات زخموں کو انفیکشن سے محفوظ رکھیں گے
محققین نے ان حل ہو جانے والے آلات کو روایتی برقیات کے مقابلے میں ’’پولر اپوزٹ‘‘ یعنی قطبی مخالف کا نام دیا ہے۔
KARACHI:
امریکی سائنس دانوں نے انسانی جسم میں حل ہوجانے کی صلاحیت رکھنے والے انتہائی باریک برقی آلات ایجاد کر لیے ہیں۔
جریدے ''سائنس'' میں شایع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ آلات اپنا کام مکمل کرنے کے بعد جسم میں حل ہو جائیں گے۔ تحلیل ہونے والے آلات کا بنیادی مقصد زخموں کو انفیکشن سے بچانا ہے۔ یہ آلات سیلیکون اور میگنیشیم آکسائیڈ کے بنے ہیں اور تحفظ کے لیے انھیں ریشم کے باریک ترین پردوں میں لپیٹا گیا ہے۔
یہ تحقیق ٹرانزیئنٹ الیکٹرانکس''Transient Electronics'' کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے اور اسے ان محققوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے جو قبل ازیں جلد کے ساتھ پھیلنے اور سکڑنے والے آلات بناچکے ہیں۔
محققین نے ان حل ہو جانے والے آلات کو روایتی برقیات کے مقابلے میں ''پولر اپوزٹ'' یعنی قطبی مخالف کا نام دیا ہے۔ روایتی برقی آلات پائیدار اور ٹھوس ہوتے ہیں جب کہ یہ آلات جسم کے ساتھ پھیلتے سکڑتے ہیں اور جسم میں ہی حل ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔
ٹفٹ اسکول آف انجنیئرنگ کے پروفیسر فائرنزو اومینیٹو کے مطابق اس طریقۂ کار میں دو عوامل کار فرما ہیں: ایک یہ کہ اس میں اشیا حل ہو جاتی ہیں اور دوسرے یہ کہ انھیں کب حل ہونا ہے۔
سلیکون پانی میں تحلیل ہو ہی جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روایتی برقیات میں سلیکون سے بننے والے آلات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ تحلیل ہونے میں بہت زیادہ وقت لگاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے سلیکون کی ایک ایسی باریک جھلی تخلیق کی جو ہفتوں اور دنوں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس جھلّی کا نام انھوں نے ''نینو میمبرین'' رکھا ہے۔ آن آلات کے تحلیل ہونے کی رفتار کو ریشم کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، اور یہ مادہ ریشم کے کیڑے سے حاصل کیا جاتا ہے۔
پروفیسر اومینیٹو کا کہنا ہے، ''موجودہ آلات کے مقابلے میں ٹرانزیئنٹ الیکٹرانکس کی کار کردگی بہتر ہے کیونکہ وہ ماحول میں ایک معینہ مدت کے اندر پوری طرح سے گھل جاتے ہیں، خواہ منٹوں میں یا برسوں میں۔''
تجربے گاہ میں ان آلات کی متعدد اقسام کے استعمال پر تحقیق کی گئی ہے جن میں چونسٹھ میگا پکسل ڈیجیٹل کیمرے سے لے کر حرارت جانچنے والے آلات اور شمسی خلیے شامل ہیں۔
زخموں کو انفیکشن سے محفوظ رکھنے کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کو دوسرے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر جسم کے اندر ایسی دواؤں کا داخلہ جو آہستہ آہستہ خارج ہوتی رہیں۔ مزید یہ کہ اس ٹیکنالوجی سے بنے سینسر دل اور دماغ میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کو ایسے کمپیوٹر اور موبائل فون بنانے کے لیے بھی کام میں لایا جا سکتا ہے جو ماحول دوست ہوں۔ برقیاتی کچرا ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ایسے کمپیوٹر، موبائل فون اور دیگر برقیاتی آلات بنالیے جائیں جو اپنی مدت پوری ہونے کے بعد کچرے کے ڈھیر کی صورت میں پڑے رہنے کے بجائے گُھل کر ختم ہوجائیں تو اس سے ماحول کو کتنا فائدہ ہوگا۔
امریکی سائنس دانوں نے انسانی جسم میں حل ہوجانے کی صلاحیت رکھنے والے انتہائی باریک برقی آلات ایجاد کر لیے ہیں۔
جریدے ''سائنس'' میں شایع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ آلات اپنا کام مکمل کرنے کے بعد جسم میں حل ہو جائیں گے۔ تحلیل ہونے والے آلات کا بنیادی مقصد زخموں کو انفیکشن سے بچانا ہے۔ یہ آلات سیلیکون اور میگنیشیم آکسائیڈ کے بنے ہیں اور تحفظ کے لیے انھیں ریشم کے باریک ترین پردوں میں لپیٹا گیا ہے۔
یہ تحقیق ٹرانزیئنٹ الیکٹرانکس''Transient Electronics'' کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے اور اسے ان محققوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے جو قبل ازیں جلد کے ساتھ پھیلنے اور سکڑنے والے آلات بناچکے ہیں۔
محققین نے ان حل ہو جانے والے آلات کو روایتی برقیات کے مقابلے میں ''پولر اپوزٹ'' یعنی قطبی مخالف کا نام دیا ہے۔ روایتی برقی آلات پائیدار اور ٹھوس ہوتے ہیں جب کہ یہ آلات جسم کے ساتھ پھیلتے سکڑتے ہیں اور جسم میں ہی حل ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔
ٹفٹ اسکول آف انجنیئرنگ کے پروفیسر فائرنزو اومینیٹو کے مطابق اس طریقۂ کار میں دو عوامل کار فرما ہیں: ایک یہ کہ اس میں اشیا حل ہو جاتی ہیں اور دوسرے یہ کہ انھیں کب حل ہونا ہے۔
سلیکون پانی میں تحلیل ہو ہی جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روایتی برقیات میں سلیکون سے بننے والے آلات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ تحلیل ہونے میں بہت زیادہ وقت لگاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے سلیکون کی ایک ایسی باریک جھلی تخلیق کی جو ہفتوں اور دنوں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس جھلّی کا نام انھوں نے ''نینو میمبرین'' رکھا ہے۔ آن آلات کے تحلیل ہونے کی رفتار کو ریشم کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، اور یہ مادہ ریشم کے کیڑے سے حاصل کیا جاتا ہے۔
پروفیسر اومینیٹو کا کہنا ہے، ''موجودہ آلات کے مقابلے میں ٹرانزیئنٹ الیکٹرانکس کی کار کردگی بہتر ہے کیونکہ وہ ماحول میں ایک معینہ مدت کے اندر پوری طرح سے گھل جاتے ہیں، خواہ منٹوں میں یا برسوں میں۔''
تجربے گاہ میں ان آلات کی متعدد اقسام کے استعمال پر تحقیق کی گئی ہے جن میں چونسٹھ میگا پکسل ڈیجیٹل کیمرے سے لے کر حرارت جانچنے والے آلات اور شمسی خلیے شامل ہیں۔
زخموں کو انفیکشن سے محفوظ رکھنے کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کو دوسرے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر جسم کے اندر ایسی دواؤں کا داخلہ جو آہستہ آہستہ خارج ہوتی رہیں۔ مزید یہ کہ اس ٹیکنالوجی سے بنے سینسر دل اور دماغ میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کو ایسے کمپیوٹر اور موبائل فون بنانے کے لیے بھی کام میں لایا جا سکتا ہے جو ماحول دوست ہوں۔ برقیاتی کچرا ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ایسے کمپیوٹر، موبائل فون اور دیگر برقیاتی آلات بنالیے جائیں جو اپنی مدت پوری ہونے کے بعد کچرے کے ڈھیر کی صورت میں پڑے رہنے کے بجائے گُھل کر ختم ہوجائیں تو اس سے ماحول کو کتنا فائدہ ہوگا۔