جی 20 اجلاس اور چین کا مؤقف
جی 20بھی بنیادی طور پر اقتصادیات سے جڑا ہوا بلاک ہے
عوامی جمہوریہ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر میں ہونے والی سیاحت سے متعلق G20 میٹنگ میں شرکت نہیں کرے گا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ ان کا ملک مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے G20اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا، انھوں نے انٹرنیشنل پریس سینٹر (آئی پی سی) میں منعقدہ بریفنگ میں کہا کہ چین متنازعہ علاقوں میں جی 20اجلاسوں کی کسی بھی شکل کے انعقاد کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور وہ اس طرح کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرے گا۔
G20 تنظیم کا سربراہی اجلاس ستمبر میں دہلی میں منعقد ہونا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اجلاس بھارت کے مختلف شہروں میں بھی رکھے گئے ہیں۔ ایک اجلاس مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں بھی رکھا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اسے G20 ٹورازم میٹنگ کا نام دیا گیا ہے۔ ٹورازم میٹنگ کے لیے جس شہر کا انتخاب کیا گیا ہے، اسی سے بھارتی پالیسی ساز کی نیت آشکار ہوجاتی ہے کہ وہ سری نگر میں جی ٹوئنٹی ٹورازم میٹنگ کا انعقاد کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ اور سرینگر کو ایک پرامن شہر قرار دلوانا چاہتا ہے حالانکہ اس وقت سری نگر میں بھارت کی اسپیشل فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں عوام مسلسل بھارتی قبضے کے خلاف مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت نے سری نگر میں میٹنگ رکھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ شرارت کی ہے۔ چین اور پاکستان نے سری میں میٹنگ رکھنے کی سخت مخالفت کی ہے۔ ممالک کا گروپ بہت زیادہ اہم ، بااثر اور مضبوط اقتصادی پس منظر کے حامل ہیں۔اس میں امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی،جرمنی، روس، چین، جنوبی کوریا، جاپان، ساؤتھ افریقہ، برازیل، آسٹریلیا، سعودی عرب جیسے صنعتی طور پر ترقی یافتہ اور امیر ممالک شامل ہیں۔
بھارت ایک وسیع وعریض ملک ہے۔ بھارت میں کئی ایسے شہر ہیں، جو سری نگر سے کہیں زیادہ پرامن اور ترقی یافتہ ہیں۔ ان میں چنائی، کلکتہ، احمد آباد، ناگ پور، ترویندرم، بنگلور، ممبئی، جے پور اور حیدرآباد جیسے بڑے اور انفرااسٹرکچر کے لحاظ سے جدید شہر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جنوبی بھارت میں متعدد ایسے شہر ہیں جہاں کا موسم بھی اچھا ہے اور شہر بھی جدید ہیں۔ اس کے باوجود سری نگر میں اجلاس رکھنا واضح کرتا ہے کہ بھارت جی 20 جیسی تنظیم کو بھی متنازعہ بنانے سے باز نہیں آ رہا اور اس کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کا مؤقف بہت واضح ہے۔ اس سے پاکستان کے مؤقف کو بھی تقویت ملی ہے۔ بھارت سی پیک کے روٹ پر بھی اعتراض کر چکا ہے۔ اگر اس روٹ پر بھارت کی حکومت اپنے اعتراض کو جائز سمجھتی ہے تو پھر چین اور پاکستان بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ ایک متنازعہ علاقے میں ہونے والے جی 20 اجلاس میں شرکت نہ کریں۔ چین اور بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع موجود ہے۔ اروناچل پردیش میں سرحدی تنازع کے باعث دونوں ملکوں میں جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ اسی طرح لداخ کے علاقے میں بھی چین اپنے تحفظات رکھتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان تو کشمیر میں استصواب رائے کی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدآمد چاہتا ہے جب کہ بھارت اس کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت بڑی تیزی سے ایک عالمی معاشی طاقت اختیار کرتا جا رہا ہے، اسی وجہ سے عالمی سطح پر بھی بھارت کی پذیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیے بھی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جو ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہوں تو عالمی سطح پر بھی ان کی اہمیت اور پذیرائی زیادہ ہوتی ہے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس معاشی بحران نے پاکستان کے لیے اندرونی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی کئی مسائل اور مشکلات پیدا کر دیے ہیں۔ ملک میں سیاسی بحران بھی خاصا شدت اختیار کر چکا ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے بھی ملکی معیشت اور کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر مالی سال 23ء کی ششماہی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں کیا گیا تجزیہ مالی سال 23ء کے ششماہی ڈیٹا کے نتائج پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بیرونی جاری کھاتے اور بنیادی مالیاتی توازن میں پالیسی پر مبنی بہتری کے باوجود مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی میں پاکستان کے معاشی حالات میں بگاڑ دیکھا گیا۔ پہلی ششماہی کے دوران اہم خدشات میں خراب عالمی معاشی حالات، آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تکمیل کے بارے میں بے یقینی، ناکافی بیرونی فنانسنگ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی پست سطح شامل تھے جن میں شدید سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے شدت آ گئی۔
ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی میں پالیسی ریٹ میں مزید 225 بی پی ایس کا اضافہ کر دیا جب کہ اس سے قبل مالی سال 22ء کے دوران اس میں 675 بی پی ایس اضافہ کیا گیا تھا۔ ملکی طلب میں نمایاں کمی کے باوجود مہنگائی کے اعدادوشمار مالی سال 22ء کی دوسری ششماہی سے بدستور بلند ہیں۔ مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران کئی عوامل صارف اشاریہ قیمت ملکی مہنگائی کو25.0 فیصد تک لے گئے جن میں اجناس کی بلند عالمی قیمتیں، مہنگائی کی بلند توقعات اور بعض ملکی عوامل شامل ہیں علاوہ ازیں مہنگائی کے دباؤ کو مزید بڑھانے والے عوامل پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور بجلی کے نرخوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہیں۔
رپورٹ میں مالیاتی شعبے کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اہم غیر سودی اخراجاتِ جاریہ میں کمی ہوئی خاص طور پر زرِ اعانت، گرانٹس، اور ترقیاتی اخراجات میں، جس سے مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران بنیادی فاضل رقم میں بہتری آئی۔ تاہم مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے لحاظ سے گزشتہ سال ہی کی سطح پر رہا پہلی ششماہی کے دوران درآمدات میں تیزی سے تخفیف اور معاشی سرگرمیوں میں بحیثیتِ مجموعی کمی آنے سے ٹیکس وصولی ہدف سے کم رہی۔روس یوکرین تنازعے اور چین کی صفر کووڈ پالیسی کے نتیجے میں رسدی زنجیر میں رکاوٹوں نے عالمی طلب کو متاثر کیا ، جس سے پاکستان کی برآمدی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔
پہلی ششماہی کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں بہتری کے باوجود رقوم کی آمد میں کمی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سبب بنی۔ آئی ایم ایف سے رقوم کی اقساط ملنے میں تاخیر اور ملک میں سیاسی غیر یقینی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ قرضوں کی طے شدہ واپسی اور زرمبادلہ کے خالص ذخائر سے رقوم کے انخلا اور سرمایہ کاری نکالے جانے کی وجہ سے بیرونی دباؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ آٹو موبائلز، پٹرولیم مصنوعات، اور سیمنٹ کی فروخت میں کمی دیکھی گئی، ایگریکلچر سیکٹر میں رائس اور کاٹن کی پیداوار میں کمی ہوئی جب کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 3.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
یہ رپورٹ ہمارے پالیسی سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ جب تک پاکستان اپنے معاشی بحران سے نہیں نکلتا، اس وقت تک عالمی سطح پر پاکستانی مؤقف کی پذیرائی ہونا انتہائی مشکل کام ہے۔ ادھر سیاسی بحران نے معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں۔ سیاست اور معیشت آپ میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک کی خرابی دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت، بزنس کلاس، ادارہ جاتی ایلیٹ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ملک کے مستقبل کو سامنے رکھ کر اپنے اپنے مفادات کا ارینجمنٹ کرنا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ سرد جنگ کی سوچ کے ساتھ پاکستان کو آگے نہیں لے جایا جا سکتا۔
انتہاپسندی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کا استعمال، جمہوریت کے بجائے مسلح گروپوں کے ذریعے مخالفین پر دباؤ ڈالنے یا انھیں ختم کرنے کی حکمت عملی سے کام نہیں چل سکتا۔ جو سیاسی گروہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوعملی، جھوٹ، فریب اور میڈیا وار کے ذریعے جھوٹ کو سچ میں تبدیل کر سکتا ہے، تو اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ سیاست میں ظاہر و باطن ایک جیسا کرنے سے ہی جمہوری نظام ترقی کر سکتا ہے۔ جی 20 ممالک کی تنظیم کے ذریعے بھی فوائد اسی وقت حاصل کیے جا سکتے ہیں جب پاکستان کی معیشت درست سمت میں چلے گی اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو گا۔
دنیا میں اب نظریاتی صف بندی نہیں ہے بلکہ اقتصادی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ جی 20بھی بنیادی طور پر اقتصادیات سے جڑا ہوا بلاک ہے۔اس بلاک سے فوائد وہی ملک حاصل کرے گا جو سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ہو گا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ ان کا ملک مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے G20اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا، انھوں نے انٹرنیشنل پریس سینٹر (آئی پی سی) میں منعقدہ بریفنگ میں کہا کہ چین متنازعہ علاقوں میں جی 20اجلاسوں کی کسی بھی شکل کے انعقاد کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور وہ اس طرح کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرے گا۔
G20 تنظیم کا سربراہی اجلاس ستمبر میں دہلی میں منعقد ہونا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اجلاس بھارت کے مختلف شہروں میں بھی رکھے گئے ہیں۔ ایک اجلاس مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں بھی رکھا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اسے G20 ٹورازم میٹنگ کا نام دیا گیا ہے۔ ٹورازم میٹنگ کے لیے جس شہر کا انتخاب کیا گیا ہے، اسی سے بھارتی پالیسی ساز کی نیت آشکار ہوجاتی ہے کہ وہ سری نگر میں جی ٹوئنٹی ٹورازم میٹنگ کا انعقاد کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ اور سرینگر کو ایک پرامن شہر قرار دلوانا چاہتا ہے حالانکہ اس وقت سری نگر میں بھارت کی اسپیشل فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں عوام مسلسل بھارتی قبضے کے خلاف مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت نے سری نگر میں میٹنگ رکھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ شرارت کی ہے۔ چین اور پاکستان نے سری میں میٹنگ رکھنے کی سخت مخالفت کی ہے۔ ممالک کا گروپ بہت زیادہ اہم ، بااثر اور مضبوط اقتصادی پس منظر کے حامل ہیں۔اس میں امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی،جرمنی، روس، چین، جنوبی کوریا، جاپان، ساؤتھ افریقہ، برازیل، آسٹریلیا، سعودی عرب جیسے صنعتی طور پر ترقی یافتہ اور امیر ممالک شامل ہیں۔
بھارت ایک وسیع وعریض ملک ہے۔ بھارت میں کئی ایسے شہر ہیں، جو سری نگر سے کہیں زیادہ پرامن اور ترقی یافتہ ہیں۔ ان میں چنائی، کلکتہ، احمد آباد، ناگ پور، ترویندرم، بنگلور، ممبئی، جے پور اور حیدرآباد جیسے بڑے اور انفرااسٹرکچر کے لحاظ سے جدید شہر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جنوبی بھارت میں متعدد ایسے شہر ہیں جہاں کا موسم بھی اچھا ہے اور شہر بھی جدید ہیں۔ اس کے باوجود سری نگر میں اجلاس رکھنا واضح کرتا ہے کہ بھارت جی 20 جیسی تنظیم کو بھی متنازعہ بنانے سے باز نہیں آ رہا اور اس کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کا مؤقف بہت واضح ہے۔ اس سے پاکستان کے مؤقف کو بھی تقویت ملی ہے۔ بھارت سی پیک کے روٹ پر بھی اعتراض کر چکا ہے۔ اگر اس روٹ پر بھارت کی حکومت اپنے اعتراض کو جائز سمجھتی ہے تو پھر چین اور پاکستان بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ ایک متنازعہ علاقے میں ہونے والے جی 20 اجلاس میں شرکت نہ کریں۔ چین اور بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع موجود ہے۔ اروناچل پردیش میں سرحدی تنازع کے باعث دونوں ملکوں میں جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ اسی طرح لداخ کے علاقے میں بھی چین اپنے تحفظات رکھتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان تو کشمیر میں استصواب رائے کی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدآمد چاہتا ہے جب کہ بھارت اس کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت بڑی تیزی سے ایک عالمی معاشی طاقت اختیار کرتا جا رہا ہے، اسی وجہ سے عالمی سطح پر بھی بھارت کی پذیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیے بھی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جو ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہوں تو عالمی سطح پر بھی ان کی اہمیت اور پذیرائی زیادہ ہوتی ہے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس معاشی بحران نے پاکستان کے لیے اندرونی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی کئی مسائل اور مشکلات پیدا کر دیے ہیں۔ ملک میں سیاسی بحران بھی خاصا شدت اختیار کر چکا ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے بھی ملکی معیشت اور کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر مالی سال 23ء کی ششماہی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں کیا گیا تجزیہ مالی سال 23ء کے ششماہی ڈیٹا کے نتائج پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بیرونی جاری کھاتے اور بنیادی مالیاتی توازن میں پالیسی پر مبنی بہتری کے باوجود مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی میں پاکستان کے معاشی حالات میں بگاڑ دیکھا گیا۔ پہلی ششماہی کے دوران اہم خدشات میں خراب عالمی معاشی حالات، آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تکمیل کے بارے میں بے یقینی، ناکافی بیرونی فنانسنگ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی پست سطح شامل تھے جن میں شدید سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے شدت آ گئی۔
ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی میں پالیسی ریٹ میں مزید 225 بی پی ایس کا اضافہ کر دیا جب کہ اس سے قبل مالی سال 22ء کے دوران اس میں 675 بی پی ایس اضافہ کیا گیا تھا۔ ملکی طلب میں نمایاں کمی کے باوجود مہنگائی کے اعدادوشمار مالی سال 22ء کی دوسری ششماہی سے بدستور بلند ہیں۔ مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران کئی عوامل صارف اشاریہ قیمت ملکی مہنگائی کو25.0 فیصد تک لے گئے جن میں اجناس کی بلند عالمی قیمتیں، مہنگائی کی بلند توقعات اور بعض ملکی عوامل شامل ہیں علاوہ ازیں مہنگائی کے دباؤ کو مزید بڑھانے والے عوامل پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور بجلی کے نرخوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہیں۔
رپورٹ میں مالیاتی شعبے کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اہم غیر سودی اخراجاتِ جاریہ میں کمی ہوئی خاص طور پر زرِ اعانت، گرانٹس، اور ترقیاتی اخراجات میں، جس سے مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران بنیادی فاضل رقم میں بہتری آئی۔ تاہم مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے لحاظ سے گزشتہ سال ہی کی سطح پر رہا پہلی ششماہی کے دوران درآمدات میں تیزی سے تخفیف اور معاشی سرگرمیوں میں بحیثیتِ مجموعی کمی آنے سے ٹیکس وصولی ہدف سے کم رہی۔روس یوکرین تنازعے اور چین کی صفر کووڈ پالیسی کے نتیجے میں رسدی زنجیر میں رکاوٹوں نے عالمی طلب کو متاثر کیا ، جس سے پاکستان کی برآمدی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔
پہلی ششماہی کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں بہتری کے باوجود رقوم کی آمد میں کمی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سبب بنی۔ آئی ایم ایف سے رقوم کی اقساط ملنے میں تاخیر اور ملک میں سیاسی غیر یقینی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ قرضوں کی طے شدہ واپسی اور زرمبادلہ کے خالص ذخائر سے رقوم کے انخلا اور سرمایہ کاری نکالے جانے کی وجہ سے بیرونی دباؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ آٹو موبائلز، پٹرولیم مصنوعات، اور سیمنٹ کی فروخت میں کمی دیکھی گئی، ایگریکلچر سیکٹر میں رائس اور کاٹن کی پیداوار میں کمی ہوئی جب کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 3.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
یہ رپورٹ ہمارے پالیسی سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ جب تک پاکستان اپنے معاشی بحران سے نہیں نکلتا، اس وقت تک عالمی سطح پر پاکستانی مؤقف کی پذیرائی ہونا انتہائی مشکل کام ہے۔ ادھر سیاسی بحران نے معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں۔ سیاست اور معیشت آپ میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک کی خرابی دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت، بزنس کلاس، ادارہ جاتی ایلیٹ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ملک کے مستقبل کو سامنے رکھ کر اپنے اپنے مفادات کا ارینجمنٹ کرنا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ سرد جنگ کی سوچ کے ساتھ پاکستان کو آگے نہیں لے جایا جا سکتا۔
انتہاپسندی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کا استعمال، جمہوریت کے بجائے مسلح گروپوں کے ذریعے مخالفین پر دباؤ ڈالنے یا انھیں ختم کرنے کی حکمت عملی سے کام نہیں چل سکتا۔ جو سیاسی گروہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوعملی، جھوٹ، فریب اور میڈیا وار کے ذریعے جھوٹ کو سچ میں تبدیل کر سکتا ہے، تو اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ سیاست میں ظاہر و باطن ایک جیسا کرنے سے ہی جمہوری نظام ترقی کر سکتا ہے۔ جی 20 ممالک کی تنظیم کے ذریعے بھی فوائد اسی وقت حاصل کیے جا سکتے ہیں جب پاکستان کی معیشت درست سمت میں چلے گی اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو گا۔
دنیا میں اب نظریاتی صف بندی نہیں ہے بلکہ اقتصادی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ جی 20بھی بنیادی طور پر اقتصادیات سے جڑا ہوا بلاک ہے۔اس بلاک سے فوائد وہی ملک حاصل کرے گا جو سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ہو گا۔