سیاسی ’’حصار‘‘ کے باغی

اس گھمبیر سیاسی اور معاشی ابتری میں مجھے عابد حسین عابد کا مجموعہ کلام’’رات کے حصارمیں‘‘ کی کیوں یاد آئی

Warza10@hotmail.com

آج دل چاہ رہا ہے کہ ہمارے عہد کے ترقی پسند فکر کے شاعر عابد حسین عابد کے اس شعر سے اپنے مضمون کی تمہید باندھوں کہ...

تم نے لڑے بغیر غلامی قبول کی
اچھے بھلے وجود پہ سر رائیگاں گیا

مذکورہ تناظر میں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہمارے ہوشمند عہد کا امریکی غاصبانہ نظام کا قہر اور جبرہمارے بنیادی وعوامی حقوق کو چبا رہا ہے،یہی نہیں بلکہ اب تو ہمارے عوام کو مزید غلام بنانے کی غرض سے آئی ایم ایف بھی قرضہ دینے کی نت نئی شرائط لاگو کررہا ہے۔

اس عالمی سازشی صورتحال میں مجھے آج ہمارے ترقی پسند شاعر و ادیب اور عوام کے دکھ درد سمجھنے والے محبی عابد حسین عابد یاد آئے جو طویل عرصے سے ترقی پسند خیالات اور بے کس و مجبور عوام کے جمہوری حقوق کے لیے تحریکی صلاحیتوں کے ساتھ تخلیقی شعور کی مدد سے شعر اور نظم کے ذریعے انسانی المیوں اور انسان کے جمالیاتی زاویوں کو مسلسل وا کر رہے ہیں۔

میاں چنوں کی مٹی کے اس وفا پرست اور سوچتے سپوت عابد حسین میں ہمیشہ ایک بے چین اور انسانی حرمت کا پاسدار فرد رہاہے،انسانی حقوق کی پامالی کے اس دشت میں عابد حسین نے نہ کبھی جسمانی محنت سے جان چرائی اور نہ ہی کبھی اس نے اپنے تخلیقی شعور پر سمجھوتہ کیا،تاریخ کا بھی عجب رنگ اور ڈھنگ ہوتا ہے کہ وہ جمہوری اور تخلیق کے پیراہن سمجھنے والوں کو ہی عزیز رکھتی ہے اور ایسے ہی افراد تاریخ کے سر کا جھومر قرار پاتے ہیں،جو کسی بھی قیمت پر اپنے آدرش،سیاسی سوچ اور تخلیق کے سوتے پر کسی آمرانہ یا ساراجی سوچ کو حاوی نہیں ہونے دیتے،وگرنہ مٹی کا سودا کرنے والے عالمی سامراج کے مفادات کے آگے اپنا ضمیر اور سیاسی سوچ کو بیچ کر ، غریبوں کی بستی پر قبضہ کرکے ناجائز طریقے سے عالی شان بنگلوں کے مالک ہو جاتے ہیں اور ذرا سی شرم و حیا کا مظاہرہ نہیں کرتے،بلکہ قیمتی گاڑیوں کے قافلے میں ہی خود کو عوام سے محفوظ رکھنے کے بہانے تراشتے رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس گھمبیر سیاسی اور معاشی ابتری میں مجھے عابد حسین عابد کا مجموعہ کلام''رات کے حصارمیں'' کی کیوں یاد آئی یا کیوں لگا کہ اس کا ترقی پسند فکر کلام ہی آج کے ابتلا میں گھرے ہوئے مظلوم و بے کس عوام کے احساسات کی ترجمانی کر سکتا ہے،اس کی دلیل عابد حسین عابد کے زیر نظر مجموعہ کلام کے ہر شعر کی فکر سے آپ کو کتاب میں جا بجا ملے گی،جیسا کہ...

ہم نے ذہنوں میں سوالات ابھارے عابد
ہم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں گرایا پتھر

واضح کردوں کہ 1990 سے پہلے عابد سے نہ میری شناسائی رہی اور نہ عابد کے مزاج میں چاپلوسانہ منفی رجحان کے ذریعے مجھ تک پہنچنے کی طلب رہی،بلکہ ہمتوں اور انسانی فکری آزادی کے اس جولانہ طبیعت کے عابد سے میری وابستگی اس وقت ہوئی جب ہم سب سر پھرے ترقی پسند فکر کے لکھنے والے ''انجمن ترقی پسند مصنفین'' کے تاریخی ورثے اور سماج کے اذہان میں نظریات کی آفرینی لیے ریاستی ظلم و جبر سے بے پرواہ ''انجمن ترقی پسند'' کی ازسر نو تجدید کر رہے تھے۔

میری خوش قسمتی تھی کہ میری کمیونسٹ پارٹی اور میرے نظریاتی استاد کامریڈ امام علی نازش نے مجھ پر اعتبار کیا،جن میں جون ایلیا،زاہدہ حنا،ڈاکٹر مظہر حیدر،اظہر عباس اور ندیم اختر سر فہرست تھے،جب کہ بعد میں ہمارے اس قافلے کی سر پرستی ناول نگار شوکت صدیقی،رفیق چوہدری، پروفیسر عتیق، حسن عابدی، خالد علیگ، قمر ساحری، سلیم راز، ظہیر کاشمیری اور حمید اختر نے کی،اور انجمن ترقی پسند تحریک کی فکر کا یہ کارواں پورے ملک کے ترقی پسند خیالات کی آواز بن گیا۔

اسی دوران ترقی پسند خیالات کی تخلیقی صلاحیت سے مالا مال دوست مقصود خالق اور عابد حسین عابد نے مجھ سے رابطہ کیا اور انجمن کے منشور تحت پنجاب اور بطور خاص لاہور میں انجمن کے ترقی پسند نظریئے کا علم اٹھایا اور اب تک استقامت سے انجمن ترقی پسند مصنفین کے روشن خیال خیالات کی آبیاری میں جتے ہوئے ہیں۔

عابد حسین عابد کے دیرینہ رفیق مقصود خالق نے سچ ہی تو لکھا ہے کہ ''رات کے حصار میں'' کی شاعری واضح طور پر متشدد اور انتہا پسند رویوں کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ ہمارے سامنے لاتی ہے،مقصود کے نزدیک عابد حسین عابد کا بیشتر کلام ہمارے نوجوانوں کی ذہن سازی اور تربیت کے لیے نصاب تک کا حصہ ہونا چاہیے،اسی طرح ہمارے عہد اور سرزمین پنجاب کے بے باک ادیب و شاعر اسلم گورداسپوری نے انسانی مساوات کے پرتو شاعری کی نشاندہی کرتے ہوئے عابد حسین عابد کا کمال شعر درج کیا ہے کہ...


تم کون سی زنجیر سے باندھو گے ارادے
اب شور مساوات تو ہر گھر سے اٹھے گا

اسی طرح بے عملی کے شکار اور بوسیدہ سامراجی و سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے رسیاؤں سے عابد حسین عابد ہم کلام ہیں کہ...

گھر بیٹھ کے ظالم کی مذمت نہیں کافی
سڑکوں پہ مرے یار اب آنا تو پڑے گا

اسلم گورداسپوری نے درست لکھا کہ عابد حسین عابد کا ذہن چونکہ ایک انسانی ذہن ہے،جو ہر ظلم کے استحصالی رواج کو تبدیل کردینا چاہتا ہے،ظلم اور ظالموں کو بے نقاب کرنا چاہتا ہے،سو کہتا ہے کہ...

اس سے پہلے شہر میں دفن کا رواج تھا
ہم کھنچے جو دار پر رسم ہی بدل گئی

عابد حسین عابد کی شاعری اور فکر آج کے مستقل استحصال زدہ سماج اور سامراجی دلالوں کے خلاف وہ طاقتور آواز ہے جو نہ صرف ترقی پسند تحریک کا فخر ہے بلکہ انسان کی أزادی کا وہ شعوری استعارہ ہے جو میرے وطن کو اعلیٰ طبقے کے استحصال کرنے والے ،تمام عوام دشمن سے نجات دلانے کا واحد راستہ ہے...وگرنہ پھر بقول عابد حسین عابد...

ملوں کو بیچ ادارے بیچ
دو سو کیا تو سارے بیچ

نرخ بڑھا سب چیزوں کے
سستے خواب ہمارے بیچ

دھوپ، ہوا پر ٹیکس لگا
دریا بیچ،کنارے بیچ

کچھ نہ بچے جب بکنے کو
خوش فہمی کے مارے بیچ
Load Next Story