ہمیں سمجھ نہیں آتی
شہد کے چھتے میں جو عام مکھیاں اڑتی پھرتی نظر آتی ہیں، وہ نہ ہیئوں میں ہوتی ہیں نہ شیئوں میں
یہ تو ہم نہیں جانتے کہ اﷲ کو انسان کی کونسی اورکیسی ادا پسند آجاتی ہے کیوں کہ یہ بہت نازک اورحساس معاملات ہیں اورصرف علماء و فضلا اوردانا دانشورہی اس پر بول سکتے ہیں، مطلب یہ کہ ہم جسے ھما شما یا بے علم اور عام لوگ اس پر رائے زنی نہیں کرسکتے لیکن جو بات ہماری عقلدانی میں آتی ہے وہ تو یہ ہے کہ طاقتور طبقے کو غریب عوام کے لیے اپنی ''قربانی'' دینا بہت پسند ہے۔
وہ ایک میاں بیوی اپنی شادی کی سالگرہ کی تقریب کا پروگرام بنارہے تھے۔ بیوی نے کہا ،کیوں نہ سالگرہ پر ایک دنبہ ذبح کردیں۔ شوہر نے کہا جو چاہوکرو لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ سالگرہ ہماری ہے،اس میں بیچارے دنبے کاکیا قصور ہے ، وہ توقطعی بے گناہ وبے قصور ہے بلکہ اسے پتہ بھی نہیں ہے آج ہماری شادی ہے، اس شادی کی سالگرہ کی خوشی اور جشن منانے کے لیے اسے جان سے گزرنا ہوگا، وہ توآرام سے چر رہا ہوگا یا کہیں بیٹھا جگالی کررہا ہوگا کہ اچانک اسے پکڑ کر سالگرہ منالی جاتی ہے ۔
ہمارے پشتونوں میں رواج ہے کہ چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑوں کا جب جرگے میں فیصلہ ہوتاہے تو قصور وار فریق کو ایک، دو یاکئی ''دنبے'' لانے کا کہہ دیا جاتا ہے، وہ دنبے خرید کر دوسرے فریق کے پاس جرگہ سمیت جاتاہے ، دنبے فوراً ذبح کردیے جاتے ہیں اورفریقین کے علاوہ جرگہ والے اور متعلیقین اسے ہڑپ کرلیتے ہیں ، اس پورے قصے میں دنبے نے کوئی قصورنہیں کیا ہوتا، نہ اس نے فریقین کو لڑایا ہوتاہے، نہ راضی کیاہوتا ہے اور انھیں جانتا ہوتا ہے، یہ کچھ ویسی ہی بات ہے کہ
وہ بات سارے فسانے میں جس کاذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
خیر یہ تو سالگرہ اور جرگے کا معاملہ ہوتا ہے ، جس میں دنبہ صاحب اپنی جان کی قربانی دے کر لڑائی جھگڑا ختم کراتا لیکن ہمارے لیڈر کرام اور رہنمایان عظام دو قدم آگے ہیں، وہ دنبے کی قربانی نہیں بلکہ اپنی ''قربانی'' دیتے ہیں ، وہ بھی اپنے عوام کے لیے ۔ یہ لوگ ''قربانی'' کے اتنے رسیا ہیں کہ بات بات پر ''قربانی'' دینے کو تل جاتے ہیں اورخون کے آخری قطرے تک کو قربان کر ڈالتے ہیں کیوں کہ خون کے پہلے قطرے سے لے کر سیکنڈ لاسٹ قطرے تک تو وہ خود ان کالانعاموں کے چوس چکے ہوتے ہیں چونکہ قربانی دینا ان کا روزکاکام ہے ،اس سلسلے میں پہلے سے بہت سارے کالانعام جمع رکھتے ہیں جنھیں یہ اپنی زبان میں ''کارکن''کہتے ہیں اوریہ ہوتے بھی کارکن مکھیوںکی طرح ہیں۔
شہد کے چھتے میں جو عام مکھیاں اڑتی پھرتی نظر آتی ہیں، وہ نہ ہیئوں میں ہوتی ہیں نہ شیئوں میں، صرف کارکن ہوتی ہیں ،صبح سویرے منہ اندھیرے اڑتی ہیں، پھول پھول سے رس اکٹھا کرکے چھتے میں پہنچاتی ہیں ،آندھیوں، طوفانوں بارشوں یا انسانوں حیوانوں کاشکار ہوتی رہتی ہیں اور چھتے میں آرام سے بیٹھے ہوئے نکھٹوئوں اور ملکہ کو پالتی ہیں ، بہرحال قربانی کا یہ نظریہ یافلسفہ ہماری سمجھ دانی میں کبھی نہیں آیا ،کہ قربان عوام ہوتے ہیں اورمونچھوں کو تائو سرمایہ دار دیتاہے کہ میں نے ''قربانی'' دے دی ہے ۔
ویسے تو جانور قربان کرنے کے سلسلے میں مسلمان سب سے آگے ہیں، یہ قربانی کے معاملے میں اتنے سخت اورکٹرہیں کہ عید قربان کے وقت جانور کی قربانی بڑے مذہبی جوش و لولے سے کرتے ہیں ، یہاں تک دیگر مذہبی فرائض تک کی قربانی دے ڈالتے ہیں۔ زکواۃ دینیکی تو خیر کوئی پرواہ ہی نہیں کرتا ،حالانکہ وہ فرض ہے اورقربانی واجب ہے لیکن جذبہ تو جذبہ ہوتاہے۔
شاید اس لیے کہ قربانی میں ''ثواب دارین'' ملتا ہے ،قربانی کی قربانی اورگوشت کاگوشت بلکہ نام بھی، یہ بات ہم نے ایک مرتبہ ایک حاجی صاحب سے پوچھی جس نے قربانی کے لیے ایک بیل پندرہ لاکھ روپے میں خریدا تھا اور پھر اس بیل کو دولہا بناکر شہر میں پھراتا تھا ۔ہم نے اس سے پوچھا،حاجی صاحب کبھی زکواۃ بھی دی ہے؟ تو بولا ، وہ کیا ہوتاہے ؟
ویسے حاجی صاحب نہ صرف ہرسال مہنگی ترین قربانی کرتے ہیں بلکہ اب تک نو حج اورچھ عمرے بھی کرچکے ہیں لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ ''قربانی'' کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہے، ہم ایک اورحاجی صاحب نہ صرف حاجی ولد حاجی ہیں بلکہ وزیر ابن وزیر بھی ہیں کو جانتے ہیں جیسے ہی الیکشن کمپین شروع ہوتی ہے،ان کے ہاں روزانہ ایک بھینس ذبح ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اس قربانی کی برکت سے وہ الیکشن کبھی نہیں ہارے ہیں بلکہ اب تو تقریباً سارا خاندان ہی ایم این ایز، ایم پی ایز، سینٹرز اور وزیروں کا ہوچکا ہے اورلوگ اسے اس روزانہ ایک بھینس کی قربانی کانتیجہ سمجھتے ہیں اور یہی سچ ہے ورنہ اس کے مقابلے میں کتنے آئے اورمنہ کی کھا کر چلے گئے، اس لیے کہ وہ ''قربانی'' کے فلسفے سے آگاہ نہیں تھے، ان سارے حالات و واقعات سے جو بات ہماری سمجھ دانی میں بیٹھ گئی ہے وہ یہ کہ ''قربانی'' کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور یہ کہ ہم عامیوں بھی کو پیاری ہے اپنی ''قربانی''۔
نہ تھی دنیائے غم میں دل کی عظمت
تمنائوں کی قربانی سے پہلے
اس ساری بحث میں یہ سوال حل نہیں ہوپایا کہ جو ''ذبح اور قربان'' ہوتے انعام یاکالانعام ہیں۔ان کاا سٹیٹس کیا ہے ؟
وہ ایک میاں بیوی اپنی شادی کی سالگرہ کی تقریب کا پروگرام بنارہے تھے۔ بیوی نے کہا ،کیوں نہ سالگرہ پر ایک دنبہ ذبح کردیں۔ شوہر نے کہا جو چاہوکرو لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ سالگرہ ہماری ہے،اس میں بیچارے دنبے کاکیا قصور ہے ، وہ توقطعی بے گناہ وبے قصور ہے بلکہ اسے پتہ بھی نہیں ہے آج ہماری شادی ہے، اس شادی کی سالگرہ کی خوشی اور جشن منانے کے لیے اسے جان سے گزرنا ہوگا، وہ توآرام سے چر رہا ہوگا یا کہیں بیٹھا جگالی کررہا ہوگا کہ اچانک اسے پکڑ کر سالگرہ منالی جاتی ہے ۔
ہمارے پشتونوں میں رواج ہے کہ چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑوں کا جب جرگے میں فیصلہ ہوتاہے تو قصور وار فریق کو ایک، دو یاکئی ''دنبے'' لانے کا کہہ دیا جاتا ہے، وہ دنبے خرید کر دوسرے فریق کے پاس جرگہ سمیت جاتاہے ، دنبے فوراً ذبح کردیے جاتے ہیں اورفریقین کے علاوہ جرگہ والے اور متعلیقین اسے ہڑپ کرلیتے ہیں ، اس پورے قصے میں دنبے نے کوئی قصورنہیں کیا ہوتا، نہ اس نے فریقین کو لڑایا ہوتاہے، نہ راضی کیاہوتا ہے اور انھیں جانتا ہوتا ہے، یہ کچھ ویسی ہی بات ہے کہ
وہ بات سارے فسانے میں جس کاذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
خیر یہ تو سالگرہ اور جرگے کا معاملہ ہوتا ہے ، جس میں دنبہ صاحب اپنی جان کی قربانی دے کر لڑائی جھگڑا ختم کراتا لیکن ہمارے لیڈر کرام اور رہنمایان عظام دو قدم آگے ہیں، وہ دنبے کی قربانی نہیں بلکہ اپنی ''قربانی'' دیتے ہیں ، وہ بھی اپنے عوام کے لیے ۔ یہ لوگ ''قربانی'' کے اتنے رسیا ہیں کہ بات بات پر ''قربانی'' دینے کو تل جاتے ہیں اورخون کے آخری قطرے تک کو قربان کر ڈالتے ہیں کیوں کہ خون کے پہلے قطرے سے لے کر سیکنڈ لاسٹ قطرے تک تو وہ خود ان کالانعاموں کے چوس چکے ہوتے ہیں چونکہ قربانی دینا ان کا روزکاکام ہے ،اس سلسلے میں پہلے سے بہت سارے کالانعام جمع رکھتے ہیں جنھیں یہ اپنی زبان میں ''کارکن''کہتے ہیں اوریہ ہوتے بھی کارکن مکھیوںکی طرح ہیں۔
شہد کے چھتے میں جو عام مکھیاں اڑتی پھرتی نظر آتی ہیں، وہ نہ ہیئوں میں ہوتی ہیں نہ شیئوں میں، صرف کارکن ہوتی ہیں ،صبح سویرے منہ اندھیرے اڑتی ہیں، پھول پھول سے رس اکٹھا کرکے چھتے میں پہنچاتی ہیں ،آندھیوں، طوفانوں بارشوں یا انسانوں حیوانوں کاشکار ہوتی رہتی ہیں اور چھتے میں آرام سے بیٹھے ہوئے نکھٹوئوں اور ملکہ کو پالتی ہیں ، بہرحال قربانی کا یہ نظریہ یافلسفہ ہماری سمجھ دانی میں کبھی نہیں آیا ،کہ قربان عوام ہوتے ہیں اورمونچھوں کو تائو سرمایہ دار دیتاہے کہ میں نے ''قربانی'' دے دی ہے ۔
ویسے تو جانور قربان کرنے کے سلسلے میں مسلمان سب سے آگے ہیں، یہ قربانی کے معاملے میں اتنے سخت اورکٹرہیں کہ عید قربان کے وقت جانور کی قربانی بڑے مذہبی جوش و لولے سے کرتے ہیں ، یہاں تک دیگر مذہبی فرائض تک کی قربانی دے ڈالتے ہیں۔ زکواۃ دینیکی تو خیر کوئی پرواہ ہی نہیں کرتا ،حالانکہ وہ فرض ہے اورقربانی واجب ہے لیکن جذبہ تو جذبہ ہوتاہے۔
شاید اس لیے کہ قربانی میں ''ثواب دارین'' ملتا ہے ،قربانی کی قربانی اورگوشت کاگوشت بلکہ نام بھی، یہ بات ہم نے ایک مرتبہ ایک حاجی صاحب سے پوچھی جس نے قربانی کے لیے ایک بیل پندرہ لاکھ روپے میں خریدا تھا اور پھر اس بیل کو دولہا بناکر شہر میں پھراتا تھا ۔ہم نے اس سے پوچھا،حاجی صاحب کبھی زکواۃ بھی دی ہے؟ تو بولا ، وہ کیا ہوتاہے ؟
ویسے حاجی صاحب نہ صرف ہرسال مہنگی ترین قربانی کرتے ہیں بلکہ اب تک نو حج اورچھ عمرے بھی کرچکے ہیں لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ ''قربانی'' کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہے، ہم ایک اورحاجی صاحب نہ صرف حاجی ولد حاجی ہیں بلکہ وزیر ابن وزیر بھی ہیں کو جانتے ہیں جیسے ہی الیکشن کمپین شروع ہوتی ہے،ان کے ہاں روزانہ ایک بھینس ذبح ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اس قربانی کی برکت سے وہ الیکشن کبھی نہیں ہارے ہیں بلکہ اب تو تقریباً سارا خاندان ہی ایم این ایز، ایم پی ایز، سینٹرز اور وزیروں کا ہوچکا ہے اورلوگ اسے اس روزانہ ایک بھینس کی قربانی کانتیجہ سمجھتے ہیں اور یہی سچ ہے ورنہ اس کے مقابلے میں کتنے آئے اورمنہ کی کھا کر چلے گئے، اس لیے کہ وہ ''قربانی'' کے فلسفے سے آگاہ نہیں تھے، ان سارے حالات و واقعات سے جو بات ہماری سمجھ دانی میں بیٹھ گئی ہے وہ یہ کہ ''قربانی'' کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور یہ کہ ہم عامیوں بھی کو پیاری ہے اپنی ''قربانی''۔
نہ تھی دنیائے غم میں دل کی عظمت
تمنائوں کی قربانی سے پہلے
اس ساری بحث میں یہ سوال حل نہیں ہوپایا کہ جو ''ذبح اور قربان'' ہوتے انعام یاکالانعام ہیں۔ان کاا سٹیٹس کیا ہے ؟