پی ٹی آئی نے آڈیو لیکس پر جوڈیشل کمیشن کا قیام سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
چیف جسٹس کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کیلیے نامزد نہیں کیا جاسکتا، کمیشن کو کالعدم قرار دیا جائے، پی ٹی آئی
تحریک انصاف نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی۔ یہ درخواست پی ٹی آئی کی جانب سے ایڈوکیٹ بابر اعوان کے توسط سے دائر کی گئی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔
یہ پڑھیں : جوڈیشل کمیشن کا آڈیو لیکس کے فرانزک ٹیسٹ کرانے اور کارروائی پبلک کرنے کا فیصلہ
درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے خلاف ایک اور درخواست دائر
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے خلاف ایک اور درخواست دائر کردی گئی جسے درخواست گزار وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے دائر کیا گیا ہے۔ درخواست میں حکومت پاکستان اور جوائنٹ سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے، جوڈیشل کمیشن کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، درخواست گزار سمیت عوام کے آئین میں دیئے گئے قیمتی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو متاثر کیا جا رہا ہے اور عوام کی انصاف تک رسائی سے انکار کیا جا رہا ہے، عدلیہ کے حاضر سروس ججوں کو ادارے کے چیف جسٹس پاکستان کی پیشگی اجازت کے بغیر انکوائری کمیشن کا ممبر بنایا گیا، اگر ادارے کا ماتحت کسی اور کام میں مصروف ہو تو ادارے کا سربراہ انتظامی کارروائی کر سکتا ہے۔
درخواست گزار وکیل کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹس کے دو چیف جسٹس صاحبان کو کمیشن کا ممبر بنایا گیا ہے اور ان کی غیر موجودگی میں متعلقہ صوبوں کے عدالتی کام کو نقصان پہنچے گا، کمیشن کے ممبران ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل 6 اور 7 کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جوڈیشل کنڈکٹ کی تحقیقات انکوائری کمیشن کے ذریعے کرنا عدلیہ کی آزادی کے تصور کے خلاف ہے۔
موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 209 (7) کے تحت آئینی عدالتوں کے ججوں کے خلاف انکوائری کا کوئی دوسرا طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا، انکوائری مکمل ہونے کے باوجود کوئی کارآمد مقصد پورا نہیں ہوگا کیونکہ ماضی میں کئی انکوائریوں پر عمل درآمد ہونا باقی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے براڈ شیٹ کمیشن میں جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید کی انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
موقف میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا مذکورہ انکوائری رپورٹ میں صرف حقائق سامنے لائے گئے ہیں اس پر عمل درآمد لازم نہیں، حکومت عوامی وسائل کو اپنی انا کی تسکین کے لیے استعمال نہیں کرسکتی، انکوائری کمیشن کی تشکیل عدلیہ کو کمزور کرنے اور ججز کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ انکوائری کمیشن کا نوٹی فکیشن عوامی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ ذاتی مقاصد کے لیے جاری کیا گیا ہے، ججوں کے جوڈیشل کنڈکٹ کو مختلف قوانین اور جوڈیشل آفیسرز پروٹیکشن ایکٹ 1850 کے تحت تحفظ حاصل ہے، درخواست میں اٹھایا گیا نکتہ فوری نوعیت کا ہے اور ازخودنوٹس کے لیے عوامی اہمیت کا ہے، معاملے کی اہمیت کے پیش نظر درخواست کسی متبادل فورم کی بجائے براہِ راست سپریم کورٹ میں دائر کی جا رہی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی۔ یہ درخواست پی ٹی آئی کی جانب سے ایڈوکیٹ بابر اعوان کے توسط سے دائر کی گئی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔
یہ پڑھیں : جوڈیشل کمیشن کا آڈیو لیکس کے فرانزک ٹیسٹ کرانے اور کارروائی پبلک کرنے کا فیصلہ
درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے خلاف ایک اور درخواست دائر
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے خلاف ایک اور درخواست دائر کردی گئی جسے درخواست گزار وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے دائر کیا گیا ہے۔ درخواست میں حکومت پاکستان اور جوائنٹ سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے، جوڈیشل کمیشن کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، درخواست گزار سمیت عوام کے آئین میں دیئے گئے قیمتی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو متاثر کیا جا رہا ہے اور عوام کی انصاف تک رسائی سے انکار کیا جا رہا ہے، عدلیہ کے حاضر سروس ججوں کو ادارے کے چیف جسٹس پاکستان کی پیشگی اجازت کے بغیر انکوائری کمیشن کا ممبر بنایا گیا، اگر ادارے کا ماتحت کسی اور کام میں مصروف ہو تو ادارے کا سربراہ انتظامی کارروائی کر سکتا ہے۔
درخواست گزار وکیل کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹس کے دو چیف جسٹس صاحبان کو کمیشن کا ممبر بنایا گیا ہے اور ان کی غیر موجودگی میں متعلقہ صوبوں کے عدالتی کام کو نقصان پہنچے گا، کمیشن کے ممبران ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل 6 اور 7 کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جوڈیشل کنڈکٹ کی تحقیقات انکوائری کمیشن کے ذریعے کرنا عدلیہ کی آزادی کے تصور کے خلاف ہے۔
موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 209 (7) کے تحت آئینی عدالتوں کے ججوں کے خلاف انکوائری کا کوئی دوسرا طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا، انکوائری مکمل ہونے کے باوجود کوئی کارآمد مقصد پورا نہیں ہوگا کیونکہ ماضی میں کئی انکوائریوں پر عمل درآمد ہونا باقی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے براڈ شیٹ کمیشن میں جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید کی انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
موقف میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا مذکورہ انکوائری رپورٹ میں صرف حقائق سامنے لائے گئے ہیں اس پر عمل درآمد لازم نہیں، حکومت عوامی وسائل کو اپنی انا کی تسکین کے لیے استعمال نہیں کرسکتی، انکوائری کمیشن کی تشکیل عدلیہ کو کمزور کرنے اور ججز کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ انکوائری کمیشن کا نوٹی فکیشن عوامی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ ذاتی مقاصد کے لیے جاری کیا گیا ہے، ججوں کے جوڈیشل کنڈکٹ کو مختلف قوانین اور جوڈیشل آفیسرز پروٹیکشن ایکٹ 1850 کے تحت تحفظ حاصل ہے، درخواست میں اٹھایا گیا نکتہ فوری نوعیت کا ہے اور ازخودنوٹس کے لیے عوامی اہمیت کا ہے، معاملے کی اہمیت کے پیش نظر درخواست کسی متبادل فورم کی بجائے براہِ راست سپریم کورٹ میں دائر کی جا رہی ہے۔