آڈیو لیکس پر انکوائری کمیشن
سپریم کورٹ کے سنیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس انکوائری کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ہے
حکومت پاکستان نے آڈیو لیکس کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن قائم کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سنیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس انکوائری کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ہے، ان کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس نعیم اختر اس انکوائری کمیشن کے ممبران بنایا گیاہے۔
حکومت پاکستان نے اس انکوائری کمیشن کو آٹھ مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کا مینڈیٹ دیا ہے۔ جن آٹھ مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے، ان میں چوہدری پرویز الٰہی کی تین مبینہ آڈیوز ہیں۔ اس کے ساتھ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سنیئر وکیل خواجہ طارق رحیم کے ساتھ مبینہ گفتگو ہے۔ پھر خواجہ طارق رحیم کی ایک سنیئر صحافی کے ساتھ گفتگو بھی تحقیقات کے لیے منتخب کی جانے والی آڈیوز میں شامل ہے۔ نیب کی حراست میں عمران خان کی تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ کے ساتھ مبینہ آڈیو بھی شامل ہے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی ٹکٹ کے معاملے پر تحریک انصاف کی ٹکٹ ہولڈر ابوذر سے گفتگو بھی شامل ہے۔پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر علی افضل ساہی کے معاملے پر بھی تحقیقات شامل ہے۔ علی افضل ساہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے دامادہیں ، مسلم لیگ (ن) الزام لگاتی ہے کہ وہ تحریک انصاف کو لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف دلوانے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہیں،کمیشن کو اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری پرویز الٰہی کی جسٹس مظاہر علی نقوی کے ساتھ مبینہ گفتگو ایک اہم آڈیو ہے۔ اسی طرح جسٹس مظاہر علی نقوی کی عدالت میں کیس لگوانے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کی اپنے وکلاء کے ساتھ گفتگو بھی اہم ہے۔
اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ جسٹس مظا ہر علی نقوی کے چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ ان کے کیس بھی سنتے رہے ہیں۔ تو یہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ آپ اپنی ذ اتی تعلق والے لوگوں کے کیس بھی خود نہیں سن سکتے۔ پھر کیس خاص طور پر ان کے پاس لگوانے کی مبینہ آڈیو بھی اہم ہوگی۔
جہاں تک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی بات ہے تو وہ ایک ریٹائرڈ آدمی ہیں، ان کی سیاسی وابستگی ہو سکتی ہے، اگر ان کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف کے ساتھ ثابت بھی ہو جاتی ہے تو بھی یہ کوئی جرم نہیں۔ یہ ایک سیاسی بیانیہ تو ہو سکتا ہے کہ چونکہ ان کی تحریک انصاف کے ساتھ ہمدردیاں ہیںلہٰذا انھوں نے بطور چیف جسٹس تحریک انصاف اور عمران خان کے حق میں جو فیصلے کیے ہیں وہ بھی اسی ہمدردی کی وجہ سے ہیں۔ لیکن اس پر کوئی کارروائی ممکن نہیں ہو سکتی ہے ۔ لیکن اگر کمیشن بدنیتی قرار دے دیتا ہے تو یہ بھی کافی ہوگا۔
اسی طرح ثاقب نثار کے بیٹے کی ٹکٹ کی خریدو فروخت کے حوالہ سے گفتگو بھی شامل ہے۔ اگر خریدو فروخت ثابت ہو جاتی ہے تو کارروائی ہو سکتی ہے۔ سب سے اہم آڈیو چیف جسٹس پاکستان کی ساس کی خواجہ طارق رحیم کی بیگم کے ساتھ گفتگو ہے۔
جس کا مشہور فقرہ ہے کہ کمبخت مارشل لاء بھی نہیں لگاتے، اس کی بھی محض سیاسی اہمیت ہے، اس میں کوئی جرم نہیں بنتا۔ اس سے عمران خان کے لیے ہمدردی ثابت ہو سکتی ہے، جرم کوئی نہیںبنتا۔ اس لیے کوئی کارروائی بھی نہیں بنتی، البتہ سیاسی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ کمیشن کام کر سکے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ کوئی بھی متاثرہ فریق عدالت میں جائے گا اور اس کمیشن کو کام سے روک دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر پرویز الٰہی جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے صدر جا سکتے ہیں کیونکہ ان کی بھی آڈیو بھی ہے۔
اس لیے ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ یہ کمیشن بن تو گیا ہے لیکن اس کو کام کرنے سے روک دیا جائے گا۔ لیکن اس کو کام سے روکنے سے بھی تنازعہ پیدا ہوگا جو عدلیہ کو مزید تقسیم کرے گا۔ ا س کمیشن کو تمام انکوائری مکمل کرنے کے لیے تیس دن دیے گئے ہیں۔ تا ہم اگر اس کو مزید وقت درکا رہو تو یہ مزید وقت مانگ سکتا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ کام تیس دن میں مکمل ہو سکتے ہیں۔
عمران خان نے اس کمیشن کو مسترد کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ تحقیقات یہ ہونی چاہیے کہ یہ آڈیوز ریکارڈ کون کرتا ہے۔ اس کمیشن کو یہ نہیں کہا گیا کہ وہ یہ پتہ کرے کہ آڈیوز ریکارڈ کون کرتا ہے۔ بلکہ ان آڈیوز کی سچائی جاننے کے لیے کمیشن بنایا گیا ہے۔ میں ان آڈیوز کی ریکارڈنگ کے حق میں نہیں ہوں۔ لیکن میرے لیے ان کی سچائی بھی اہم ہے۔ جہاں ان کی ریکارڈنگ غلط ہے، وہاں ان کے ذریعے سچ بھی عوام کے سامنے آیا ہے۔
سچ کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بینچ فکسنگ کے حقائق سامنے آنا چاہیے۔ ٹکٹوں کی خریدو فروخت بھی سامنے آنی چاہیے۔ قوم کو پتہ ہونا چاہیے کہ سابق چیف جسٹس کی کیا خدمات ہیں کہ ان کے کہنے پر ٹکٹیں بدل دی جاتی ہیں۔ اور ان کے عوض کیا وصول کیا جاتاہے۔ یہ کرپشن کا بھی معاملہ ہے۔ اس پر مقدمہ بن سکتا ہے۔
جہا ںتک علی افضل ساہی کا معاملہ ہے۔اس پر کافی سیاسی تنازعہ موجود ہے۔ ان کے ضمنی الیکشن کا معاملہ بھی بہت تنازعہ کا شکار ہوا تھا۔ اس کے بعد بھی کافی مقدمات پر بھی یہی تاثر رہا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ریلیف علی افضل ساہی کی وجہ سے مل رہا ہے۔
اسی طرح سیاسی حلقوں میں یہ رائے بھی ہے کہ عمران خان بنی گالہ سے زمان پارک بھی اسی لیے شفٹ ہوئے ہیں کہ وہ خود کو لاہور میں اسلام آبادسے زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔ عمران خان کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بارے میں ریمارکس بھی ایک آڈیو میں سامنے آگئے ہیں۔
پنجاب حکومت کی تبدیلی میں بھی عدلیہ کے فیصلوں پر سوال ہے۔ پھر جب گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے کہا تب بھی عدلیہ نے پندرہ دن کی مہلت دے دی جس نے اعتماد کے ووٹ کے لیے راہ ہموار کی ۔ اگر وہ مہلت نہ ملتی تو اعتماد کا ووٹ ممکن نہیں تھا۔
ویسے اگر چیف جسٹس پاکستان بروقت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا لیتے اور معاملات وہاں طے ہو جاتے تو شایداس انکوائری کمیشن کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس نہ بلا کر جو بحران پیدا کیا گیا ہے۔ یہ انکوائری کمیشن بھی اس کی وجہ سے بنا ہے۔
حکومت پاکستان نے اس انکوائری کمیشن کو آٹھ مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کا مینڈیٹ دیا ہے۔ جن آٹھ مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے، ان میں چوہدری پرویز الٰہی کی تین مبینہ آڈیوز ہیں۔ اس کے ساتھ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سنیئر وکیل خواجہ طارق رحیم کے ساتھ مبینہ گفتگو ہے۔ پھر خواجہ طارق رحیم کی ایک سنیئر صحافی کے ساتھ گفتگو بھی تحقیقات کے لیے منتخب کی جانے والی آڈیوز میں شامل ہے۔ نیب کی حراست میں عمران خان کی تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ کے ساتھ مبینہ آڈیو بھی شامل ہے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی ٹکٹ کے معاملے پر تحریک انصاف کی ٹکٹ ہولڈر ابوذر سے گفتگو بھی شامل ہے۔پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر علی افضل ساہی کے معاملے پر بھی تحقیقات شامل ہے۔ علی افضل ساہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے دامادہیں ، مسلم لیگ (ن) الزام لگاتی ہے کہ وہ تحریک انصاف کو لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف دلوانے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہیں،کمیشن کو اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری پرویز الٰہی کی جسٹس مظاہر علی نقوی کے ساتھ مبینہ گفتگو ایک اہم آڈیو ہے۔ اسی طرح جسٹس مظاہر علی نقوی کی عدالت میں کیس لگوانے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کی اپنے وکلاء کے ساتھ گفتگو بھی اہم ہے۔
اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ جسٹس مظا ہر علی نقوی کے چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ ان کے کیس بھی سنتے رہے ہیں۔ تو یہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ آپ اپنی ذ اتی تعلق والے لوگوں کے کیس بھی خود نہیں سن سکتے۔ پھر کیس خاص طور پر ان کے پاس لگوانے کی مبینہ آڈیو بھی اہم ہوگی۔
جہاں تک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی بات ہے تو وہ ایک ریٹائرڈ آدمی ہیں، ان کی سیاسی وابستگی ہو سکتی ہے، اگر ان کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف کے ساتھ ثابت بھی ہو جاتی ہے تو بھی یہ کوئی جرم نہیں۔ یہ ایک سیاسی بیانیہ تو ہو سکتا ہے کہ چونکہ ان کی تحریک انصاف کے ساتھ ہمدردیاں ہیںلہٰذا انھوں نے بطور چیف جسٹس تحریک انصاف اور عمران خان کے حق میں جو فیصلے کیے ہیں وہ بھی اسی ہمدردی کی وجہ سے ہیں۔ لیکن اس پر کوئی کارروائی ممکن نہیں ہو سکتی ہے ۔ لیکن اگر کمیشن بدنیتی قرار دے دیتا ہے تو یہ بھی کافی ہوگا۔
اسی طرح ثاقب نثار کے بیٹے کی ٹکٹ کی خریدو فروخت کے حوالہ سے گفتگو بھی شامل ہے۔ اگر خریدو فروخت ثابت ہو جاتی ہے تو کارروائی ہو سکتی ہے۔ سب سے اہم آڈیو چیف جسٹس پاکستان کی ساس کی خواجہ طارق رحیم کی بیگم کے ساتھ گفتگو ہے۔
جس کا مشہور فقرہ ہے کہ کمبخت مارشل لاء بھی نہیں لگاتے، اس کی بھی محض سیاسی اہمیت ہے، اس میں کوئی جرم نہیں بنتا۔ اس سے عمران خان کے لیے ہمدردی ثابت ہو سکتی ہے، جرم کوئی نہیںبنتا۔ اس لیے کوئی کارروائی بھی نہیں بنتی، البتہ سیاسی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ کمیشن کام کر سکے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ کوئی بھی متاثرہ فریق عدالت میں جائے گا اور اس کمیشن کو کام سے روک دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر پرویز الٰہی جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے صدر جا سکتے ہیں کیونکہ ان کی بھی آڈیو بھی ہے۔
اس لیے ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ یہ کمیشن بن تو گیا ہے لیکن اس کو کام کرنے سے روک دیا جائے گا۔ لیکن اس کو کام سے روکنے سے بھی تنازعہ پیدا ہوگا جو عدلیہ کو مزید تقسیم کرے گا۔ ا س کمیشن کو تمام انکوائری مکمل کرنے کے لیے تیس دن دیے گئے ہیں۔ تا ہم اگر اس کو مزید وقت درکا رہو تو یہ مزید وقت مانگ سکتا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ کام تیس دن میں مکمل ہو سکتے ہیں۔
عمران خان نے اس کمیشن کو مسترد کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ تحقیقات یہ ہونی چاہیے کہ یہ آڈیوز ریکارڈ کون کرتا ہے۔ اس کمیشن کو یہ نہیں کہا گیا کہ وہ یہ پتہ کرے کہ آڈیوز ریکارڈ کون کرتا ہے۔ بلکہ ان آڈیوز کی سچائی جاننے کے لیے کمیشن بنایا گیا ہے۔ میں ان آڈیوز کی ریکارڈنگ کے حق میں نہیں ہوں۔ لیکن میرے لیے ان کی سچائی بھی اہم ہے۔ جہاں ان کی ریکارڈنگ غلط ہے، وہاں ان کے ذریعے سچ بھی عوام کے سامنے آیا ہے۔
سچ کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بینچ فکسنگ کے حقائق سامنے آنا چاہیے۔ ٹکٹوں کی خریدو فروخت بھی سامنے آنی چاہیے۔ قوم کو پتہ ہونا چاہیے کہ سابق چیف جسٹس کی کیا خدمات ہیں کہ ان کے کہنے پر ٹکٹیں بدل دی جاتی ہیں۔ اور ان کے عوض کیا وصول کیا جاتاہے۔ یہ کرپشن کا بھی معاملہ ہے۔ اس پر مقدمہ بن سکتا ہے۔
جہا ںتک علی افضل ساہی کا معاملہ ہے۔اس پر کافی سیاسی تنازعہ موجود ہے۔ ان کے ضمنی الیکشن کا معاملہ بھی بہت تنازعہ کا شکار ہوا تھا۔ اس کے بعد بھی کافی مقدمات پر بھی یہی تاثر رہا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ریلیف علی افضل ساہی کی وجہ سے مل رہا ہے۔
اسی طرح سیاسی حلقوں میں یہ رائے بھی ہے کہ عمران خان بنی گالہ سے زمان پارک بھی اسی لیے شفٹ ہوئے ہیں کہ وہ خود کو لاہور میں اسلام آبادسے زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔ عمران خان کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بارے میں ریمارکس بھی ایک آڈیو میں سامنے آگئے ہیں۔
پنجاب حکومت کی تبدیلی میں بھی عدلیہ کے فیصلوں پر سوال ہے۔ پھر جب گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے کہا تب بھی عدلیہ نے پندرہ دن کی مہلت دے دی جس نے اعتماد کے ووٹ کے لیے راہ ہموار کی ۔ اگر وہ مہلت نہ ملتی تو اعتماد کا ووٹ ممکن نہیں تھا۔
ویسے اگر چیف جسٹس پاکستان بروقت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا لیتے اور معاملات وہاں طے ہو جاتے تو شایداس انکوائری کمیشن کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس نہ بلا کر جو بحران پیدا کیا گیا ہے۔ یہ انکوائری کمیشن بھی اس کی وجہ سے بنا ہے۔