ہندوؤں کی انتہا پسندی
کرناٹک میں مودی کی عبرت ناک شکست نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے
ہر عروج کا زوال ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی انتہائی عروج پر پہنچ کر زوال کی طرف جا رہے ہیں اس کا آغاز بھارتی ریاست کرناٹک کی ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں بی جے پی کی شکست کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ کرناٹک میں مودی کی عبرت ناک شکست نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
اس شکست پر کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نفرت کا بازار بند ہو گیا ہے اور محبت کی دکان کھل گئی ہے۔ یہ انتخابی شکست ایسے موقع پر ہوئی ہے جب مسلمانوں پر ظلم و تشدد اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ ان کی جان مال عزت و آبرو یہاں تک کہ مذہب سب کچھ خطرے میں ہے۔ ان سب کے پیچھے ہند توا کی سوچ ہے ۔
ہندو مذہب اور ہند توا دو مختلف چیزیں ہیں ہندو مذہب کی تشکیل میں راجا رام موہن رائے نے اہم حصہ لیا۔ راجا رام ان برہمنوں کے قائد تھے جو مسلمانوں کو ساتھ ملا کر چلنا چاہتے تھے مگر ایسے برہمنوں کی تعداد بہت کم تھی۔ جب کہ مسلم مخالف کٹر برہمن اکثریت میں تھے۔ اسی لیے ہندو مسلم جھگڑا وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندو مذہب میں بھی ایک خدا کے عظیم ترین ہونے کا تصور ہے مگر انتہا پسند پیروکار بت پرستی کی طرف مائل ہو گئے۔ ان انتہا پسندوں کا رہنما دیانند سرسوتی تھا۔ اس نے اسلام عیسائیت کو نشانہ بنایا اسی نے ذبح گائے کے خلاف پہلی باقاعدہ مہم چلائی اور مسلمانوں کو شدھی یعنی دوبارہ ہندوبنانے کی تحریک کا آغاز کیا۔
اسی لیے بھارت کے نئے مذہب ہندتوا کا بانی سوامی دیانند سرسوتی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ہند توا کو مزید تقویت دینے میں دو اور برہمن رہنما بنکم چٹرجی اور چندر ناتھ باسو ہیں۔
بنکم چٹرجی نے اپنے ناول آنند مٹھ میں مسلمانوں کو حملہ آور اور غاصب بیان کیا۔ یہی وہ ناول ہے جس میں ایک نظم وند ے ماترم اب بھارت کا قومی ترانہ ہے۔ جب کہ چندر ناتھ باسو اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا دیس ہے اور اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ان شخصیات کا زمانہ 19ویں صدی کا ہے۔ ان انتہا پسند ہندؤں نے اپنے نظریات کے پھیلاؤ کے لیے جو پہلی مذہبی سیاسی تنظیم قائم کی اس کا نام آریہ سماج تھا اس کا بانی دیانند سرسوتی تھا۔ اس کی بنیادی حکمت عملی یہ تھی کہ بت پرستوں اور مسلمانوں کے درمیان فساد کروا کر ہندو مت کو مقبول بنایا جائے۔
اس کے بعد مزید انتہا پسند تنظیمیں بھی وجود میں آئی جس میں ہند و مہا سبھا آر ایس ایس بجرنگ دل شیوسینا وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ہندوؤں کی اکثریت اعتدال پسند رہنماؤں راجا رام موہن رائے اور سوامی و ویکند کی پیروکار تھی۔ ایسے لوگوں میں موتی لال نہرو گوپال کرشن گھوکلے سروجنی نائیڈو اور پنڈت نہرو نمایاں ہیں۔ لیکن آزادی کے فوراً بعد گاندھی جی کو انتہا پسندوں نے قتل کر دیا کیونکہ وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے سخت خلاف تھے۔
لیکن ان انتہا پسندوں کے اصل عروج کا آغاز اس وقت ہوا جب 1984میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اسی سال بی جے پی کا قیام عمل میں آیا جس نے بتدریج بھارتی اسٹیبلشمنٹ یعنی سیاست دانوں فوج عدلیہ بیوروکریسی اور میڈیا میں اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے ذریعے اثر و نفوذحاصل کر لیا اور انھیں یہ باور کرایا کہ ہند توا ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے بھارت کو ماضی قدیم کی طرح سپر پاور بنایا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی پکے شودر ہیں لیکن ان کی مسلم دشمنی ان کو اس اعلیٰ ترین عہدے پر لے گئی۔ غلامی کسی بھی قوم کے زوال کی بدترین شکل ہوتی ہے وہ بھی ہزار سال کی غلامی۔ ہندو انتہا پسند یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور غلامی ہی تھا جس میں کروڑوں ہندو مسلمان ہو گئے۔
اب وہ اس کا ازالہ شدھی کے ذریعے مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنا کر کرنا چاہتے ہیں۔ انتہا پسند ہندو مذہبی جنونی دہشت گردوں کے مطابق دو قومی نظریہ، قیام پاکستان نے جلتی پر تیل چھڑک دیا ۔ بھارت ماتا کے دو ٹکڑے ہونے کا صدمہ ان کے لیے ایک ایسا ناسور بن گیا ہے جس کی شدت حدت دکھن میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے انتہا پسندوں کے نزدیک اس کا ایک ہی حل ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں پاکستان بنگلہ دیش افغانستان اور اب حال کا مشرق وسطی۔
اس شکست پر کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نفرت کا بازار بند ہو گیا ہے اور محبت کی دکان کھل گئی ہے۔ یہ انتخابی شکست ایسے موقع پر ہوئی ہے جب مسلمانوں پر ظلم و تشدد اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ ان کی جان مال عزت و آبرو یہاں تک کہ مذہب سب کچھ خطرے میں ہے۔ ان سب کے پیچھے ہند توا کی سوچ ہے ۔
ہندو مذہب اور ہند توا دو مختلف چیزیں ہیں ہندو مذہب کی تشکیل میں راجا رام موہن رائے نے اہم حصہ لیا۔ راجا رام ان برہمنوں کے قائد تھے جو مسلمانوں کو ساتھ ملا کر چلنا چاہتے تھے مگر ایسے برہمنوں کی تعداد بہت کم تھی۔ جب کہ مسلم مخالف کٹر برہمن اکثریت میں تھے۔ اسی لیے ہندو مسلم جھگڑا وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندو مذہب میں بھی ایک خدا کے عظیم ترین ہونے کا تصور ہے مگر انتہا پسند پیروکار بت پرستی کی طرف مائل ہو گئے۔ ان انتہا پسندوں کا رہنما دیانند سرسوتی تھا۔ اس نے اسلام عیسائیت کو نشانہ بنایا اسی نے ذبح گائے کے خلاف پہلی باقاعدہ مہم چلائی اور مسلمانوں کو شدھی یعنی دوبارہ ہندوبنانے کی تحریک کا آغاز کیا۔
اسی لیے بھارت کے نئے مذہب ہندتوا کا بانی سوامی دیانند سرسوتی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ہند توا کو مزید تقویت دینے میں دو اور برہمن رہنما بنکم چٹرجی اور چندر ناتھ باسو ہیں۔
بنکم چٹرجی نے اپنے ناول آنند مٹھ میں مسلمانوں کو حملہ آور اور غاصب بیان کیا۔ یہی وہ ناول ہے جس میں ایک نظم وند ے ماترم اب بھارت کا قومی ترانہ ہے۔ جب کہ چندر ناتھ باسو اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا دیس ہے اور اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ان شخصیات کا زمانہ 19ویں صدی کا ہے۔ ان انتہا پسند ہندؤں نے اپنے نظریات کے پھیلاؤ کے لیے جو پہلی مذہبی سیاسی تنظیم قائم کی اس کا نام آریہ سماج تھا اس کا بانی دیانند سرسوتی تھا۔ اس کی بنیادی حکمت عملی یہ تھی کہ بت پرستوں اور مسلمانوں کے درمیان فساد کروا کر ہندو مت کو مقبول بنایا جائے۔
اس کے بعد مزید انتہا پسند تنظیمیں بھی وجود میں آئی جس میں ہند و مہا سبھا آر ایس ایس بجرنگ دل شیوسینا وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ہندوؤں کی اکثریت اعتدال پسند رہنماؤں راجا رام موہن رائے اور سوامی و ویکند کی پیروکار تھی۔ ایسے لوگوں میں موتی لال نہرو گوپال کرشن گھوکلے سروجنی نائیڈو اور پنڈت نہرو نمایاں ہیں۔ لیکن آزادی کے فوراً بعد گاندھی جی کو انتہا پسندوں نے قتل کر دیا کیونکہ وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے سخت خلاف تھے۔
لیکن ان انتہا پسندوں کے اصل عروج کا آغاز اس وقت ہوا جب 1984میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اسی سال بی جے پی کا قیام عمل میں آیا جس نے بتدریج بھارتی اسٹیبلشمنٹ یعنی سیاست دانوں فوج عدلیہ بیوروکریسی اور میڈیا میں اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے ذریعے اثر و نفوذحاصل کر لیا اور انھیں یہ باور کرایا کہ ہند توا ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے بھارت کو ماضی قدیم کی طرح سپر پاور بنایا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی پکے شودر ہیں لیکن ان کی مسلم دشمنی ان کو اس اعلیٰ ترین عہدے پر لے گئی۔ غلامی کسی بھی قوم کے زوال کی بدترین شکل ہوتی ہے وہ بھی ہزار سال کی غلامی۔ ہندو انتہا پسند یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور غلامی ہی تھا جس میں کروڑوں ہندو مسلمان ہو گئے۔
اب وہ اس کا ازالہ شدھی کے ذریعے مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنا کر کرنا چاہتے ہیں۔ انتہا پسند ہندو مذہبی جنونی دہشت گردوں کے مطابق دو قومی نظریہ، قیام پاکستان نے جلتی پر تیل چھڑک دیا ۔ بھارت ماتا کے دو ٹکڑے ہونے کا صدمہ ان کے لیے ایک ایسا ناسور بن گیا ہے جس کی شدت حدت دکھن میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے انتہا پسندوں کے نزدیک اس کا ایک ہی حل ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں پاکستان بنگلہ دیش افغانستان اور اب حال کا مشرق وسطی۔