معصومانہ سوالات

اندازہ ہوا کہ ہماری آج کی نسل جس گھٹن زدہ ماحول اور سرمایہ دارانہ نظام کے زیر سایہ پروان چڑھ رہی ہے

atharqhasan@gmail.com

میری چھوٹی بیٹی حلیمہ سعدیہ جو ابھی نویں جماعت کے امتحانات سے فارغ ہوئی ہے، گزشتہ شب اس نے اچانک سوال پوچھ لیا ، بابا یہ جو سیاست دان ہوتے ہیں۔ان کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے؟

اس غیر متوقع اور اچانک سوال پر میں گڑ بڑا گیا اور چند لمحے کے لیے خاموش ہو گیا کہ اسے کیا جواب دوں؟ بہرحال اندازہ ہوا کہ ہماری آج کی نسل جس گھٹن زدہ ماحول اور سرمایہ دارانہ نظام کے زیر سایہ پروان چڑھ رہی ہے اور اپنے گردو پیش میں جس ماحول کا مشاہدہ کر رہی ہے اس کے لاشعور میں اپنے ملک کی اشرافیہ کے متعلق ایسے سوالات جنم لے رہے ہیںجن کا جواب شاید ہم نوجوان نسل کو نہیں دے سکتے۔

میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹا سیاست دانوں کی تنخواہ نہیں ہوتی بلکہ ان کے اپنے کاروبار ہوتے ہیں جن سے یہ اپنے روز مرہ کے اخراجات پورے کرتے ہیں، البتہ جب یہ اسمبلی کے ممبر بن جاتے ہیں تو تنخواہ اور متعلقہ مراعات قانوناً ان کو مل جاتے ہیں۔

حلیمہ کہنے لگی، یہ تو ہر وقت ٹی وی پروگراموں میں بیٹھے ہوتے ہیں، یہ کاروبار کس وقت کرتے ہیں اور یہ کون سا ایسا منافع بخش کاروبار کرتے ہیں جس سے ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں آجاتی ہیں اور یہ بڑے بڑے عالیشان گھروں میں رہتے ہیں۔

حلیمہ کے اس سوال سے جڑے سوالات کے جوابات بھی میرے پاس تھے لیکن میں نے اس کے ناپختہ ذہن کو مزید کسی ذہنی الجھن سے بچانے اور اس کا اپنے ملک کے رہنماؤں پر اعتبار قائم رکھنے کے لیے کسی حد تک تسلی بخش جواب دے کر اسے سمجھانے کی حتی المقدور کوشش کی جس میں کسی حد تک کامیاب تو گیا لیکن اس چھوٹی عمرکی بچی کے سوالوں نے میرے پختہ ذہن میں ہلچل مچا دی کہ ہمارے بچوں کی ناپختہ سوچ کس قدر پختہ ہو گئی ہے۔

اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ جس دور میںجوان ہو رہے ہیں، اس سے ان کے معصوم ذہنوں میں اس طرح کے سوالات کلبلا رہے ہیں اور وہ ان کے جواب کے متلاشی ہیں۔

سیاست دانوں کی تنخواہوں سے یاد آیا کہ گزشتہ دنوں ہمارے ملک کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی ماہانہ تنخواہ کے متعلق ذرایع ابلاغ میں یہ خبر گردش میں تھی کہ کس عہدے پر کتنی تنخواہ وصول کی جارہی ہے۔ اس میں صدر مملکت ، وزیر اعظم، وفاقی وزرائ، ممبران اسمبلی، عدلیہ کے معزز جج صاحبان کے علاوہ بائیسویں گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا چرچا رہا ہے۔


اس تنخواہ لیک خبر سے ایک حقیقت تو سامنے آئی ہے کہ ہمارے سیاستدان اور ریاستی افسران کی سرکاری مراعات لا تعداد اور لاکھوں میں ہوتی ہیں جن میں سرکاری گاڑیوں سے لے کر سرکاری گھر، پٹرول، یوٹیلٹی بلز، نوکر چاکر،ہوائی سفر کے اخراجات کے علاوہ ہر طرح کا خرچ جو کسی انسان کی بنیادی ضرورت ہوتا ہے، وہ سرکار اپنے ذمے اٹھا لیتی ہے۔

بڑے عہدوں پر متمکن یہ چھوٹے لوگ حقیقت میں عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے پیسے سے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں جس کے لیے قانون سازی کا اختیار بھی ان کے اپنے پاس ہی ہے۔ اسمبلی میں ممبران کی مراعات کا بل جب پیش ہوتا ہے تو حزب اقتدار کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف بھی ہاں میں ہاں ملانے میں دیر نہیں کرتی۔ اسمبلی کے فلور ، پریس کانفرنسوں، جلسوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں ایک دوسرے کے پر خچے اڑانے والے بیانات داغنے اور تقریریں کرنے والے یہ صاحبان یکا یک ہم نوالہ ہم پیالہ بن جاتے ہیں اور متفقہ طور پر ایسی مراعات کا بل فوری طور پر منظور کر لیا جاتا ہے جوان کی جیبوں کو گرم کرتا ہے اور یوں قانونی طور پر ملک کی یہ نام نہاد اشرافیہ اپنے اللوں تللوں کے لیے سرکار کے بجٹ کا بے دریغ استعمال کرنے میں حق بجانب ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں الیکشن کے امیدوار صرف وہی ہوتے ہیں جن کے پاس زرِکثیر ہوتا ہے البتہ یہ زر کثیر کس طرح اور کن ذرایع سے حاصل کیا گیا ہے، اس کے بارے میں تبصرے سے گریز ہی کرنا چاہیے کیونکہ اسمبلی میں جو نئے قوانین زیرِتجویز ہیں اس طرح کے تبصروں سے معزز ممبران کا استحقاق مجروح ہو سکتا ہے۔

لہٰذا خاموشی ہی بہتر ہے۔ الیکشن کے اخراجات میں جس قدراضافہ ہو چکا ہے، وہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے لہٰذا یہ جوالیکٹیبلزکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، دراصل یہ وہی لوگ ہیں جن کے پاس مال و متاع کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہ اپنے اس مال و متاع کا استعمال کر کے الیکشن میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں کہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور ہمارے ہاں تو یہ اصطلاح اکثر سچ ہی ثابت ہوتی ہے ۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ الیکشن مہم پر بھاری اخراجات کے بعد جب یہ ممبر منتخب ہو کر اسمبلی اور بعد ازاں اس کے طفیل کسی اور بڑے عہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کو بغیر کسی تنخواہ اور مراعات کے کام کرنا چاہیے اور ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جس سے ایک عوامی نمایندے کو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ مراعات کا خاتمہ ہو جائے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کی خدمت کے لیے جس دکھ اور درد کا اظہار یہ عوامی نمایندے اپنی الیکشن مہم میں کرتے ہیں۔

اس دکھ درد کو یہ عوامی نمایندے سرکاری مسند پر بیٹھتے ہی بھول جاتے ہیں اور عوام سے اظہار ہمدردی کر کے ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کے وعدے پر ووٹ حاصل کیے ہوتے ہیں اسی دکھیاری عوام پر رعب جمانے کے لیے بڑی بڑی گاڑیوں میں ہٹو بچو کی صدا لگاتی ہوٹر والی گاڑیوں کے جلو میں یہ ان کے پاس سے دھول اڑاتے گزر جاتے ہیں۔

ایسی وڈیوز دیکھ کر اور خبریں پڑھ اور سن کر ہی حلیمہ سعدیہ جیسی بچیوں کے ناپختہ ذہنوں میں سیاستدانوں کے ذرایع آمدنی کے متعلق سوالات کلبلاتے ہیں ان سوالات کے حقیقی جوابات ایک باپ کے پاس بھی ہیں اور ان سوالات کے حقیقی جواب ہمارے اشرافیہ کے پاس بھی ہیں لیکن ہماری اشرافیہ شاید یہ کڑوا سچ بولنے کو تیار نہیں ہو گی۔
Load Next Story