ایک بڑا مسئلہ اور بھی
آج کے سرمایہ دارانہ دور میں روپیہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ اخبار نکالنا پیسے کا کھیل ہے لیکن ہم لوگ جو مشرقی تہذیب ۔۔۔
صحافت کے پیشے میں عمر گزر گئی اور اس کا بڑا حصہ رپورٹنگ میں لیکن یہ دیکھنا تو کیا سنا تک نہیں تھا کہ اس طرح وج گج کر دھوم دھڑکے کے ساتھ کسی بہت ہی اہم فوجی افسر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا گیا ہو۔ رپورٹنگ شروع کی تو ظہور عالم شہید جیسے نیوز ایڈیٹر نے بلا کر کہا بیٹے تین باتوں کا خیال رکھنا۔ عدالت کی خبر جج کا فیصلہ بچشم خود دیکھے بغیر نہ دینا۔ اسمبلی کی خبر اجلاس دیکھے سنے بغیر نہ دینا اور فوج کی خبر بالکل ہی نہ دینا کیونکہ فوج نے جو خبر دینی ہو گی وہ خود جاری کرے گی' آپ نے اسے صرف نقل کر دینا ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ فوج نے مارشل لاء پر مارشل لا لگا کر سویلین سیاستدانوں کی طرح سیاست کو اپنا لیا اور ہم نے فوج کی خبریں بھی غیر فوجی حکمرانوں کی طرح دینی شروع کر دیں۔ رپورٹنگ کی یہ پابندی بھی ختم ہوئی۔
میری پابندیاں باقی ہیں اور اب تک ہیں کیونکہ عدلیہ اور اسمبلی سے ڈر لگتا ہے' وہ اپنے خلاف کسی غلط خبر پر نوٹس لے سکتے ہیں اور سزا بھی دے سکتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں ایک اسپتال میں ہمارے ایک صحافی نے جو تماشا لگایا اور اپنے پورے ادارے کو جس طرح اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق استعمال اور ملوث کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ میں جب ٹی وی پر یہ تماشا دیکھ رہا تھا تو حیرت زدہ تھا کہ یہ ایک اور مسئلہ کہاں سے نکل آیا۔ اس حیرت کے عالم میں ادارے کے سربراہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ صحافت کی بچی کھچی قدروں سے ڈرو یہ کیا کر رہے ہو لیکن رابطہ نہ ہو سکا مگر مجھے ایک اور شخص بہت یاد آیا' میر خلیل الرحمان اس ادارے کا بانی اور میرا مہربان۔ میر صاحب زندہ ہوتے تو ان کی کئی کمزوریوں کے باوجود وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ دھما چوکڑی برداشت نہ کرتے۔
مرحوم میر صاحب نے اپنی زندگی کے جو آخری انٹرویو دیے تھے ایک میں کہا تھا کہ مجھے عبدالقادر حسن جیسے کالم نگار چاہئیں۔ انھوں نے میری تعریف میں جو کہا یہ تو میں خود ستائی سے محفوظ رہنے کے لیے بیان نہیں کروں گا لیکن مجھے ایک اخبار دیدہ صحافی اور کامیاب مالک سے یہ تعریفی کلمات ایک اعزاز ہیں۔ پھر اس خاندان سے متعلق ایک اور حادثہ ہو گیا۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ میں نے جنگ کیوں چھوڑ دیا لیکن جنگ سے علیحدہ ہو جانے کے چند دن بعد مجھے نیو یارک سے ایک فون موصول ہوا۔ معلوم ہوا بیگم صاحبہ یعنی ہماری آپا اور شکیل الرحمان کی والدہ بستر علالت سے یاد فرما رہی ہیں۔ میں احتراماً اٹھ کھڑا ہوا اور ان کا فون سننے لگا' حکم ہوا کہ واپس آ جاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے نئے ادارے کے ساتھ قانونی نوعیت کا معاہدہ کر لیا ہے۔
اب میں کس طرح اس سے مکر جاؤں مگر کسی برتے پر ان کا حکم تھا کہ واپس جنگ میں آ جاؤ میں ان کا حکم خواہش کے باوجود نہیں مان سکتا تھا۔ دوران گفتگو انھوں نے ایک ایسا لفظ کہا کہ میں بے حد احترام میں اسے نقل نہیں کر سکتا۔ وہ میرے مہربان کی بیوہ تھیں اور شکیل کی والدہ۔ انھوں نے حد سے بڑھ کر الفاظ میں مجھے واپسی کا کہا بلکہ حکم دیا۔ میری نئے اخبار والوں سے پہلی ملاقات تھی لیکن میں ہاتھ کٹوا چکا تھا۔ میں نے اس ادارے کے بانی اور ان کی نشانی کا ذکر اس سانحہ کی وجہ سے کیا ہے جو اس ادارے نے ہر حد پھلانگ کر برپا کیا ہے۔
آج کے سرمایہ دارانہ دور میں روپیہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ اخبار نکالنا پیسے کا کھیل ہے لیکن ہم لوگ جو مشرقی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں، صرف تنخواہ کی ہی نہیں انسانی تعلقات کی قدر بھی کرتے ہیں اور ان کے لیے قربانی بھی دیتے ہیں۔ میرے لیے ایک اخبار سے معاہدے کے بعد بلاوجہ علیحدگی ممکن نہ تھی یہ درست کہ میری اگر ایکسپریس والوں سے پہلے ملاقات نہ تھی اور شاید بعد میں بھی نہ ہوتی اور میری آنکھ شرمانے سے بچ جاتی لیکن میرا دل تو میرے ساتھ ہی رہتا جس سے میں شرماتا رہتا اور میں اب بھی شرما رہا ہوں کہ جس اخبار سے میں ایک عرصہ تک تعلق رہا اس کو اخلاقی بحران کے ایسے حال میں چھوڑ آیا جس کا شاخسانہ اور نتیجہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ اس مقدمے میں میرا اگر کوئی تعلق ہو سکتا ہے تو صحافت سے ہے۔ میں فوج کا محکوم اور مدح سرا ضرور ہوں فوج سے محبت کرنے والوں میں شامل ہوں لیکن میرا تعلق سول کے محکمے سے ہے اور بطور ایک سویلین ہی زندگی بسر کرنی ہے خواہ وہ فوج کے مطابق ''بلڈی باسٹرڈ'' والی ہی کیوں نہ ہو۔ خدا نے اس دیوار کے جس طرف پیدا کیا ہے وہی ہمارا گھر ہے۔
میرا خیال تھا کہ آئی ایس آئی کی طرف سے سخت ترین ردعمل آئے گا کہ اس کے سربراہ کو قاتل اور نہ جانے کیا کچھ کہا گیا ہے۔ یہ بات کبھی میری سمجھ میں نہیں آئے گی کہ اخبار کی طرف سے ایسا جارحانہ رویہ کیوں اختیار کیا گیا اور جواب میں فوج کے بازوئے کے شمشیر زن نے کیوں اس قدر صبر و تحمل سے کام لیا۔ اس تمام حادثے اور واقعے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ ہماری حکومت نے غیر معمولی حد تک ہر حد پھلانگ کر فوج مخالف فریق کا ساتھ دیا ہے اور اس میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی گئی نہ صرف وزیر اطلاعات نے واضح الفاظ میں بیان دیا بلکہ حیران کن حد تک وزیر اعظم نے کراچی جا کر عیادت کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اور یہ قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ اب فوج ماضی والی مارشل لا فوج نہیں ایک نئی سویلین فوج ہے یعنی کسی سویلین حکومت کے تحت۔ بھارت کے پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک دفعہ فوج کی ایک معمولی سی درخواست مسترد کر دی۔ فوج اپنی کسی چھاؤنی میں کوئی دیوار بنانا چاہتی تھی۔ پنڈت جی سے ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ یہ تو معمولی سی بات تھی آپ نے رد کیوں کر دی۔ جواب دیا ''ان کو انکار کرنا ضروری ہوتا ہے'' ورنہ یہ شیر ہو جاتے ہیں۔
میری پابندیاں باقی ہیں اور اب تک ہیں کیونکہ عدلیہ اور اسمبلی سے ڈر لگتا ہے' وہ اپنے خلاف کسی غلط خبر پر نوٹس لے سکتے ہیں اور سزا بھی دے سکتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں ایک اسپتال میں ہمارے ایک صحافی نے جو تماشا لگایا اور اپنے پورے ادارے کو جس طرح اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق استعمال اور ملوث کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ میں جب ٹی وی پر یہ تماشا دیکھ رہا تھا تو حیرت زدہ تھا کہ یہ ایک اور مسئلہ کہاں سے نکل آیا۔ اس حیرت کے عالم میں ادارے کے سربراہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ صحافت کی بچی کھچی قدروں سے ڈرو یہ کیا کر رہے ہو لیکن رابطہ نہ ہو سکا مگر مجھے ایک اور شخص بہت یاد آیا' میر خلیل الرحمان اس ادارے کا بانی اور میرا مہربان۔ میر صاحب زندہ ہوتے تو ان کی کئی کمزوریوں کے باوجود وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ دھما چوکڑی برداشت نہ کرتے۔
مرحوم میر صاحب نے اپنی زندگی کے جو آخری انٹرویو دیے تھے ایک میں کہا تھا کہ مجھے عبدالقادر حسن جیسے کالم نگار چاہئیں۔ انھوں نے میری تعریف میں جو کہا یہ تو میں خود ستائی سے محفوظ رہنے کے لیے بیان نہیں کروں گا لیکن مجھے ایک اخبار دیدہ صحافی اور کامیاب مالک سے یہ تعریفی کلمات ایک اعزاز ہیں۔ پھر اس خاندان سے متعلق ایک اور حادثہ ہو گیا۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ میں نے جنگ کیوں چھوڑ دیا لیکن جنگ سے علیحدہ ہو جانے کے چند دن بعد مجھے نیو یارک سے ایک فون موصول ہوا۔ معلوم ہوا بیگم صاحبہ یعنی ہماری آپا اور شکیل الرحمان کی والدہ بستر علالت سے یاد فرما رہی ہیں۔ میں احتراماً اٹھ کھڑا ہوا اور ان کا فون سننے لگا' حکم ہوا کہ واپس آ جاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے نئے ادارے کے ساتھ قانونی نوعیت کا معاہدہ کر لیا ہے۔
اب میں کس طرح اس سے مکر جاؤں مگر کسی برتے پر ان کا حکم تھا کہ واپس جنگ میں آ جاؤ میں ان کا حکم خواہش کے باوجود نہیں مان سکتا تھا۔ دوران گفتگو انھوں نے ایک ایسا لفظ کہا کہ میں بے حد احترام میں اسے نقل نہیں کر سکتا۔ وہ میرے مہربان کی بیوہ تھیں اور شکیل کی والدہ۔ انھوں نے حد سے بڑھ کر الفاظ میں مجھے واپسی کا کہا بلکہ حکم دیا۔ میری نئے اخبار والوں سے پہلی ملاقات تھی لیکن میں ہاتھ کٹوا چکا تھا۔ میں نے اس ادارے کے بانی اور ان کی نشانی کا ذکر اس سانحہ کی وجہ سے کیا ہے جو اس ادارے نے ہر حد پھلانگ کر برپا کیا ہے۔
آج کے سرمایہ دارانہ دور میں روپیہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ اخبار نکالنا پیسے کا کھیل ہے لیکن ہم لوگ جو مشرقی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں، صرف تنخواہ کی ہی نہیں انسانی تعلقات کی قدر بھی کرتے ہیں اور ان کے لیے قربانی بھی دیتے ہیں۔ میرے لیے ایک اخبار سے معاہدے کے بعد بلاوجہ علیحدگی ممکن نہ تھی یہ درست کہ میری اگر ایکسپریس والوں سے پہلے ملاقات نہ تھی اور شاید بعد میں بھی نہ ہوتی اور میری آنکھ شرمانے سے بچ جاتی لیکن میرا دل تو میرے ساتھ ہی رہتا جس سے میں شرماتا رہتا اور میں اب بھی شرما رہا ہوں کہ جس اخبار سے میں ایک عرصہ تک تعلق رہا اس کو اخلاقی بحران کے ایسے حال میں چھوڑ آیا جس کا شاخسانہ اور نتیجہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ اس مقدمے میں میرا اگر کوئی تعلق ہو سکتا ہے تو صحافت سے ہے۔ میں فوج کا محکوم اور مدح سرا ضرور ہوں فوج سے محبت کرنے والوں میں شامل ہوں لیکن میرا تعلق سول کے محکمے سے ہے اور بطور ایک سویلین ہی زندگی بسر کرنی ہے خواہ وہ فوج کے مطابق ''بلڈی باسٹرڈ'' والی ہی کیوں نہ ہو۔ خدا نے اس دیوار کے جس طرف پیدا کیا ہے وہی ہمارا گھر ہے۔
میرا خیال تھا کہ آئی ایس آئی کی طرف سے سخت ترین ردعمل آئے گا کہ اس کے سربراہ کو قاتل اور نہ جانے کیا کچھ کہا گیا ہے۔ یہ بات کبھی میری سمجھ میں نہیں آئے گی کہ اخبار کی طرف سے ایسا جارحانہ رویہ کیوں اختیار کیا گیا اور جواب میں فوج کے بازوئے کے شمشیر زن نے کیوں اس قدر صبر و تحمل سے کام لیا۔ اس تمام حادثے اور واقعے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ ہماری حکومت نے غیر معمولی حد تک ہر حد پھلانگ کر فوج مخالف فریق کا ساتھ دیا ہے اور اس میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی گئی نہ صرف وزیر اطلاعات نے واضح الفاظ میں بیان دیا بلکہ حیران کن حد تک وزیر اعظم نے کراچی جا کر عیادت کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اور یہ قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ اب فوج ماضی والی مارشل لا فوج نہیں ایک نئی سویلین فوج ہے یعنی کسی سویلین حکومت کے تحت۔ بھارت کے پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک دفعہ فوج کی ایک معمولی سی درخواست مسترد کر دی۔ فوج اپنی کسی چھاؤنی میں کوئی دیوار بنانا چاہتی تھی۔ پنڈت جی سے ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ یہ تو معمولی سی بات تھی آپ نے رد کیوں کر دی۔ جواب دیا ''ان کو انکار کرنا ضروری ہوتا ہے'' ورنہ یہ شیر ہو جاتے ہیں۔