کچی مٹی کے لوگ
مریض شدت تکلیف سے تڑپتا رہتا ہے مگر بہو یا بیٹا نزدیک نہیں جاتا۔ ان کے کپڑے بدلنے کا تردد بھی کوئی نہیں کرتا۔۔۔
KARACHI:
باتوں اور تجزیوں کا ایک سمندر ہے جسے لوگ خوف اور حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ میں مکمل باخبر ہونے کے باوجود کوئی عرض نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میری نظر میں ابھی طوفان میں بہت سی گرد بھی شامل ہے۔ یہ بیٹھے گی بھی یا نہیں؟ اس کا فیصلہ پنڈی یا اسلام آباد میں نہیں، بلکہ شہر لاہور میں ہو گا۔ آ پ کو چند ماہ بعد اس پر یقین آ جائیگا؟ میں ابھی کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس لیے کہ مکمل سچ بولا یا لکھا نہیں جا سکتا اور آدھے سچ سے مسئلہ نہیں حل ہوتا۔
میں آج ایک ایسے انسانی المیہ پر لکھنا چاہتا ہوں جو ہر تیسرے یا چوتھے گھر میں موجود ہے۔ آپ کو اپنے ہر جانب ایسے بے شمار لوگ نظر آئینگے جن کو فالج کی وجہ سے شدید معذوری کا سامنا ہے۔ یہ بے بس لوگ زندہ تو ہیں، سانسیں پوری بھی کر رہے ہیں مگر حقیقت میں زندگی سے کوسوں دور ہیں۔ آپ دنیا میں فالج سے معذوری پر نظر دوڑائیے۔ ہر سال ایک کروڑ ساٹھ لاکھ اشخاص اس موذی مرض کا شکار بنتے ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد کے قریب اس کے شدید اثرات سے بچ نکلتے ہیں مگر بیس فیصد افراد اتنے خوش قسمت نہیں ہوتے۔ وہ اس مرض کی بدولت مکمل یا نامکمل معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں کسی میڈیکل بحث میں میں نہیں پڑنا چاہتا مگر پاکستان میں یہ مرض وباء کی طرح عام ہو چکا ہے۔
طاہر علی جاوید میرے قریبی دوستوں میں سے ہے۔ میرے موبائل پر ان کے ایک عزیز نے پیغام دیا کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ میں دس دن پہلے اسکو دیکھنے کے لیے گھر چلا گیا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا شدید بیمار ہے۔ میں نے جب طاہر کو دیکھا تو حقیقت میں ششدر رہ گیا۔ اس کے جسم پر مکمل فالج کا حملہ ہوا تھا۔ تمام جسم اس موزی مرض کی بدولت حرکت کے قابل نہیں تھا۔ زبان پر بھی اس بیماری کا مکمل اثر تھا۔ وہ بولنے سے قاصر تھا۔ میں تھوڑی دیر طاہر کے پاس بیٹھا رہا۔ میں نے اس شخص کو ہنستے کھیلتے اور سیاست کے میدان میں دوڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر اتنا بے بس، اتنا خاموش! یہ میری توقع سے بہت زیادہ تھا۔ طاہر علی جاوید خود بھی وزیر صحت رہ چکا ہے۔ شائد قدرت کے سامنے ہم سب برابر ہیں۔ رحمت میں بھی اور زحمت کے میدان میں بھی۔ طاہر مجھے پہچان نہیں سکا۔ لیکن حقیقت میں، میں بھی اسے پہچان نہ پایا۔ وہ ایک بالکل مختلف شخص تھا جو شائد اصل کی پرچھائیں ہے۔ یا شائد اصل اس کا سایہ ہے۔ پاکستان میں یہ بیماری کتنے خاندانوں کو برباد کر چکی ہے، اس کی تعداد کے بارے میں کوئی سند نہیں ہے۔ جس ملک میں اس کی آبادی کا کوئی شمار نہ ہو، اس جنگل میں ایک خاص قسم کے مریضوں کی اصل تعداد کا کس کو علم ہو گا؟ ہمارے ملک میں کسی طرح سے مستند اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ لیکن ایک اندازہ کے مطابق ہمارے ملک میں یہ تعداد ستر لاکھ سے اوپر ہے۔ یہ صرف ایک قیافہ ہے۔ اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہماری توقع سے بھی زیادہ!
میں نے اس مرض کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ میرے ذہن پر اس کی بدولت بہت سے زخم لگے ہوئے ہیں تو قطعاً بے جا نہ ہو گا۔ میری عزیز ترین ہستی، میری والدہ اپنی زندگی کے آخری سات سال اس کی بدولت صاحب فراش رہی ہیں۔ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے میں نے کتاب میں فالج کو بالکل عام سے طریقے سے پڑھا تھا۔ شائد صرف امتحان پاس کرنے کے لیے۔ مگر جب میں نے اس کے ہاتھوں جاندار لوگوں کو بے جان ہوتے ہوئے دیکھا، پھر مجھے اس کی اصلیت اور شدت کا ادراک ہوا۔ میری والدہ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے1956ء میں ایم۔ایس۔سی کی تھی۔ سائنس میںBotony پڑھنا آسان نہیں ہے۔ ویسے تو پوری سائنس کی تعلیم انسان سے مکمل توجہ مانگتی ہے مگر کچھ مضامین حقیقت میں دوسروں سے مشکل ہیں۔ میری والدہ چند مسلمان خواتین میں سے تھیں جو علی گڑھ سےBotony میں پوسٹ گریجوایٹ تعلیم حاصل کر سکی تھیں۔ لیکچرار اور اس کے بعد درس و تدریس کے ایک طویل سفر کے بعد وہ گورنمنٹ کالج ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بطور پرنسپل ریٹائر ہوئیں تھیں۔ ریٹائرمنٹ کے تین سال بعد انکو اچانک فالج کا حملہ ہوا۔ یہ تقریبا ًجان لیوا حملہ پورے خاندان کے لیے ایک بہت مشکل امتحان تھا۔ تقریباً ایک ماہ تک زندگی اور موت کے درمیان رہنے کے بعد ہم لوگ اسپتال سے جب گھر منتقل ہوئے تو میں اپنی والدہ کو بالکل نہ پہچان پایا۔ وہ ایک مختلف خاتون تھیں۔ پہلے سے زیادہ باہمت! جسم کا بایاں حصہ شل ہو چکا تھا۔ مگر یادداشت اور زبان محفوظ تھے۔ یہ بھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر تھا۔ مگر اُس کے بعد میرے گھر میں ہر چیز تبدیل ہو گئی۔ میری اہلیہ، میری دونوں بہنیں ہر وقت میری والدہ کی خدمت میں مصروف ہو گئیں۔ گھر کا ایک کمرہ دراصل اسپتال بن چکا تھا۔ وہاں ہر وقت ڈاکٹر، نرسیں اور آیا آتے جاتے رہتے تھے۔
پابندی سے دوائیاں دینا، ہاتھوں اور پیروں کی ورزش کروانا، کمرے کو صاف رکھنا، ایک خاص طرح کا کھانا پکانا، یہ تمام اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے اور درجنوں کام، ہر گھر، ہر خاندان، ہر فرد کو مکمل تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مجھے احساس ہو چکا تھا کہ ہمارا گھر بدل گیا ہے۔ یہ تبدیلی میرے دونوں بیٹوں مبارز اور حمزہ نے بھی محسوس کی تھی۔ ہم سب کسی نہ کسی حد تک اس تبدیلی کا حصہ بن چکے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک پوری طرح والدہ کی خدمت میں مصروف ہو چکا تھا۔ میں نے میڈیکل کی تمام کتابیں واپس نکالیں اور اس مرض کو پڑھنا شروع کر دیا۔ مجھے لگتا تھا کہ شائد میں Davidson کے اس حصہ کو حفظ کرچکا ہوں۔ میں جتنا فالج کو پڑھتا گیا، مجھے اتنا ہی اس کے خوفناک اور موذی ہونے کا شدت سے احساس ہوتا گیا۔ لاہور میں کوئی ایسا ڈاکٹر نہیں تھا جسکو میں نے اپنی والدہ کے لیےConsult نہ کیا ہو۔ لیکن اچانک میں نے اپنے گھر میں ایک اور تبدیلی محسوس کی۔ میرے گھر کا ایک حصہ تقریبا ًمسجد بن چکا تھا۔ میری والدہ پہلے بھی نماز پڑھتی تھیں، مگر فالج میں انھوں نے نفلی عبادات کثرت سے شروع کر دیں۔ کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت اور مختلف تفاسیر کا مطالعہ۔ مختلف تراجم کافی تعداد میں میری والدہ کے کمرے میں آ گئے۔
میں ڈاکٹر یا سرکاری ملازم کی حیثیت سے ایک چیز پر پوری طرح غور نہ کر پایا تھا۔ اور وہ عنصر تھا، مریض کی قوت ارادی اور اس پر دین کے اثرات۔ میری والدہ کی دیکھا دیکھی گھر میں اکثر لوگوں نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ میں اس کا ذکر اس لیے کرنا چاہتا ہوں کہ قوت ارادی کو مزید مضبوط کرنے کے لیے خدا کے سہارے سے بڑھ کر اور کوئی سہارا نہیں ہے۔ یہ بات روز مرہ کی زندگی میں بھی سچ ہے۔ مگر جب انسان چل پھر نہ سکتا ہو۔ جب وہ بے بسی کی کیفیت میں ہو تو یقینا خدا کا بھر پور سہارا ہی اس کو اس مشکل کیفیت میں قائم و دائم رکھتا ہے۔ میں نے یہ معجزہ اپنے گھر میں ہوتے ہوئے بغور دیکھا ہے۔ میری والدہ تقریباً سات سال بیمار رہیں۔ مگر اس پورے عرصے میں انھوں نے کسی بھی حالت میں روزہ نہیں چھوڑا۔
میرے لیے کئی بار یہ حیرت اور فکر کا مقام ہوتا تھا کہ ایک ضعیف خاتون جو کہ حد درجہ عالم بے بسی سے گزر رہی ہوں، کیسے روزہ کو برداشت کرتیں ہیں۔ لیکن میں اس بار بھی غلط ثابت ہوا۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ اگر آپ صاحب ایمان ہیں، اور آپ یقین رکھتے ہیں کہ نفع اور نقصان صرف خدا کی ذات سے منسلک ہے تو آپ کی زندگی کا محور بدل سا جاتا ہے۔ میں نے یہ اَمر خود دیکھا ہے کہ آپ اپنی پختہ قوت ارادی سے ہر بیماری کو مسخر کر سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اکثر اوقات آپ مکمل چل پھر نہیں سکتے۔ مگر آپ قوت ارادی سے اپنے حوصلہ کو اتنا بلند کر سکتے ہیں کہ بڑی سے بڑی بیماری بہت چھوٹی نظر آتی ہے۔ مجھے اس پر کامل یقین ہے۔ میں نے سات سال ہر رمضان میں اپنی والدہ کو تمام روزے انتہائی محنت اور مشقت سے رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ کئی بار میں نے انھیں یہ بھی عرض کی کہ آپ بیمار ہیں اور آپ کو اس حالت میں روزہ معاف ہے۔ آپ پر روزہ فرض نہیں ہے۔ مگر انھوں نے کبھی اس بات کا جواب نہیں دیا۔ اور وہ مسلسل روزہ رکھتی رہیں۔ بلکہ کئی بار انھوں نے نفلی روزے بھی رکھنے شروع کر دیے۔ آج سے چار سال پہلے جب ان کا انتقال ہوا، تو لحد میں اتارتے وقت مجھے ایسا لگا کہ ان کا فالج مکمل ٹھیک ہو چکا ہے۔ شائد ایک بہت بڑی آزمائش جو سات سال تک پیہم جاری رہی اس شام کو ختم ہو چکی تھی۔
میں نے اس مرض میں مبتلا بہت لوگ دیکھے ہیں۔ لیکن اس میں ایک پہلو بہت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ چند فیصد لوگ اپنے گھروں میں اس مرض میں مبتلا لوگوں کو بوجھ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا صبر کا پیمانہ شائد ہوتا ہی نہیں یا شائد بہت جلدی لبریز ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے بزرگوں کو جن میں ان کی والدہ اور والد بھی شامل ہوتے ہیں، مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مریض شدت تکلیف سے تڑپتا رہتا ہے مگر بہو یا بیٹا نزدیک نہیں جاتا۔ ان کے کپڑے بدلنے کا تردد بھی کوئی نہیں کرتا۔ ان کی دوا کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا۔ شائد ان کے بچوں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ خود کبھی ضعیف نہیں ہوں گے اور انھیں کبھی یہ بیماری نہیں ہو گی۔ وہ پاکستان کے ان لاکھوں لوگوں میں ہر گز شامل نہیں ہونگے جو فالج کا شکار ہو سکتے ہیں۔ میں نے ان نظر انداز کیے ہوئے بزرگوں کو بیماری سے مرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بلکہ ان کو پیاروں کی بے اعتناعی اور تنہائی سے آہستہ آہستہ مرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے ایسی ناخلف اولاد بھی دیکھی ہے جس نے اپنے محتاج بوڑھے والد یا والدہ کی چارپائی اپنے گھر سے نکال کر برآمدہ میں رکھوا دی ہے، یا انکو اپنے دالان میں منتقل کر دیا ہے۔ وہ خاموشی سے ان کے نزدیک سے گزر جاتے ہیں، مبادا، وہ مظلوم مریض انکو کوئی کام نہ کہہ دے۔
یہ لوگ جو چل پھر نہیں سکتے۔ کئی بار بول بھی نہیں سکتے۔ مکمل بے بسی کا شکار ہیں۔ دراصل یہ اولاد کے لیے دعاؤں کا خزانہ ہیں۔ بات صرف ادراک کی ہے۔ یہ خزانہ بہت قیمتی ہے۔ لیکن اسکو حاصل کرنا ہر شخص کے نصیب میں نہیں ہے۔ انسان بے شک مٹی سے بنا ہے، مگر مجھے ان لوگوں کو دیکھ کر ایک عجیب احساس ہوتا ہے۔ بے شک خدا نے انکو بھی بنایا ہے مگر شائد انکو کچی مٹی سے بنا دیا ہے! یہ لوگ تو میری نظر میں کچی مٹی کے لوگ ہیں!
باتوں اور تجزیوں کا ایک سمندر ہے جسے لوگ خوف اور حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ میں مکمل باخبر ہونے کے باوجود کوئی عرض نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میری نظر میں ابھی طوفان میں بہت سی گرد بھی شامل ہے۔ یہ بیٹھے گی بھی یا نہیں؟ اس کا فیصلہ پنڈی یا اسلام آباد میں نہیں، بلکہ شہر لاہور میں ہو گا۔ آ پ کو چند ماہ بعد اس پر یقین آ جائیگا؟ میں ابھی کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس لیے کہ مکمل سچ بولا یا لکھا نہیں جا سکتا اور آدھے سچ سے مسئلہ نہیں حل ہوتا۔
میں آج ایک ایسے انسانی المیہ پر لکھنا چاہتا ہوں جو ہر تیسرے یا چوتھے گھر میں موجود ہے۔ آپ کو اپنے ہر جانب ایسے بے شمار لوگ نظر آئینگے جن کو فالج کی وجہ سے شدید معذوری کا سامنا ہے۔ یہ بے بس لوگ زندہ تو ہیں، سانسیں پوری بھی کر رہے ہیں مگر حقیقت میں زندگی سے کوسوں دور ہیں۔ آپ دنیا میں فالج سے معذوری پر نظر دوڑائیے۔ ہر سال ایک کروڑ ساٹھ لاکھ اشخاص اس موذی مرض کا شکار بنتے ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد کے قریب اس کے شدید اثرات سے بچ نکلتے ہیں مگر بیس فیصد افراد اتنے خوش قسمت نہیں ہوتے۔ وہ اس مرض کی بدولت مکمل یا نامکمل معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں کسی میڈیکل بحث میں میں نہیں پڑنا چاہتا مگر پاکستان میں یہ مرض وباء کی طرح عام ہو چکا ہے۔
طاہر علی جاوید میرے قریبی دوستوں میں سے ہے۔ میرے موبائل پر ان کے ایک عزیز نے پیغام دیا کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ میں دس دن پہلے اسکو دیکھنے کے لیے گھر چلا گیا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا شدید بیمار ہے۔ میں نے جب طاہر کو دیکھا تو حقیقت میں ششدر رہ گیا۔ اس کے جسم پر مکمل فالج کا حملہ ہوا تھا۔ تمام جسم اس موزی مرض کی بدولت حرکت کے قابل نہیں تھا۔ زبان پر بھی اس بیماری کا مکمل اثر تھا۔ وہ بولنے سے قاصر تھا۔ میں تھوڑی دیر طاہر کے پاس بیٹھا رہا۔ میں نے اس شخص کو ہنستے کھیلتے اور سیاست کے میدان میں دوڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر اتنا بے بس، اتنا خاموش! یہ میری توقع سے بہت زیادہ تھا۔ طاہر علی جاوید خود بھی وزیر صحت رہ چکا ہے۔ شائد قدرت کے سامنے ہم سب برابر ہیں۔ رحمت میں بھی اور زحمت کے میدان میں بھی۔ طاہر مجھے پہچان نہیں سکا۔ لیکن حقیقت میں، میں بھی اسے پہچان نہ پایا۔ وہ ایک بالکل مختلف شخص تھا جو شائد اصل کی پرچھائیں ہے۔ یا شائد اصل اس کا سایہ ہے۔ پاکستان میں یہ بیماری کتنے خاندانوں کو برباد کر چکی ہے، اس کی تعداد کے بارے میں کوئی سند نہیں ہے۔ جس ملک میں اس کی آبادی کا کوئی شمار نہ ہو، اس جنگل میں ایک خاص قسم کے مریضوں کی اصل تعداد کا کس کو علم ہو گا؟ ہمارے ملک میں کسی طرح سے مستند اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ لیکن ایک اندازہ کے مطابق ہمارے ملک میں یہ تعداد ستر لاکھ سے اوپر ہے۔ یہ صرف ایک قیافہ ہے۔ اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہماری توقع سے بھی زیادہ!
میں نے اس مرض کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ میرے ذہن پر اس کی بدولت بہت سے زخم لگے ہوئے ہیں تو قطعاً بے جا نہ ہو گا۔ میری عزیز ترین ہستی، میری والدہ اپنی زندگی کے آخری سات سال اس کی بدولت صاحب فراش رہی ہیں۔ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے میں نے کتاب میں فالج کو بالکل عام سے طریقے سے پڑھا تھا۔ شائد صرف امتحان پاس کرنے کے لیے۔ مگر جب میں نے اس کے ہاتھوں جاندار لوگوں کو بے جان ہوتے ہوئے دیکھا، پھر مجھے اس کی اصلیت اور شدت کا ادراک ہوا۔ میری والدہ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے1956ء میں ایم۔ایس۔سی کی تھی۔ سائنس میںBotony پڑھنا آسان نہیں ہے۔ ویسے تو پوری سائنس کی تعلیم انسان سے مکمل توجہ مانگتی ہے مگر کچھ مضامین حقیقت میں دوسروں سے مشکل ہیں۔ میری والدہ چند مسلمان خواتین میں سے تھیں جو علی گڑھ سےBotony میں پوسٹ گریجوایٹ تعلیم حاصل کر سکی تھیں۔ لیکچرار اور اس کے بعد درس و تدریس کے ایک طویل سفر کے بعد وہ گورنمنٹ کالج ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بطور پرنسپل ریٹائر ہوئیں تھیں۔ ریٹائرمنٹ کے تین سال بعد انکو اچانک فالج کا حملہ ہوا۔ یہ تقریبا ًجان لیوا حملہ پورے خاندان کے لیے ایک بہت مشکل امتحان تھا۔ تقریباً ایک ماہ تک زندگی اور موت کے درمیان رہنے کے بعد ہم لوگ اسپتال سے جب گھر منتقل ہوئے تو میں اپنی والدہ کو بالکل نہ پہچان پایا۔ وہ ایک مختلف خاتون تھیں۔ پہلے سے زیادہ باہمت! جسم کا بایاں حصہ شل ہو چکا تھا۔ مگر یادداشت اور زبان محفوظ تھے۔ یہ بھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر تھا۔ مگر اُس کے بعد میرے گھر میں ہر چیز تبدیل ہو گئی۔ میری اہلیہ، میری دونوں بہنیں ہر وقت میری والدہ کی خدمت میں مصروف ہو گئیں۔ گھر کا ایک کمرہ دراصل اسپتال بن چکا تھا۔ وہاں ہر وقت ڈاکٹر، نرسیں اور آیا آتے جاتے رہتے تھے۔
پابندی سے دوائیاں دینا، ہاتھوں اور پیروں کی ورزش کروانا، کمرے کو صاف رکھنا، ایک خاص طرح کا کھانا پکانا، یہ تمام اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے اور درجنوں کام، ہر گھر، ہر خاندان، ہر فرد کو مکمل تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مجھے احساس ہو چکا تھا کہ ہمارا گھر بدل گیا ہے۔ یہ تبدیلی میرے دونوں بیٹوں مبارز اور حمزہ نے بھی محسوس کی تھی۔ ہم سب کسی نہ کسی حد تک اس تبدیلی کا حصہ بن چکے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک پوری طرح والدہ کی خدمت میں مصروف ہو چکا تھا۔ میں نے میڈیکل کی تمام کتابیں واپس نکالیں اور اس مرض کو پڑھنا شروع کر دیا۔ مجھے لگتا تھا کہ شائد میں Davidson کے اس حصہ کو حفظ کرچکا ہوں۔ میں جتنا فالج کو پڑھتا گیا، مجھے اتنا ہی اس کے خوفناک اور موذی ہونے کا شدت سے احساس ہوتا گیا۔ لاہور میں کوئی ایسا ڈاکٹر نہیں تھا جسکو میں نے اپنی والدہ کے لیےConsult نہ کیا ہو۔ لیکن اچانک میں نے اپنے گھر میں ایک اور تبدیلی محسوس کی۔ میرے گھر کا ایک حصہ تقریبا ًمسجد بن چکا تھا۔ میری والدہ پہلے بھی نماز پڑھتی تھیں، مگر فالج میں انھوں نے نفلی عبادات کثرت سے شروع کر دیں۔ کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت اور مختلف تفاسیر کا مطالعہ۔ مختلف تراجم کافی تعداد میں میری والدہ کے کمرے میں آ گئے۔
میں ڈاکٹر یا سرکاری ملازم کی حیثیت سے ایک چیز پر پوری طرح غور نہ کر پایا تھا۔ اور وہ عنصر تھا، مریض کی قوت ارادی اور اس پر دین کے اثرات۔ میری والدہ کی دیکھا دیکھی گھر میں اکثر لوگوں نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ میں اس کا ذکر اس لیے کرنا چاہتا ہوں کہ قوت ارادی کو مزید مضبوط کرنے کے لیے خدا کے سہارے سے بڑھ کر اور کوئی سہارا نہیں ہے۔ یہ بات روز مرہ کی زندگی میں بھی سچ ہے۔ مگر جب انسان چل پھر نہ سکتا ہو۔ جب وہ بے بسی کی کیفیت میں ہو تو یقینا خدا کا بھر پور سہارا ہی اس کو اس مشکل کیفیت میں قائم و دائم رکھتا ہے۔ میں نے یہ معجزہ اپنے گھر میں ہوتے ہوئے بغور دیکھا ہے۔ میری والدہ تقریباً سات سال بیمار رہیں۔ مگر اس پورے عرصے میں انھوں نے کسی بھی حالت میں روزہ نہیں چھوڑا۔
میرے لیے کئی بار یہ حیرت اور فکر کا مقام ہوتا تھا کہ ایک ضعیف خاتون جو کہ حد درجہ عالم بے بسی سے گزر رہی ہوں، کیسے روزہ کو برداشت کرتیں ہیں۔ لیکن میں اس بار بھی غلط ثابت ہوا۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ اگر آپ صاحب ایمان ہیں، اور آپ یقین رکھتے ہیں کہ نفع اور نقصان صرف خدا کی ذات سے منسلک ہے تو آپ کی زندگی کا محور بدل سا جاتا ہے۔ میں نے یہ اَمر خود دیکھا ہے کہ آپ اپنی پختہ قوت ارادی سے ہر بیماری کو مسخر کر سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اکثر اوقات آپ مکمل چل پھر نہیں سکتے۔ مگر آپ قوت ارادی سے اپنے حوصلہ کو اتنا بلند کر سکتے ہیں کہ بڑی سے بڑی بیماری بہت چھوٹی نظر آتی ہے۔ مجھے اس پر کامل یقین ہے۔ میں نے سات سال ہر رمضان میں اپنی والدہ کو تمام روزے انتہائی محنت اور مشقت سے رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ کئی بار میں نے انھیں یہ بھی عرض کی کہ آپ بیمار ہیں اور آپ کو اس حالت میں روزہ معاف ہے۔ آپ پر روزہ فرض نہیں ہے۔ مگر انھوں نے کبھی اس بات کا جواب نہیں دیا۔ اور وہ مسلسل روزہ رکھتی رہیں۔ بلکہ کئی بار انھوں نے نفلی روزے بھی رکھنے شروع کر دیے۔ آج سے چار سال پہلے جب ان کا انتقال ہوا، تو لحد میں اتارتے وقت مجھے ایسا لگا کہ ان کا فالج مکمل ٹھیک ہو چکا ہے۔ شائد ایک بہت بڑی آزمائش جو سات سال تک پیہم جاری رہی اس شام کو ختم ہو چکی تھی۔
میں نے اس مرض میں مبتلا بہت لوگ دیکھے ہیں۔ لیکن اس میں ایک پہلو بہت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ چند فیصد لوگ اپنے گھروں میں اس مرض میں مبتلا لوگوں کو بوجھ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا صبر کا پیمانہ شائد ہوتا ہی نہیں یا شائد بہت جلدی لبریز ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے بزرگوں کو جن میں ان کی والدہ اور والد بھی شامل ہوتے ہیں، مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مریض شدت تکلیف سے تڑپتا رہتا ہے مگر بہو یا بیٹا نزدیک نہیں جاتا۔ ان کے کپڑے بدلنے کا تردد بھی کوئی نہیں کرتا۔ ان کی دوا کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا۔ شائد ان کے بچوں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ خود کبھی ضعیف نہیں ہوں گے اور انھیں کبھی یہ بیماری نہیں ہو گی۔ وہ پاکستان کے ان لاکھوں لوگوں میں ہر گز شامل نہیں ہونگے جو فالج کا شکار ہو سکتے ہیں۔ میں نے ان نظر انداز کیے ہوئے بزرگوں کو بیماری سے مرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بلکہ ان کو پیاروں کی بے اعتناعی اور تنہائی سے آہستہ آہستہ مرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے ایسی ناخلف اولاد بھی دیکھی ہے جس نے اپنے محتاج بوڑھے والد یا والدہ کی چارپائی اپنے گھر سے نکال کر برآمدہ میں رکھوا دی ہے، یا انکو اپنے دالان میں منتقل کر دیا ہے۔ وہ خاموشی سے ان کے نزدیک سے گزر جاتے ہیں، مبادا، وہ مظلوم مریض انکو کوئی کام نہ کہہ دے۔
یہ لوگ جو چل پھر نہیں سکتے۔ کئی بار بول بھی نہیں سکتے۔ مکمل بے بسی کا شکار ہیں۔ دراصل یہ اولاد کے لیے دعاؤں کا خزانہ ہیں۔ بات صرف ادراک کی ہے۔ یہ خزانہ بہت قیمتی ہے۔ لیکن اسکو حاصل کرنا ہر شخص کے نصیب میں نہیں ہے۔ انسان بے شک مٹی سے بنا ہے، مگر مجھے ان لوگوں کو دیکھ کر ایک عجیب احساس ہوتا ہے۔ بے شک خدا نے انکو بھی بنایا ہے مگر شائد انکو کچی مٹی سے بنا دیا ہے! یہ لوگ تو میری نظر میں کچی مٹی کے لوگ ہیں!