ایوان صدر اور وفاقی وزارت تعلیم کی رسہ کشی میں جامعہ اردو انتظامی سربراہ سے محروم

2 ماہ سے انتظامی سربراہ نہ ہونے کی وجہ سے فنڈز ایک سے دوسرے اکائونٹ میں ٹرانسفر نہیں ہوسکتے

وائس چانسلر کو جس ریفرنس پر ہٹایا گیا اجلاس میں وہ فیصلہ ہوا ہی نہیں، ایمرجنسی کمیٹی سینیٹ کے خط میں انکشاف(فوٹو: فائل )

ایوان صدر اور وفاقی وزارت تعلیم کے مابین جاری سیاسی تناؤ و رسہ کشی کے سبب وفاقی اردویونیورسٹی انتظامی و آئینی دیوالیہ پن کا شکار ہوگئی، وزارت تعلیم ایوان صدر کے احکامات کو نوٹیفکیشن کے اجرا کے بجائے اعتراض لگا کر واپس کردیتی ہے جبکہ ایوان صدر وزارت تعلیم کی بھجوائی گئی سمریز کی منظوری نہیں دیتا۔

صورتحال یہ ہے کہ ایک قائم مقام رجسٹرار کسی سے ہدایت لیے بغیر جامعہ اردو کے انتظامی و مالی معاملات چلا رہی ہیں تاہم اس میں بھی انھیں بدترین مشکلات کا سامنا ہے اور کہا جارہا ہے کہ یونیورسٹی ایک ایسا جزیرہ بن گئی ہے جس کا اپنی اطراف کی دنیا سے کسی قسم کا رابطہ نہ ہو۔

وزارت تعلیم کے ذرائع نے "ایکسپریس" کو بتایا کہ یونیورسٹی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق signing authority یعنی وائس چانسلر موجود نہیں ہے جس کے سبب یونیورسٹی کا کوئی بھی فنڈ ایک سے دوسرے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہی نہیں ہوپارہا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے طلباء نے موٹرسائیکل سواروں کی زندگیاں بچانے والا ہیلمٹ تیار کرلیا

جو فنڈ جس اکائونٹ میں موجود ہے وہیں رکھا ہوا ہے کیونکہ ان اکائونٹس سے رقم ٹرانسفر یا نکلوانے کے لیے وائس چانسلر کی منظوری درکار ہوتی ہے اس لیے کسی بھی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھی اس کا withdrawal ممکن نہیں ہورہا۔

صرف ایچ ای سی سے پینشن اور تنخواہوں کی مد میں آنے والی گرانٹ چونکہ براہ راست اسائنمنٹ اکائونٹ میں آرہی ہے لہذا صرف تنخواہ و پینشن کی ادائیگیاں ہی ممکن ہوپارہی ہیں، تاہم اگر اس فنڈ میں کسی قسم کا تعطل آتا ہے تو یونیورسٹی میں یہ ادائیگیاں بھی رک جانے کا اندیشہ ہے۔

واضح رہے کہ اردو یونیورسٹی میں 2 اپریل سے کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں ہے اور وفاقی وزارت تعلیم کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق آخری قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین اپنی توسیع شدہ دو ماہ کی مدت پوری کرچکے ہیں لہذا اب ان کے پاس کسی قسم کے مالی یا انتظامی اختیارات نہیں رہے۔

بتایا جارہا ہے کہ قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کو دو ماہ کی اضافی مدت کے پورا ہونے پر ہٹائے جانے کے بعد وفاقی وزارت تعلیم نے نئے مستقل قائم مقام وائس چانسلر کی تعیناتی کے لیے تین ناموں کی سمری ایوان صدر کو بھجوائی تھی جس پر ایوان صدر نے کارروائی نہیں کی، کیونکہ ایوان صدر کا موقف تھا کہ یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق قائم مقام وائس چانسلر کی تعیناتی کی سفارش کا اختیار اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کے پاس ہے اور وزارت تعلیم یہ نام از خود نہیں بھجواسکتی۔

مزید پڑھیں: مشال خان کی بہن نے امریکی یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلی

وزارت تعلیم کا اس پر موقف تھا کہ چونکہ اب یونیورسٹی کی سینیٹ موجود نہیں ہے بیشتر اراکین اپنی مدت پوری کرچکے ہیں اور سینیٹ کا کورم تک ختم ہوچکا ہے لہذا وزارت تعلیم یہ کام انجام دے رہی ہے، تاہم یہ معاملہ اس قدر سادہ نہیں تھا جتنا وزارت تعلیم نے پیش کیا کیونکہ یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق اگر یونیورسٹی کی سینیٹ نہ رہے تو ایسی صورت میں سینیٹ کی ایک سہ رکنی ایمرجنسی کمیٹی مختلف معاملات پر اپنی سفارشات دیتی ہے۔

"ایکسپریس " نے اس سلسلے میں چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد سے اردو یونیورسٹی کے معاملے پر رابطہ کیا تو ان کاکہنا تھا کہ "اردو یونیورسٹی کے لوگ ہی اس کے دشمن ہیں ، یہ خود چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی ایڈہاک ازم کا شکار رہے اور یہ لوگ اپنی من مانیاں کرتے رہیں اسی لیے انھوں نے وائس چانسلر کی مدت مکمل ہونے تک سینیٹ تشکیل ہی نہیں ہونے دی اب سینیٹ نہیں ہے تو وائس چانسلر کیسے لگائیں۔''
دوسری جانب "ایکسپریس" کو یونیورسٹی کی ایمرجنسی کمیٹی کی ایک ایسی آفیشل دستاویز موصول ہوئی جس میں اس بات کا بھی انکشاف موجود ہے کہ وزارت تعلیم کی جانب سے یونیورسٹی کے ہٹائے گئے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کو اجلاس کی روداد ( minutes of meeting) میں ترمیم کرکے سبکدوش کیا گیا اور اجلاس کے منٹس اصل فیصلوں کے برعکس جاری کیے گئے۔


اور پڑھیں: کراچی میں گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات 30مئی سے لینے کا فیصلہ

واضح رہے کہ سینیٹ کہ اس ایمرجنسی کمیٹی میں رکن سینیٹ واجد جواد ، ڈاکٹر سروش لودھی اور پروفیسر خالد انیس شامل ہیں اس کمیٹی کا اجلاس 31 مارچ کو منعقدہ ہوا تھا۔

دستاویز میں کمیٹی کی جانب سے اس امر کا انکشاف موجود ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم 27 فروری کو ایک خط جاری کرتی ہے جس کے مطابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین 2 اپریل 2023 کو اپنی مدت پوری کرلیں گے جبکہ سینیٹ کے منعقدہ اجلاس میں اس کے برعکس طے ہوا تھا۔

اجلاس میں کہا گیا تھا کہ قائم مقام وائس چانسلر 2 فروری تک تعینات ہیں جس کے بعد رکن سینیٹ اور این ای ڈی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی اردو یونیورسٹی کا چارج لے لیں گے تاہم اگر ڈاکٹر سروش لودھی یہ چارج نہیں لیتے تو ایسی صورت میں مستقل وائس چانسلر کی تقرری تک قائم مقام سربراہ کا چارج ڈاکٹر ضیاء الدین کے پاس ہی رہے گا لہذا وزارت تعلیم کا مذکورہ نوٹیفکیشن سینیٹ اجلاس کے فیصلے کے برخلاف اور درست نہیں ہے۔
واضح رہے کہ تمام متعلقہ اراکین کے دستخط پر مشتمل اسی دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وائس چانسلر کو ہٹانے سے سینیٹ بھی عملی طور پر ختم ہوجائے گی کیونکہ وہ کورم پورا ہونے کے لیے آخری یا نویں رکن ہیں مزید یہ کہ سینیٹ کا اجلاس محض کورم پورا نہ ہونے کے سبب پہلے 17 فروری 2023 اور پھر 18 مارچ 2023 کو ملتوی ہوچکا ہے جس کے سبب نئے اور مستقل وائس چانسلر کے لیے سرچ کمیٹی تک فعال نہیں ہوسکی ہے۔

اور پڑھیں: پنجاب کے اسکولوں میں گرمیوں کی تعطیلات کا اعلان کردیا گیا

جبکہ مختلف پوزیشنز کے لیے سینیٹ کے 6 اراکین کے علاوہ ڈپٹی چیئرمین کی تقرری بھی التواء کا شکار ہے اس سلسلے میں ایوان صدر وزارت تعلیم کو باضابطہ کہہ چکا ہے لیکن وزارت تعلیم نوٹیفکیشن جاری نہیں کررہی۔
ادھر اس معاملے پر وزارت تعلیم کے ذرائع کہتے ہیں کہ جن چھ افراد کے نام سینیٹ کے لیے ہمیں ایوان صدر سے موصول ہوئے ان میں ایک ایسا نام ڈاکٹر صارم کا موجود ہے جن کی ترقی سمیت دیگر معاملات پر پہلے ہی تحقیقات ہورہی ہے، لہذا انھیں کس طرح رکن سینیٹ بنا دیں اور اسی بنیاد پر تمام چھ نام ایوان صدر کو اعتراض کے ساتھ واپس کردیے گئے جبکہ ڈپٹی چیئر پر ایوان صدر کی جانب سے ایک بار پھر اسی نام کی تکرار کردی گئی جو حال ہی میں اس نشست سے ریٹائر ہوئے تھے اور مختلف امور میں ان کی مداخلت پر بھی وزارت معترض ہے۔

"ایکسپریس" نے اس صورتحال پر وفاقی سیکریٹری تعلیم وسیم اجمل سے رابطہ کیا تو ان کاکہنا تھا کہ اردو یونیورسٹی کے ایکٹ میں کئی مشکلات ہیں جس کی وجہ سے معاملات رکے ہوئے ہیں، long term میں اس کے ایکٹ میں تبدیلی کرنی ہے جس پر کام ہورہا ہے جبکہ short term میں وائس چانسلر کا تقرر کرنا ہے لیکن ایکٹ کے تحت یہ سینیٹ کے بغیر نہیں ہوسکتا اور سینیٹ مکمل نہیں ہے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جب سینیٹ ہی نہیں رہی تو سینیٹ کی ایمرجنسی کمیٹی کیسے رہے گی تاہم جب انھیں یاد دلایا گیا کہ ایمرجنسی کمیٹی میں شامل افراد کی سینیٹ کی رکنیت کی مدت ابھی باقی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی ایمرجنسی کمیٹی کے پاس یہ مینڈیٹ نہیں کہ وہ وائس چانسلر کے لیے نام دے سکے۔

علاوہ ازیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم نے یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک نیا بل تیار کیا ہے جسے قومی اسمبلی میں پیش کیا جانا ہے ، اس بل میں ڈپٹی چیئر کا عہدہ ختم اور سینیٹ کے اجلاس کی صدارت صدر مملکت یا ڈپٹی چیئر کے بجائے وائس چانسلر کو دینے کی سفارش موجود ہے۔

بل میں سینیٹ میں فیکلٹی اراکین کی نامزدگیوں کے بجائے انھیں انتخابات کے ذریعے سینیٹ کا رکن بنانے کی بات کی گئی ہے جبکہ یونیورسٹی وائس چانسلر کا تقرر اردو یونیورسٹی سینیٹ کی بنائی گئی سرچ کمیٹی کے بجائے ایچ ای سی کو اس کا اختیار دینے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ ایچ ای سی کی کمیٹی خود بنائے ۔

 

 
Load Next Story