آلو کی 10 لاکھ ٹن قلت قیمتیں 70 روپے کلو تک پہنچ گئیں
بھارتی سے درآمد شدہ آلو پاکستان پہنچ کر 27 سے 28 روپے فی کلو پڑے گا، درآمدکنندگان
پاکستان نے آلو کی طلب پوری کرنے کے لیے ایک بار پھر بھارت کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے۔
درآمد کنندگان کے مطابق پاکستان میں اس سال 10لاکھ ٹن آلو کی قلت کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کے لیے کم از کم 5لاکھ ٹن آلو بھارت سے درآمد کرنا پڑے گا۔ درآمد کنندگان کے مطابق بھارت سے درآمد شدہ آلو پاکستان میں طلب پوری کرنے اور قیمتوں کو مستحکم کرنے کا واحد ذریعہ ہے، بنگلہ دیش سے آلو کی درآمد مہنگی پڑے گی، بھارتی آلو پاکستان پہنچ کر 27سے 28روپے فی کلو پڑے گا جسے خوردہ سطح پر 35روپے کلو فروخت کیا جاسکے گا تاہم حکومت کی جانب سے ڈیوٹی ٹیکسز ختم کرنے کے فیصلے میں تاخیر کی صورت میں بھارت سے بھی آلو کی درآمد مشکل ہوجائے گی کیونکہ بھارت میں مون سون کا موسم شروع ہونے کے سبب آلو کی فصل فوری طور پر گوداموں اور کولڈ اسٹوریج میں محفوظ کردی جائے گی اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں بھی اضافے کا سامنا ہو گا اور مارکیٹ چڑھ جائے گی۔
درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی راست قدم ہے تاہم اس سال آلو کی قلت پوری کرنے کے لیے لازمی طور پر درآمدات کا سہارا لینا پڑے گا اور تاخیر ہونے کی صورت میں حکومت کو ڈیوٹی وٹیکسز کے خاتمے کے ساتھ درآمد پر سبسڈی بھی دینا پڑسکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش سے آلو کی درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے، بنگلہ دیش میں کنٹینرز دستیاب نہیں ہیں جبکہ فریٹ زیادہ ہونے سے بھی آلو کی لینڈڈ کاسٹ 40روپے سے زائد رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے، بھارت آلو کا اپنا بیج استعمال کرتا ہے جبکہ بنگلہ دیش پاکستان کی طرح یورپی بیج استعمال کرتا ہے، بھارت سے 3 تا4 روز میں آلو پاکستان پہنچ جائے گا جبکہ بنگلہ دیش سے آنے میں 9سے 10روز لگیں گے۔
ادھر کراچی کی مارکیٹ میں آلو کی تھوک قیمت 48روپے تک پہنچنے کے بعد کم ہو کر 41روپے فی کلو تک آگئی ہے جس کی وجہ حکومت کی سختی بتائی جاتی ہے تاہم ملک کے اسلام آباد سمیت بعض شہروں میں ریٹیل میں آلو70 روپے فی کلوگرام فروخت کیا جا رہا ہے۔ آڑہتیوں کا کہنا ہے کہ اسٹور اور گوداموں میں بھی اسٹاک محدود ہے، زیادہ تر آلو اس سال افغانستان اور سینٹرل ایشیائی ریاستوں کو ایکسپورٹ کر دیا گیا جبکہ آلو کی کاشت کے موقع پر ناموافق موسم کا سامنا کرنا پڑا جس سے بیج ضائع ہوگیا اور آلو کی دوبارہ بوائی کی گئی، اس دوران نومبر میں ایکسپورٹ کی طلب آنے پر کچا اور ان میچور آلو نکال کر ایکسپورٹ کردیا گیا جس سے قلت شدت اختیار کرگئی۔
درآمد کنندگان کے مطابق پاکستان میں اس سال 10لاکھ ٹن آلو کی قلت کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کے لیے کم از کم 5لاکھ ٹن آلو بھارت سے درآمد کرنا پڑے گا۔ درآمد کنندگان کے مطابق بھارت سے درآمد شدہ آلو پاکستان میں طلب پوری کرنے اور قیمتوں کو مستحکم کرنے کا واحد ذریعہ ہے، بنگلہ دیش سے آلو کی درآمد مہنگی پڑے گی، بھارتی آلو پاکستان پہنچ کر 27سے 28روپے فی کلو پڑے گا جسے خوردہ سطح پر 35روپے کلو فروخت کیا جاسکے گا تاہم حکومت کی جانب سے ڈیوٹی ٹیکسز ختم کرنے کے فیصلے میں تاخیر کی صورت میں بھارت سے بھی آلو کی درآمد مشکل ہوجائے گی کیونکہ بھارت میں مون سون کا موسم شروع ہونے کے سبب آلو کی فصل فوری طور پر گوداموں اور کولڈ اسٹوریج میں محفوظ کردی جائے گی اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں بھی اضافے کا سامنا ہو گا اور مارکیٹ چڑھ جائے گی۔
درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی راست قدم ہے تاہم اس سال آلو کی قلت پوری کرنے کے لیے لازمی طور پر درآمدات کا سہارا لینا پڑے گا اور تاخیر ہونے کی صورت میں حکومت کو ڈیوٹی وٹیکسز کے خاتمے کے ساتھ درآمد پر سبسڈی بھی دینا پڑسکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش سے آلو کی درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے، بنگلہ دیش میں کنٹینرز دستیاب نہیں ہیں جبکہ فریٹ زیادہ ہونے سے بھی آلو کی لینڈڈ کاسٹ 40روپے سے زائد رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے، بھارت آلو کا اپنا بیج استعمال کرتا ہے جبکہ بنگلہ دیش پاکستان کی طرح یورپی بیج استعمال کرتا ہے، بھارت سے 3 تا4 روز میں آلو پاکستان پہنچ جائے گا جبکہ بنگلہ دیش سے آنے میں 9سے 10روز لگیں گے۔
ادھر کراچی کی مارکیٹ میں آلو کی تھوک قیمت 48روپے تک پہنچنے کے بعد کم ہو کر 41روپے فی کلو تک آگئی ہے جس کی وجہ حکومت کی سختی بتائی جاتی ہے تاہم ملک کے اسلام آباد سمیت بعض شہروں میں ریٹیل میں آلو70 روپے فی کلوگرام فروخت کیا جا رہا ہے۔ آڑہتیوں کا کہنا ہے کہ اسٹور اور گوداموں میں بھی اسٹاک محدود ہے، زیادہ تر آلو اس سال افغانستان اور سینٹرل ایشیائی ریاستوں کو ایکسپورٹ کر دیا گیا جبکہ آلو کی کاشت کے موقع پر ناموافق موسم کا سامنا کرنا پڑا جس سے بیج ضائع ہوگیا اور آلو کی دوبارہ بوائی کی گئی، اس دوران نومبر میں ایکسپورٹ کی طلب آنے پر کچا اور ان میچور آلو نکال کر ایکسپورٹ کردیا گیا جس سے قلت شدت اختیار کرگئی۔