حکومت نئی ملٹری کورٹس کے لیے آئین میں کوئی ترمیم نہیں کررہی بلاول بھٹو
’جس قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے اسی قانون کے مطابق ہی کاروائی ہوگی، پی ٹی آئی پر پابندی کی اب مخالفت نہیں کریں گے‘
وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میڈیا میں ملٹری کورٹس کے حوالے سے غلط فہمی ہے. حکومت آئینی ترمیم کے زریعے کوئی نئی ملٹری کورٹس قائم نہیں کررہی ہے۔
بلاول بھٹو نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم قانون میں کوئی ترمیم لیکر نہیں آرہے ہیں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ قانون میں پہلے سے موجود ہے، جس قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے اسی قانون کے مطابق ہی کاروائی ہوگی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی مخالفت کرتا ہو لیکن سیاسی جماعتوں کو بھی سیاسی جماعت بن کر رہنا ہوگا، اگر کوئی سیاسی جماعت دہشتگرد تنظیم بننا چاہتی ہے تو پھر قانون کے مطابق کاروائی ہوگی، پی ٹی آئی میں سیاسی جماعت بننے کی صلاحیت موجود ہے، جب تک عمران خان جیسے شخص کا کردار غیر جمہوری ہو گا تو بات چیت کیسے ہوگی۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ کور کمانڈر ہاؤس کے علاوہ فوجی تنصیبات پر بھی حملے ہوئے، ایک منظم انداز سے پاکستانی فوجی تنصیبات پر حملے کئے، کوئی پاکستانی ایسا نہیں ہو گا جو اس کی مذمت نہ کرے، ہم نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے پر کابینہ میں مخالفت کی تاہم انہوں نے تمام ریڈلائنز کراس کر دی ہیں اب ہم کچھ نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کے درمیان بارڈر مارکیٹ اور بجلی ترسیل کاافتاح ہوا ہے، ایک سال میں جن ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے ان میں ایران ہے اور ہم ایران سے مزید بہتر تعلقات کے خواہش مند ہیں، دونوں ممالک نے سیکیورٹی مسائل کے مشترکہ حل پر زور دیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیر اعظم کے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت پر بات نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے دو طرفہ تعلقات کی بحالی پانچ اگست اقدام کی واپسی کے بعد ممکن ہے، اگر بھارت سے بات کرنی ہے تو چند معاملات پر فیصلہ کرنا ہو گا، بھارت یکطرفہ طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے مجھے علم نہ تھا کہ میں پہلا وزیر خارجہ ہوں جس نے جموں وکشمیر اسمبلی میں خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ نو مئی کے واقعات سے قبل پیپلزپارٹی پی ٹی آئی مذاکرات کی سب سے بڑی حامی تھی اور بات چیت چل بھی رہی تھی مگر پھر عمران خان کی ضد اور رویے کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے، اب ہمارے پاس بحیثیت سیاسی جماعت کوئی آپشن نہیں کہ بات چیت کریں، ہمارے اور پی ٹی آئی کے وفود نے انتخابات کی تاریخ پر مذاکرات کر لئے تھے مگر عمران خان کی وجہ سے مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ ہمارے جو بھی اندرونی معاملات ہوں کشمیر پر اب بھی متفق ہیں، جموں و کشمیر کے نمائندوں کو او آئی سی میں اوبزرور اسٹیٹس دیا گیا ہے، بی بی شہید کے دور میں موقع دیا کہ کنٹیکٹ گروپ میں بیٹھ کر کشمیر کی نمائندگی بھی کرتے ہیں، میں نے او آئی سی میٹنگ میں کشمیر کو بحیثیت اوبزور بٹھایا اور تقریر کا موقع دیا۔
کشمیری وزیراعظم نے او آئی سی سی ایف ایم میں کشمیر کی نمائندگی کی، افغانستان کے معاملے پر ہم سیکیورٹی معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں پاکستان کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔
بلاول بھٹو نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم قانون میں کوئی ترمیم لیکر نہیں آرہے ہیں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ قانون میں پہلے سے موجود ہے، جس قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے اسی قانون کے مطابق ہی کاروائی ہوگی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی مخالفت کرتا ہو لیکن سیاسی جماعتوں کو بھی سیاسی جماعت بن کر رہنا ہوگا، اگر کوئی سیاسی جماعت دہشتگرد تنظیم بننا چاہتی ہے تو پھر قانون کے مطابق کاروائی ہوگی، پی ٹی آئی میں سیاسی جماعت بننے کی صلاحیت موجود ہے، جب تک عمران خان جیسے شخص کا کردار غیر جمہوری ہو گا تو بات چیت کیسے ہوگی۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ کور کمانڈر ہاؤس کے علاوہ فوجی تنصیبات پر بھی حملے ہوئے، ایک منظم انداز سے پاکستانی فوجی تنصیبات پر حملے کئے، کوئی پاکستانی ایسا نہیں ہو گا جو اس کی مذمت نہ کرے، ہم نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے پر کابینہ میں مخالفت کی تاہم انہوں نے تمام ریڈلائنز کراس کر دی ہیں اب ہم کچھ نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کے درمیان بارڈر مارکیٹ اور بجلی ترسیل کاافتاح ہوا ہے، ایک سال میں جن ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے ان میں ایران ہے اور ہم ایران سے مزید بہتر تعلقات کے خواہش مند ہیں، دونوں ممالک نے سیکیورٹی مسائل کے مشترکہ حل پر زور دیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیر اعظم کے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت پر بات نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے دو طرفہ تعلقات کی بحالی پانچ اگست اقدام کی واپسی کے بعد ممکن ہے، اگر بھارت سے بات کرنی ہے تو چند معاملات پر فیصلہ کرنا ہو گا، بھارت یکطرفہ طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے مجھے علم نہ تھا کہ میں پہلا وزیر خارجہ ہوں جس نے جموں وکشمیر اسمبلی میں خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ نو مئی کے واقعات سے قبل پیپلزپارٹی پی ٹی آئی مذاکرات کی سب سے بڑی حامی تھی اور بات چیت چل بھی رہی تھی مگر پھر عمران خان کی ضد اور رویے کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے، اب ہمارے پاس بحیثیت سیاسی جماعت کوئی آپشن نہیں کہ بات چیت کریں، ہمارے اور پی ٹی آئی کے وفود نے انتخابات کی تاریخ پر مذاکرات کر لئے تھے مگر عمران خان کی وجہ سے مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ ہمارے جو بھی اندرونی معاملات ہوں کشمیر پر اب بھی متفق ہیں، جموں و کشمیر کے نمائندوں کو او آئی سی میں اوبزرور اسٹیٹس دیا گیا ہے، بی بی شہید کے دور میں موقع دیا کہ کنٹیکٹ گروپ میں بیٹھ کر کشمیر کی نمائندگی بھی کرتے ہیں، میں نے او آئی سی میٹنگ میں کشمیر کو بحیثیت اوبزور بٹھایا اور تقریر کا موقع دیا۔
کشمیری وزیراعظم نے او آئی سی سی ایف ایم میں کشمیر کی نمائندگی کی، افغانستان کے معاملے پر ہم سیکیورٹی معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں پاکستان کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔