پاکستان کے عوام کے پاس دو راستے ہیں
یقین رکھیے آپ کو اس طرح رونے،کوسنے اور برا بھلا کہنے سے کوئی بھی نہیں روکے گا
ہاورڈ یونیورسٹی کے مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز نے کہا تھا '' میری نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے رحجان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو تبدیل کرسکتے ہیں'' ساڑھے تین سو سال پہلے جب انگریزی کا غیر فانی شاعر ملٹن اندھا ہوا تھا تو اس نے بھی یہ ہی حقیقت معلوم کی تھی کہ '' ذہن خود ہی اپنا مقام ہے اور خود ہی بنا سکتا ہے جنت سے جہنم اور جہنم سے جنت۔'' عظیم فلسفی اپیکٹیٹس متنبہ کرتا ہے کہ '' ہمیں اپنے جسم سے ورم ، پھوڑے اور رسولیاں دورکرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر و کوشش کرنی چاہیے۔
اپیکٹیٹس نے یہ الفاظ انیس صدیاں قبل کہے تھے لیکن جدید طب اب بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔ ایک مشہور ادیب اپنی کتاب لکھنے کے دوران شکاگو یونیورسٹی گئے اور چانسلر رابرٹ مینارڈ ہیوچنز سے پوچھا آپ پریشانیوں سے کیسے دور رہتے ہیں۔
انھوں نے جواب دیا میں ہمیشہ اس چھوٹی سی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، جو مجھے سیزر روبک اینڈ کمپنی کے سابق صدر جولیس روزن والڈ نے کی تھی '' اگر تمہیں نیبو ملا ہو تو اس سے شربت بنالو '' ایک بڑے ماہر تعلیم کا تو یہ طریقہ تھا لیکن ایک بیوقوف اس کے برعکس کرتا ہے اگر وہ دیکھتا ہے کہ زندگی نے اسے کوئی نیبو دیا ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے اور چلانے لگتا ہے ہائے میں لٹ گیا پٹ گیا قسمت نے مجھے مار ڈالا مجھے کوئی موقع نہ ملا پھر وہ ساری دنیا کے خلاف شکایت کے دفتر کھول دیتا ہے اور خو د ترستی کی لعنت میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن جب عقل مند انسان کو نیبو ملتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس مصیبت سے کیا سبق سیکھ سکتا ہوں، میں اپنی حالت کیسے سدھار سکتا ہوں۔ میں اس نیبو سے شربت کیسے بنا سکتا ہوں۔
زندگی بھر انسانوں اور ان کی قوموںکے پوشیدہ سر چشموں کا مطالعہ کرنے کے بعد عظیم ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے اعلان کیا '' انسان میں ایک تعجب خیز خوبی یہ ہے کہ اس کے پاس منفی کو مثبت میں بدل دینے کی قوت ہے۔'' موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لوگوں کے پاس دو واضح راستے موجود ہیں ایک تو وہ بے وقوفوں کی طرح اپنی قسمت کو کوستے رہیں، چلاتے رہیں، ہائے وہ لٹ گئے، پٹ گئے قسمت نے انھیں مار ڈالا اور ساتھ ساتھ ساری دنیا کو بر ا بھلا کہتے رہیں۔
یقین رکھیے آپ کو اس طرح رونے،کوسنے اور برا بھلا کہنے سے کوئی بھی نہیں روکے گا اور دوسرا راستہ عقل مندوں کا ہے کہ آپ ایک لمحے ٹہریں سوچیں ارادہ کریں اور اپنی قسمت اور نصیب کو بدلنے کی جدوجہد کا آغازکر دیں۔ لٹیروں، چوروں، ڈاکوؤں کے سامنے صف آراء ہو جائیں ڈٹ جائیں انھیں صاف صاف بتادیں کہ بس بہت ہوچکا اب کسی بھی صورت تمہاری یہ لوٹ مار،کرپشن، ڈاکہ زنی برداشت نہیں کی جائے گی۔
اب ہمیں اپنی بے اختیاری، اپنی غربت ، اپنی ذلت ، اپنی خواری ، اپنی بے بسی، اپنی بیروزگاری سے نفرت ہوگئی ہے۔ ملک کے تمام اختیارات اور وسائل کے ہم مالک ہیں لیکن ان پر تمہارا جبراً قبضہ اب ہم اور برداشت نہیں کریں گے اور اپنی اس آواز کے دیے سے دیا جلانا شروع کردیں۔ پھر دیکھیں یہ چور، لٹیرے، بدکار ،ڈاکو کس طرح تمہارے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور کس طرح اپنی زندگیوں کی بھیک تم سے مانگتے ہیں۔
یاد رکھو، عوام سے بڑی طاقت دنیا میں کوئی اور نہیں ہے بس تمہاری للکارکی دیر ہے ۔ تمہیں حضرت داؤد علیہ السلام اور گولائتھ کی لڑائی کا واقعہ تو یاد ہوگا۔ گولائتھ ایک دیو نما شخص تھا، ایک دن پندرہ سالہ چرواہا بچہ اپنے بھائیوں سے ملنے آیا۔ اس بچے نے کہا '' تم اس دیو سے لڑنے کے لیے کیوں نہیں اٹھتے'' اس کے بھائی گولائتھ سے خوف زدہ تھے۔
انھوں نے کہا '' تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ اتنا لحیم شحیم ہے کہ اسے مارا نہیں جاسکتا۔'' حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا '' نہیں وہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اسے مارا نہ جاسکے۔'' اس کے لحیم شحیم ہونے کا تو فائدہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی وار خالی نہیں جاسکتا اور یہ ہی ہوا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے غلیل سے مار ڈالا۔
ہمیں بھی اشرافیہ کے دیوکا سامنا ہے۔ اس کے لحیم شحیم ہونے کا ہمیں بھی یہ ہی فائدہ حاصل ہے کہ ہمارا کوئی بھی وار خالی نہیں جاسکتا اور یقین ہی نہیں بلکہ ایمان ہے کہ ہم اس دیو کو غلیل سے مار ڈالیں گے۔ بس ارادے کی دیر ہے، اگر خود آپ اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو اور کوئی چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔
پکوڈیلہ میرا نڈولہ (1396تا1459) نے انسان پر اپنے اعتماد کا اظہار ان مشہور الفاظ میں کیا ہے، جو اس نے اپنی کتاب '' انسان کی عظمت پر ایک خطبہ '' میں خدا سے منسوب کیے ہیں۔ پکوڈیلہ کے الفاظ میں خدا آدم سے مخاطب ہوکرکہتا ہے۔ ''اے آدم ! میں نے تمہاری تقدیر نہ ہی پہلے سے طے کی ہے اور نہ ہی تمہیں خصوصی مراعات دی ہیں۔
میں چاہتا ہوں کہ تم خود اپنے فیصلے اور انتخاب کے ذریعے یہ سب کچھ حاصل کرو، تمہارے سوا میری تمام مخلوقات میرے طے کردہ قوانین کے مطابق زندگی بسرکرتی ہیں۔
ان کی فطرت ہی یہی ہے لیکن تم اپنی فطرت کا تعین کسی رکاوٹ کے بغیر اس آزادی کے ذریعے خود ہی کروگے، جو میں نے تمہیں عطا کی ہے میں نے تمہیں کائنات کے مرکز میں رکھ دیا ہے تاکہ اس مقام سے تم بہتر نظارہ کرسکو تم نہ ہی آسمانی مخلوق ہو نہ ہی محض اس دنیا کی۔ تم نہ فانی ہو اور نہ ہی لافانی یہ اس لیے ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار دستکار کی طرح تم اپنے آپ کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال سکو۔
امریکی فلاسفر ایمرسن کے الفاظ میں ایک انسان وہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے اور اس سے مختلف وہ ہو بھی کیا سکتا ہے اگر ہم خوشی اور مسرت کے خیالات سوچیں گے تو ہم خوش اور مسرور رہیں گے، اگر ہمارے خیالات افسردہ پژمردہ ہیں تو ہم پر بھی افسردگی اور پژمردگی محیط ہوجائے گی۔
بزدلانہ خیالات ہمیں بزدل اور ڈرپوک بنادیں گے، بیمار خیالات ہمیں بیمار بنا دیں گے اگر ہم ناکامی کے متعلق سوچیں گے تو ہم یقینا ناکام رہیں گے اگر ہم اپنے آپ پر ترس کھاتے رہیں گے تو ہر کوئی ہم سے گریز کرے گا ہم سے دور بھاگے گا اور ہم سارا وقت انتقام کے بارے میں سوچتے رہیں گے اور الجھنوں کا تانا بانا بنتے رہیں گے تو ہم چارلس ڈارون کے '' مہیب اژدہوں '' کے ریورٹر پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکیں گے اور یہ اژدہے ہمیں کھوکھلا کردیں گے اور ہماری قوت ارادی اور قوم عمل کو تباہ کر دیں گے۔
اپیکٹیٹس نے یہ الفاظ انیس صدیاں قبل کہے تھے لیکن جدید طب اب بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔ ایک مشہور ادیب اپنی کتاب لکھنے کے دوران شکاگو یونیورسٹی گئے اور چانسلر رابرٹ مینارڈ ہیوچنز سے پوچھا آپ پریشانیوں سے کیسے دور رہتے ہیں۔
انھوں نے جواب دیا میں ہمیشہ اس چھوٹی سی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، جو مجھے سیزر روبک اینڈ کمپنی کے سابق صدر جولیس روزن والڈ نے کی تھی '' اگر تمہیں نیبو ملا ہو تو اس سے شربت بنالو '' ایک بڑے ماہر تعلیم کا تو یہ طریقہ تھا لیکن ایک بیوقوف اس کے برعکس کرتا ہے اگر وہ دیکھتا ہے کہ زندگی نے اسے کوئی نیبو دیا ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے اور چلانے لگتا ہے ہائے میں لٹ گیا پٹ گیا قسمت نے مجھے مار ڈالا مجھے کوئی موقع نہ ملا پھر وہ ساری دنیا کے خلاف شکایت کے دفتر کھول دیتا ہے اور خو د ترستی کی لعنت میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن جب عقل مند انسان کو نیبو ملتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس مصیبت سے کیا سبق سیکھ سکتا ہوں، میں اپنی حالت کیسے سدھار سکتا ہوں۔ میں اس نیبو سے شربت کیسے بنا سکتا ہوں۔
زندگی بھر انسانوں اور ان کی قوموںکے پوشیدہ سر چشموں کا مطالعہ کرنے کے بعد عظیم ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے اعلان کیا '' انسان میں ایک تعجب خیز خوبی یہ ہے کہ اس کے پاس منفی کو مثبت میں بدل دینے کی قوت ہے۔'' موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لوگوں کے پاس دو واضح راستے موجود ہیں ایک تو وہ بے وقوفوں کی طرح اپنی قسمت کو کوستے رہیں، چلاتے رہیں، ہائے وہ لٹ گئے، پٹ گئے قسمت نے انھیں مار ڈالا اور ساتھ ساتھ ساری دنیا کو بر ا بھلا کہتے رہیں۔
یقین رکھیے آپ کو اس طرح رونے،کوسنے اور برا بھلا کہنے سے کوئی بھی نہیں روکے گا اور دوسرا راستہ عقل مندوں کا ہے کہ آپ ایک لمحے ٹہریں سوچیں ارادہ کریں اور اپنی قسمت اور نصیب کو بدلنے کی جدوجہد کا آغازکر دیں۔ لٹیروں، چوروں، ڈاکوؤں کے سامنے صف آراء ہو جائیں ڈٹ جائیں انھیں صاف صاف بتادیں کہ بس بہت ہوچکا اب کسی بھی صورت تمہاری یہ لوٹ مار،کرپشن، ڈاکہ زنی برداشت نہیں کی جائے گی۔
اب ہمیں اپنی بے اختیاری، اپنی غربت ، اپنی ذلت ، اپنی خواری ، اپنی بے بسی، اپنی بیروزگاری سے نفرت ہوگئی ہے۔ ملک کے تمام اختیارات اور وسائل کے ہم مالک ہیں لیکن ان پر تمہارا جبراً قبضہ اب ہم اور برداشت نہیں کریں گے اور اپنی اس آواز کے دیے سے دیا جلانا شروع کردیں۔ پھر دیکھیں یہ چور، لٹیرے، بدکار ،ڈاکو کس طرح تمہارے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور کس طرح اپنی زندگیوں کی بھیک تم سے مانگتے ہیں۔
یاد رکھو، عوام سے بڑی طاقت دنیا میں کوئی اور نہیں ہے بس تمہاری للکارکی دیر ہے ۔ تمہیں حضرت داؤد علیہ السلام اور گولائتھ کی لڑائی کا واقعہ تو یاد ہوگا۔ گولائتھ ایک دیو نما شخص تھا، ایک دن پندرہ سالہ چرواہا بچہ اپنے بھائیوں سے ملنے آیا۔ اس بچے نے کہا '' تم اس دیو سے لڑنے کے لیے کیوں نہیں اٹھتے'' اس کے بھائی گولائتھ سے خوف زدہ تھے۔
انھوں نے کہا '' تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ اتنا لحیم شحیم ہے کہ اسے مارا نہیں جاسکتا۔'' حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا '' نہیں وہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اسے مارا نہ جاسکے۔'' اس کے لحیم شحیم ہونے کا تو فائدہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی وار خالی نہیں جاسکتا اور یہ ہی ہوا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے غلیل سے مار ڈالا۔
ہمیں بھی اشرافیہ کے دیوکا سامنا ہے۔ اس کے لحیم شحیم ہونے کا ہمیں بھی یہ ہی فائدہ حاصل ہے کہ ہمارا کوئی بھی وار خالی نہیں جاسکتا اور یقین ہی نہیں بلکہ ایمان ہے کہ ہم اس دیو کو غلیل سے مار ڈالیں گے۔ بس ارادے کی دیر ہے، اگر خود آپ اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو اور کوئی چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔
پکوڈیلہ میرا نڈولہ (1396تا1459) نے انسان پر اپنے اعتماد کا اظہار ان مشہور الفاظ میں کیا ہے، جو اس نے اپنی کتاب '' انسان کی عظمت پر ایک خطبہ '' میں خدا سے منسوب کیے ہیں۔ پکوڈیلہ کے الفاظ میں خدا آدم سے مخاطب ہوکرکہتا ہے۔ ''اے آدم ! میں نے تمہاری تقدیر نہ ہی پہلے سے طے کی ہے اور نہ ہی تمہیں خصوصی مراعات دی ہیں۔
میں چاہتا ہوں کہ تم خود اپنے فیصلے اور انتخاب کے ذریعے یہ سب کچھ حاصل کرو، تمہارے سوا میری تمام مخلوقات میرے طے کردہ قوانین کے مطابق زندگی بسرکرتی ہیں۔
ان کی فطرت ہی یہی ہے لیکن تم اپنی فطرت کا تعین کسی رکاوٹ کے بغیر اس آزادی کے ذریعے خود ہی کروگے، جو میں نے تمہیں عطا کی ہے میں نے تمہیں کائنات کے مرکز میں رکھ دیا ہے تاکہ اس مقام سے تم بہتر نظارہ کرسکو تم نہ ہی آسمانی مخلوق ہو نہ ہی محض اس دنیا کی۔ تم نہ فانی ہو اور نہ ہی لافانی یہ اس لیے ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار دستکار کی طرح تم اپنے آپ کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال سکو۔
امریکی فلاسفر ایمرسن کے الفاظ میں ایک انسان وہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے اور اس سے مختلف وہ ہو بھی کیا سکتا ہے اگر ہم خوشی اور مسرت کے خیالات سوچیں گے تو ہم خوش اور مسرور رہیں گے، اگر ہمارے خیالات افسردہ پژمردہ ہیں تو ہم پر بھی افسردگی اور پژمردگی محیط ہوجائے گی۔
بزدلانہ خیالات ہمیں بزدل اور ڈرپوک بنادیں گے، بیمار خیالات ہمیں بیمار بنا دیں گے اگر ہم ناکامی کے متعلق سوچیں گے تو ہم یقینا ناکام رہیں گے اگر ہم اپنے آپ پر ترس کھاتے رہیں گے تو ہر کوئی ہم سے گریز کرے گا ہم سے دور بھاگے گا اور ہم سارا وقت انتقام کے بارے میں سوچتے رہیں گے اور الجھنوں کا تانا بانا بنتے رہیں گے تو ہم چارلس ڈارون کے '' مہیب اژدہوں '' کے ریورٹر پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکیں گے اور یہ اژدہے ہمیں کھوکھلا کردیں گے اور ہماری قوت ارادی اور قوم عمل کو تباہ کر دیں گے۔