ہوشیاری
پوری دنیا جموں کشمیر کی یہ حالت دیکھ رہی تھی تو وہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ جموں کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں
بھارت کا دفتر خارجہ پاکستان کے خلاف وہ پروپیگنڈا نہیں کر پا رہا جو بھارت کا ایک ریٹائرڈ میجر گورب آریہ کر رہا ہے۔ پاکستان سے اس کی دشمنی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔
کوئی ایسا دن نہیں جاتا جب وہ پاکستان کو ہدف تنقید نہ بناتا ہو۔ اب تو اس نے اپنا یوٹیوب چینل کھول لیا ہے جو سرکاری سرپرستی میں دن دونی رات چو گنی ترقی کر رہا ہے۔ انتہا پسند بھارتیوں نے اسے چند ہی مہینوں میں یوٹیوب کا ٹاپ ٹرینڈ چینل بنا دیا ہے۔
گورب کی آمدنی کا اب ٹھکانہ نہیں ہے سرکاری وظیفے کے علاوہ یو ٹیوب سے بھرپور آمدنی ہو رہی ہے۔ اس شخص کی اردو اتنی اچھی ہے کہ ہم پاکستانی نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بہترین اردو کی وجہ سے اس کے چینل کو کچھ دیر کے لیے ضرور سننے دیکھنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس نے مودی سرکار کی پالیسیوں کو عوام میں مقبول بنانے کا عزم کیا ہوا ہے۔ لگتا ہے یہ ہندوتوا کا پرچارک ہے اور آر ایس ایس کا پرانا کارکن ہے۔
یہ سری نگر میں G-20 کے انعقاد کو کامیاب بنانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا تھا، اس نے چین کے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے پرکہا تھا کہ اسے نہ آنے دو وہ صرف پاکستان کو خوش کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے، اگر وہ سری نگر نہیں آ رہا تو ہم بھی چین میں منعقد ہونے والی G-20 کے آیندہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے لیکن اگر یہ تبت کے کسی شہر میں منعقد ہوا، کیونکہ بھارت کے لیے تبت بھی ایک متنازعہ خطہ ہے۔
گورب بھول گیا کہ بھارت نے خود تبت کے جنوب مشرقی صوبے پر قبضہ کر رکھا ہے جسے اس نے ارونا چل کا نام دیا ہے۔
بھارت کی اگر تاریخ کو دیکھیں تو وہ علاقوں پر غاصبانہ قبضوں سے بھری پڑی ہے۔ اس نے آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد ہی حیدرآباد جیسی آزاد ریاست پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد 1961 میں گوا پر قبضہ کیا جو پرتگال کی ایک پرامن ریاست تھی یہ برسوں سے قائم تھی اس پر تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی قبضہ نہیں کیا تھا جوکہ اس وقت باآسانی قبضہ کرسکتی تھی۔
اسی طرح جنوبی بھارت میں واقع پوڈوچری نامی ایک فرینچ ریاست تھی، اس پر بھی انھوں نے قبضہ نہیں کیا مگر بھارت نے اسے بھی نہیں بخشا اور اس پر بھی قبضہ کرلیا۔ کشمیر پر بھارتی قبضہ قطعی بے جواز تھا کیونکہ وہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ اپنا الحاق چاہتے تھے مگر بھارت نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھارت کا گورنر جنرل بنا کر اس سے اس متنازع ریاست کو بھارت میں شامل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں مکمل کامیاب نہ ہو سکا۔
پاکستان کے بابائے قوم کی بصیرت افروز قیادت نے کشمیر کے ایک مناسب حصے کو بذریعہ جہاد حاصل کرلیا تھا جو اب آزاد کشمیر کہلاتا ہے یہ آزاد اس لیے کہ یہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق پاکستان کا حصہ قرار پایا ہے۔
اب اصل مسئلہ متنازع جموں کشمیر کا ہے جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اسے وہ بڑی ڈھٹائی سے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے، جب کہ اقوام متحدہ خود اس خطے کو متنازع ڈیکلیئر کر چکی ہے اور کئی قراردادیں بھی موجود ہیں کہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق وہاں کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
کشمیری عوام 1931 سے یہاں تحریک آزادی چلا رہے ہیں جسے پہلے ڈوگرہ راج اور اب بھارت سرکار دبانے کے لیے لاکھ جتن کرچکی ہے مگر وہ اسے دبا نہیں پائی ہیں۔ بھارت کی ایک اندازے کے مطابق نو لاکھ فوج یہاں موجود ہے جو قتل و غارت کے ذریعے کشمیریوں کو بھارت کا حصہ بننے پر مجبور کر رہی ہے مگر کشمیری بھارت سے پہلے بھی نفرت کرتے تھے اور اب بھی نفرت کر رہے ہیں، وہ شروع سے پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ اب تک لاکھوں جانیں قربان کر چکے ہیں۔
کانگریس کے دور تک اس ریاست کو ایک خصوصی درجہ حاصل تھا یہاں کے عدالتی قوانین پورے بھارت سے مختلف تھے یہاں کا جھنڈا تک الگ تھا یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ کانگریس حکومت کو اس ریاست کے بھارت کا حصہ نہ ہونے کا احساس تھا۔ یہاں کانگریس سرکار کی جانب سے کبھی یہاں قوانین اور خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور یہ کوشش کانگریس سرکار کرتی بھی کیسے کیونکہ ریاست کے بھارت کے زیر انتظام رہنے کے سلسلے میں شیخ عبداللہ اور نہرو کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا تھا۔
یہ معاہدہ اندرونی تھا اور اس سے کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر کوئی ضرب نہیں پڑی تھی، یعنی کشمیر بد ستور متنازع خطہ رہے گا اور یہاں کے مستقبل کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق یہاں کے عوام کریں گے۔
اس سلسلے میں بھارتی آئین میں دو شقیں 370 اور 35A خصوصی طور پر کشمیریوں کو مطمئن کرنے کے لیے رکھی گئی تھیں مگر اس سے صرف شیخ عبداللہ کی پارٹی اور دوسری بھارت نواز سیاسی پارٹیاں ہی مطمئن تھیں جب کہ عام کشمیری اس کے خلاف تھے وہ کسی طرح بھی بھارت کا حصہ بننا نہیں چاہتے تھے وہ نہ تو بھارتی آئین کو ہی تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اس میں رکھی گئیں شقیں 370 اور 35A کو تسلیم کرتے ہیں۔
کانگریس جب تک اس ریاست پر حکومت کرتی رہی بھارت نواز اس نظام سے خوش تھے اور اسی کے تحت ریاست کا انتظام چلا رہے تھے مگر جب سے بی جے پی حکومت نے یہاں کا کنٹرول سنبھالا ہے، اس نے اپنے قومی آئین کی دھجیاں بکھیر کر کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق شقیں 370 اور 35A کو یکدم ختم کردیا ہے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو ان شقوں کے ختم ہونے سے کشمیر کا بھارت کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہا کیونکہ انھی شقوں کے ذریعے کشمیر کو بھارت کے ساتھ زبردستی ناجائز طریقے سے جوڑا گیا تھا مگر مودی نے یہ چال چلی کہ اس نے جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ مودی کی یہ چال ناکام ثابت ہوئی ہے۔
اس طرح نہ تو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ختم ہو سکی اور نہ ہی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر کوئی فرق پڑا۔ ان قراردادوں کے مطابق اب بھی جموں کشمیر بھارت کا اپنا حصہ نہیں اور وہاں کے عوام کو حق خود ارادیت دیا جانا ضروری ہے۔
مودی کی جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی ناکام کوشش کے بعد اب وہ سری نگر میں G-20 کی سربراہی کانفرنس منعقد کر کے یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کر رہا تھا کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے اور یہاں کے عوام نے بھارت کے ساتھ رہنے کو تسلیم کرلیا ہے۔ مودی کی عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی یہ ہوشیاری ناکام ہو چکی ہے۔
اگر کشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں تو پھر وہاں اب بھی 9 لاکھ بھارتی فوجی کیوں براجمان ہیں وہاں اب بھی کشمیریوں کے لیے سخت قوانین کیوں موجود ہیں۔ کشمیری جیلوں میں بند ہزاروں کشمیریوں کو اب کیوں آزاد نہیں کیا جا رہا۔ وہاں سڑکوں پر چلتے پھرتے لوگوں کی چیکنگ اور گرفتاریاں کیوں جاری ہیں۔ G-20 سمٹ کے دوران پوری ریاست کو ایک فوجی کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
پوری دنیا جموں کشمیر کی یہ حالت دیکھ رہی تھی تو وہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ جموں کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں۔ سب سے خوش آیند بات یہ ہے کہ کچھ اسلامی ممالک بھی G-20 کا حصہ ہیں وہ فلسطین اور جموں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔
او آئی سی بھی جموں کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کرتی ہے اور کشمیریوں کی آزادی کے حق میں ہے چنانچہ سعودی عرب، ترکیہ، انڈونیشیا اور مصر کے سربراہان کا مودی کی دعوت کو ٹھکرانا یقینا مسلم امہ کی جیت ہے اور اس سے کشمیریوں کی آزادی کی راہ پہلے سے زیادہ ہموار ہوئی ہے۔
البتہ بڑی طاقتوں کی جانب سے اس سمٹ میں شرکت سے مودی کا کچھ غم ضرور کم ہوا ہے، مگر بڑی طاقتوں نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تکذیب کر کے عالمی برادری کی نظروں میں اپنی عزت مزید کھو دی ہے۔
کوئی ایسا دن نہیں جاتا جب وہ پاکستان کو ہدف تنقید نہ بناتا ہو۔ اب تو اس نے اپنا یوٹیوب چینل کھول لیا ہے جو سرکاری سرپرستی میں دن دونی رات چو گنی ترقی کر رہا ہے۔ انتہا پسند بھارتیوں نے اسے چند ہی مہینوں میں یوٹیوب کا ٹاپ ٹرینڈ چینل بنا دیا ہے۔
گورب کی آمدنی کا اب ٹھکانہ نہیں ہے سرکاری وظیفے کے علاوہ یو ٹیوب سے بھرپور آمدنی ہو رہی ہے۔ اس شخص کی اردو اتنی اچھی ہے کہ ہم پاکستانی نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بہترین اردو کی وجہ سے اس کے چینل کو کچھ دیر کے لیے ضرور سننے دیکھنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس نے مودی سرکار کی پالیسیوں کو عوام میں مقبول بنانے کا عزم کیا ہوا ہے۔ لگتا ہے یہ ہندوتوا کا پرچارک ہے اور آر ایس ایس کا پرانا کارکن ہے۔
یہ سری نگر میں G-20 کے انعقاد کو کامیاب بنانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا تھا، اس نے چین کے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے پرکہا تھا کہ اسے نہ آنے دو وہ صرف پاکستان کو خوش کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے، اگر وہ سری نگر نہیں آ رہا تو ہم بھی چین میں منعقد ہونے والی G-20 کے آیندہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے لیکن اگر یہ تبت کے کسی شہر میں منعقد ہوا، کیونکہ بھارت کے لیے تبت بھی ایک متنازعہ خطہ ہے۔
گورب بھول گیا کہ بھارت نے خود تبت کے جنوب مشرقی صوبے پر قبضہ کر رکھا ہے جسے اس نے ارونا چل کا نام دیا ہے۔
بھارت کی اگر تاریخ کو دیکھیں تو وہ علاقوں پر غاصبانہ قبضوں سے بھری پڑی ہے۔ اس نے آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد ہی حیدرآباد جیسی آزاد ریاست پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد 1961 میں گوا پر قبضہ کیا جو پرتگال کی ایک پرامن ریاست تھی یہ برسوں سے قائم تھی اس پر تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی قبضہ نہیں کیا تھا جوکہ اس وقت باآسانی قبضہ کرسکتی تھی۔
اسی طرح جنوبی بھارت میں واقع پوڈوچری نامی ایک فرینچ ریاست تھی، اس پر بھی انھوں نے قبضہ نہیں کیا مگر بھارت نے اسے بھی نہیں بخشا اور اس پر بھی قبضہ کرلیا۔ کشمیر پر بھارتی قبضہ قطعی بے جواز تھا کیونکہ وہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ اپنا الحاق چاہتے تھے مگر بھارت نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھارت کا گورنر جنرل بنا کر اس سے اس متنازع ریاست کو بھارت میں شامل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں مکمل کامیاب نہ ہو سکا۔
پاکستان کے بابائے قوم کی بصیرت افروز قیادت نے کشمیر کے ایک مناسب حصے کو بذریعہ جہاد حاصل کرلیا تھا جو اب آزاد کشمیر کہلاتا ہے یہ آزاد اس لیے کہ یہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق پاکستان کا حصہ قرار پایا ہے۔
اب اصل مسئلہ متنازع جموں کشمیر کا ہے جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اسے وہ بڑی ڈھٹائی سے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے، جب کہ اقوام متحدہ خود اس خطے کو متنازع ڈیکلیئر کر چکی ہے اور کئی قراردادیں بھی موجود ہیں کہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق وہاں کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
کشمیری عوام 1931 سے یہاں تحریک آزادی چلا رہے ہیں جسے پہلے ڈوگرہ راج اور اب بھارت سرکار دبانے کے لیے لاکھ جتن کرچکی ہے مگر وہ اسے دبا نہیں پائی ہیں۔ بھارت کی ایک اندازے کے مطابق نو لاکھ فوج یہاں موجود ہے جو قتل و غارت کے ذریعے کشمیریوں کو بھارت کا حصہ بننے پر مجبور کر رہی ہے مگر کشمیری بھارت سے پہلے بھی نفرت کرتے تھے اور اب بھی نفرت کر رہے ہیں، وہ شروع سے پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ اب تک لاکھوں جانیں قربان کر چکے ہیں۔
کانگریس کے دور تک اس ریاست کو ایک خصوصی درجہ حاصل تھا یہاں کے عدالتی قوانین پورے بھارت سے مختلف تھے یہاں کا جھنڈا تک الگ تھا یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ کانگریس حکومت کو اس ریاست کے بھارت کا حصہ نہ ہونے کا احساس تھا۔ یہاں کانگریس سرکار کی جانب سے کبھی یہاں قوانین اور خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور یہ کوشش کانگریس سرکار کرتی بھی کیسے کیونکہ ریاست کے بھارت کے زیر انتظام رہنے کے سلسلے میں شیخ عبداللہ اور نہرو کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا تھا۔
یہ معاہدہ اندرونی تھا اور اس سے کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر کوئی ضرب نہیں پڑی تھی، یعنی کشمیر بد ستور متنازع خطہ رہے گا اور یہاں کے مستقبل کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق یہاں کے عوام کریں گے۔
اس سلسلے میں بھارتی آئین میں دو شقیں 370 اور 35A خصوصی طور پر کشمیریوں کو مطمئن کرنے کے لیے رکھی گئی تھیں مگر اس سے صرف شیخ عبداللہ کی پارٹی اور دوسری بھارت نواز سیاسی پارٹیاں ہی مطمئن تھیں جب کہ عام کشمیری اس کے خلاف تھے وہ کسی طرح بھی بھارت کا حصہ بننا نہیں چاہتے تھے وہ نہ تو بھارتی آئین کو ہی تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اس میں رکھی گئیں شقیں 370 اور 35A کو تسلیم کرتے ہیں۔
کانگریس جب تک اس ریاست پر حکومت کرتی رہی بھارت نواز اس نظام سے خوش تھے اور اسی کے تحت ریاست کا انتظام چلا رہے تھے مگر جب سے بی جے پی حکومت نے یہاں کا کنٹرول سنبھالا ہے، اس نے اپنے قومی آئین کی دھجیاں بکھیر کر کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق شقیں 370 اور 35A کو یکدم ختم کردیا ہے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو ان شقوں کے ختم ہونے سے کشمیر کا بھارت کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہا کیونکہ انھی شقوں کے ذریعے کشمیر کو بھارت کے ساتھ زبردستی ناجائز طریقے سے جوڑا گیا تھا مگر مودی نے یہ چال چلی کہ اس نے جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ مودی کی یہ چال ناکام ثابت ہوئی ہے۔
اس طرح نہ تو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ختم ہو سکی اور نہ ہی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر کوئی فرق پڑا۔ ان قراردادوں کے مطابق اب بھی جموں کشمیر بھارت کا اپنا حصہ نہیں اور وہاں کے عوام کو حق خود ارادیت دیا جانا ضروری ہے۔
مودی کی جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی ناکام کوشش کے بعد اب وہ سری نگر میں G-20 کی سربراہی کانفرنس منعقد کر کے یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کر رہا تھا کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے اور یہاں کے عوام نے بھارت کے ساتھ رہنے کو تسلیم کرلیا ہے۔ مودی کی عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی یہ ہوشیاری ناکام ہو چکی ہے۔
اگر کشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں تو پھر وہاں اب بھی 9 لاکھ بھارتی فوجی کیوں براجمان ہیں وہاں اب بھی کشمیریوں کے لیے سخت قوانین کیوں موجود ہیں۔ کشمیری جیلوں میں بند ہزاروں کشمیریوں کو اب کیوں آزاد نہیں کیا جا رہا۔ وہاں سڑکوں پر چلتے پھرتے لوگوں کی چیکنگ اور گرفتاریاں کیوں جاری ہیں۔ G-20 سمٹ کے دوران پوری ریاست کو ایک فوجی کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
پوری دنیا جموں کشمیر کی یہ حالت دیکھ رہی تھی تو وہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ جموں کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں۔ سب سے خوش آیند بات یہ ہے کہ کچھ اسلامی ممالک بھی G-20 کا حصہ ہیں وہ فلسطین اور جموں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔
او آئی سی بھی جموں کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کرتی ہے اور کشمیریوں کی آزادی کے حق میں ہے چنانچہ سعودی عرب، ترکیہ، انڈونیشیا اور مصر کے سربراہان کا مودی کی دعوت کو ٹھکرانا یقینا مسلم امہ کی جیت ہے اور اس سے کشمیریوں کی آزادی کی راہ پہلے سے زیادہ ہموار ہوئی ہے۔
البتہ بڑی طاقتوں کی جانب سے اس سمٹ میں شرکت سے مودی کا کچھ غم ضرور کم ہوا ہے، مگر بڑی طاقتوں نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تکذیب کر کے عالمی برادری کی نظروں میں اپنی عزت مزید کھو دی ہے۔