12 برس سے مفلوج مریض دماغی پیوند کے بعد چلنے کے قابل ہوگیا
حادثے سے متاثر 40 سالہ مریض کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں دو برقی امپلانٹس لگائے گئے ہیں
40 سالہ گیرٹ جان اوسکم اب 12 برس بعد اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونے کے بعد دھیرے دھیرے چلنا سیکھ رہے ہیں۔ ایک حادثے کے بعد وہ چلنے پھرنے سے معذور تھے۔
گیرٹ اوسکم پہلے مریض ہیں جن کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں جدید برقی پیوند لگایا گیا ہے۔ ایک پیوند دماغ میں ہے جو ان کے خیالات پڑھ کر انہیں دوسری چپ کی بدولت ٹانگوں اور پیروں تک بھیجتا ہے۔ برطانوی فلاحی تنظیم' اسپائنل ریسرچ' کے مطابق یہ تجرباتی عمل ہے جس کے 'بہت حوصلہ افزا' نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
مریض نے بتایا کہ اب وہ کھڑے ہوسکتے ہیں، سیڑھیاں بھی چڑھ رہے ہیں لیکن ایک نومولود بچے کی طرح چلنا سیکھ رہے ہیں۔ اس ایجاد کی روداد سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔
سوئزرلینڈ کی لیوزین یونیورسٹی کی ڈاکٹر جیکولین بلوخ نے یہ حساس سرجری کی ہے جس میں مریض کی کھوپڑی میں دو گول سوراخ کئے گئے تھے۔ ان کے نیچے بھیجے کا وہ مقام تھا کو حرکات وسکنات کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے سکوں جیسے گول دو سینسر اندر لگائے گئے۔ پھر دو مزید سینسر والا ہیلمٹ مریض کو پہنایا گیا۔
اس کے بعد ایک کمپیوٹر الگورتھم بنایا گیا جو دماغی سگنل کو پیرٹانگ اور پاؤں کو ہلانے والی ہدایات میں تبدیل کرتا تھا۔ اس کے بعد دوسرا پیوند گیرٹ کے حرام مغز میں نصب کیا گیا۔ یہ پیوند ان اعصابی ریشوں سے جڑا تھا جو پیروں کو چلنے میں مدد دیتے ہیں۔
اس کے بعد مریض کو فزیوتھراپی کی طرح مشقیں کرائی گئیں۔ ایک مقام پر سگنل اور ہدایات ہم آہنگ ہونے لگیں اور وہ پہلے پیر پر کھڑے ہوئے اور اب چلنے لگے ہیں۔
ڈاکٹر جیکولین کے مطابق اب بھی یہ تجربہ گاہی عمل ہے لیکن تمام افراد کے لئے یکساں طور پر مفید ثابت ہونے کے لیے کئی برس لگیں گے۔
گیرٹ اوسکم پہلے مریض ہیں جن کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں جدید برقی پیوند لگایا گیا ہے۔ ایک پیوند دماغ میں ہے جو ان کے خیالات پڑھ کر انہیں دوسری چپ کی بدولت ٹانگوں اور پیروں تک بھیجتا ہے۔ برطانوی فلاحی تنظیم' اسپائنل ریسرچ' کے مطابق یہ تجرباتی عمل ہے جس کے 'بہت حوصلہ افزا' نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
مریض نے بتایا کہ اب وہ کھڑے ہوسکتے ہیں، سیڑھیاں بھی چڑھ رہے ہیں لیکن ایک نومولود بچے کی طرح چلنا سیکھ رہے ہیں۔ اس ایجاد کی روداد سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔
سوئزرلینڈ کی لیوزین یونیورسٹی کی ڈاکٹر جیکولین بلوخ نے یہ حساس سرجری کی ہے جس میں مریض کی کھوپڑی میں دو گول سوراخ کئے گئے تھے۔ ان کے نیچے بھیجے کا وہ مقام تھا کو حرکات وسکنات کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے سکوں جیسے گول دو سینسر اندر لگائے گئے۔ پھر دو مزید سینسر والا ہیلمٹ مریض کو پہنایا گیا۔
اس کے بعد ایک کمپیوٹر الگورتھم بنایا گیا جو دماغی سگنل کو پیرٹانگ اور پاؤں کو ہلانے والی ہدایات میں تبدیل کرتا تھا۔ اس کے بعد دوسرا پیوند گیرٹ کے حرام مغز میں نصب کیا گیا۔ یہ پیوند ان اعصابی ریشوں سے جڑا تھا جو پیروں کو چلنے میں مدد دیتے ہیں۔
اس کے بعد مریض کو فزیوتھراپی کی طرح مشقیں کرائی گئیں۔ ایک مقام پر سگنل اور ہدایات ہم آہنگ ہونے لگیں اور وہ پہلے پیر پر کھڑے ہوئے اور اب چلنے لگے ہیں۔
ڈاکٹر جیکولین کے مطابق اب بھی یہ تجربہ گاہی عمل ہے لیکن تمام افراد کے لئے یکساں طور پر مفید ثابت ہونے کے لیے کئی برس لگیں گے۔