غریب متوسط طبقہ اور بجٹ

شماریاتی گورکھ دھندوں کے بارے میں انھیں زیادہ علم نہیں ہوتا اور یہی عوام کی غالب اکثریت ہوتی ہے

پاکستان میں ہر نئے مالی سال کے آغاز سے قبل وفاقی بجٹ پیش کردیا جاتا ہے اور بجٹ پیش ہونے سے قبل عوام کے کئی طبقے اس میں دلچسپی لیتے ہیں، اگر دلچسپی نہیں لیتے تو غریب عوام کیونکہ وہ بجٹ کے اعداد و شمار سے نابلد ہوتے ہیں۔

شماریاتی گورکھ دھندوں کے بارے میں انھیں زیادہ علم نہیں ہوتا اور یہی عوام کی غالب اکثریت ہوتی ہے جن کے لیے بجٹ میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ غریب عوام کے لیے بجٹ پیش کیا جا رہا ہے لیکن گزشتہ پون صدی ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے کہ ہر بجٹ نے غریب عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیا ہے، لیکن اس سال کا بجٹ انتہائی سخت ترین ہوگا، کیونکہ بجٹ بنانے والا ملک قرض خواہ ہے ہمارے ملک کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔

ہر سال بجٹ کے موقع پر بہت سے فلاحی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جاتا ہے جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان ترقیاتی اسکیموں کے مکمل ہوتے ہی عوام سکھ کا سانس لیں گے، لیکن کئی سال گزر جاتے ہیں منصوبہ نامکمل ہی رہ جاتا ہے کیونکہ روز بہ روز ملک کی مالی حالت پتلی ہوتی چلی جا رہی ہے لہٰذا کہیں فنڈز کی کمی کہیں بڑھتی مہنگائی کے باعث لاگت میں اضافہ اور پھر کئی عشروں سے کرپشن میں اضافے نے بہت سی اسکیموں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

ان تمام باتوں کی موجودگی میں یہ ماننا پڑے گا کہ آیندہ بجٹ پیش کرتے وقت حکومت کو جس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اتنی مشکلات اس سے قبل کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ کیونکہ ایک طرف ملک سیاسی بحران میں گھرا ہوا ہے اور اس سیاسی بحران نے ملکی معیشت کو بھی شدید بحران میں مبتلا کردیا ہے اگرچہ ملکی معیشت 2008 سے شدید ہچکولے کھا رہی ہے۔

حالانکہ 2008 میں قرض کے نام پر کڑوی گولی نگلنے کو کہا گیا اور معیشت کو یہ تسلی دی گئی کہ اس کڑوی گولی کے بعد سے معیشت کو افاقہ ہوگا، لیکن کیا ہوا ڈالر 60 سے بڑھتے بڑھتے کہاں تک پہنچ گیا پھر کئی مالیاتی پروگرامز آئے کہا گیا کہ روپے کی جتنی زیادہ کم قدری ہوگی اس سے زیادہ برآمدات میں اضافہ ہوگا، اس کے علاوہ ہر بجٹ میں غریب عوام سے یہ وعدہ کیا جاتا رہا کہ ان کی فلاح و بہبود میں اضافہ ہوگا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا حتیٰ کہ اس وقت پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

موجودہ حکومت کا یہ عزم و ارادہ قابل ستائش ہے کہ سخت ترین مالی حالات کے باوجود وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایات دی ہیں کہ وفاقی بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔ غریب اور متوسط طبقے کی مالی مشکلات میں کمی کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ آج کا موضوع ہی غریب اور متوسط طبقہ اور بجٹ ہوگا۔

بجٹ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ 14 ہزار 6 سو روپے کا یہ بجٹ ہوگا جس میں سات ہزار 8 سو ارب روپے کا خسارہ اور تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ہوگا۔ اس وقت غریب اور متوسط طبقے کا ایک بڑا حصہ سرکاری ملازمین پر مشتمل ہے کیونکہ شدید ترین مہنگائی اور کرایوں میں بے انتہا اضافہ اور ٹرانسپورٹ اخراجات میں شدید اضافے نے سرکاری ملازمین اور پنشن یافتہ افراد کی کمر توڑ دی ہے۔

پاکستان میں تھوڑا بہت یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ سرکاری ملازمین اور پنشن یافتہ افراد کی پنشن میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے نجی ادارے پرائیویٹ کمپنیاں، کارخانے دار، بڑے بڑے کاروباری ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے ہیں۔


بعض اوقات یہ اضافہ ان کی نوکری کو مدنظر رکھتے ہوئے سالانہ بنیادوں پر کیا جاتا ہے، یا بعض اوقات وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی طرح یکم جولائی سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے، سرکاری ملازمین کی تنظیم آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن حالیہ شدید مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 60 فی صد سے بھی زائد اضافے کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ حکومتی اشاروں کے مطابق 20 فیصد اضافے کی توقع ہے۔

یہاں پر بعض اوقات یہ غلط فہمی پیدا کردی جاتی ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور پنشن کے بارے میں عدم توجہی غفلت یا اس پر بعد میں عملدرآمد کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

چند سال قبل سابقہ حکومت نے ایک موقع پر ایسا کیا اور یہ بھی ہوتا ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور پنشن یافتہ افراد کے لیے انتہائی قلیل اضافہ جوکہ سراسر ظلم ہے کیونکہ اسی کو بنیاد بنا کر بہت سے ادارے کارخانے داراور صنعت کار اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو موخر کردیتے ہیں یا انتہائی معمولی اضافہ کرتے ہیں۔

موجودہ حکومت نے اگر غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کرنا ہے تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن یافتہ افراد کی پنشن میں اضافہ مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھ کر کریں۔ اس طرح دیگر تنخواہ دار طبقہ جن کی اکثریت غریب اور متوسط عوام پر مشتمل ہے ان کے آجروں کی طرف سے تنخواہوں میں اضافے کے امکانات روشن ہوں گے۔

لہٰذا ان کی تنخواہوںمیں مناسب اضافہ نہ کرنے کاکوئی جواز نہیں ہوگا۔ اب ان تمام اضافوں سے معیشت کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ بات دراصل یہ ہے کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگی قرضوں کی ادائیگی کے لیے خرچ ہو جاتا ہے۔ ایک بڑا حصہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے خرچ کردیا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں جس طرح کی سائنسی انداز میں کرپشن کی جاتی ہے اس طرح بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے اور دیگر طریقوں سے خرچ کی جانے والی رقوم کا کم یا زیادہ حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے اور یہ رقم کسی اور تجوری میں بند ہو جاتی ہے۔

مہنگائی اور کاروباری مندی نے معیشت کو نزع کے عالم میں پہنچا دیا ہے۔ ایسی صورت میں یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ پہلے حکومت اپنے حاضر اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کم ازکم تیس فیصد سے زائد اضافہ کرے۔

اس وقت ملک کا اہم معاشی مسئلہ یا رکاوٹ اور خرابی معاشی جمود ہے جسے توڑنے معیشت میں روانی اور بہتری کی خاطر ضروری ہے کہ حکومت کی طرف سے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ انتہائی ضروری ہے۔

اس کے ساتھ معاشرے کے دیگر طبقوں کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے بھرپور اقدامات کرے تاکہ معیشت کو جمود کی کیفیت سے نکالا جائے۔
Load Next Story