سندھ میں پانچویں جماعت کے بعد بچوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہیں صوبائی وزیر
بچوں کی اکثریت پانچویں کے بعد تعلیم کا سلسلہ بند کر دیتی ہے کیونکہ چھٹی جماعت والے اسکول ہی نہیں، سردار شاہ
وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے کہا کہ صوبے کے بچوں کی اکثریت پانچویں جماعت کے بعد تعلیم کا سلسلہ بند کر دیتی ہے، سندھ میں پانچویں جماعت کے بعد بچوں کے پاس آگے کی تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پرائمری کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چھٹی جماعت میں داخلہ لینے کیلئے اسکول ہی نہیں، چالیس ہزار اسکولوں میں سے 36 ہزار پرائمری اسکول ہیں 4 ہزار اسکول پوسٹ پرائمری ہیں، جن میں ہائر سیکنڈری سکول بھی شامل ہیں۔ 36 ہزار اسکولوں کا بوجھ چار اسکولز کیسے اٹھائیں گے20 فیصد بچوں نے اسکول کبھی دیکھا ہی نہیں۔
وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے کہا کہ نجی اسکولوں میں اقربا پروری رہی ہے، جس پر میں نے اجلاس بھی کیے اور ہدایت کی کہ قانون کے مطابق 10 فیصد غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جائے مگر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا نجی اسکولوں کے بھی خدشات تھے کہ فیس بڑھانی پڑے گی، اتنی مہنگائی میں اگر 10 فیصد طلبہ کو ریلیف دیں گے تو 90 فیصد طلبہ کی فیس میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ وزیر تعلیم نے کہا کورونا وائرس کی وجہ سے بےشمار نجی اسکول بند ہوگئے ہیں جس کے منفی اثرات بچوں پر پڑے ہیں جبکہ سیلاب کی وجہ سے سندھ میں 20 ہزار اسکول مکمل تباہ ہوگئے ہیں جبکہ 13 ہزار اسکول اس قابل نہیں ہیں جن میں بچوں کو پڑھایا جائے مگر سندھ حکومت رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کے لیے بجٹ مختص کرے گی اور ہم نے دو ہزار اسکول بحال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم نے کہا ملک میں ہر صوبے کا یہی مسئلہ ہے کہ تنخواہیں اور پینشن کا بوجھ ہے اور آنے والے وقتوں میں ہم اپنے وسائل سے چاک تک نہیں خرید سکیں گے، اساتذہ تو ہونگے مگر ڈیسک اور چاک نہیں ہونگے۔ انہوں نے مزید کہا اساتذہ کا ٹیچنگ لائسنس اگر ایکسپائر بھی ہوجائے تو کانٹریکٹ پر بھی کام کر سکتے ہیں مستقبل میں کانٹریکٹ ماڈل پر کام کریں گے۔
وزیر تعلیم و ثقافت سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت تعلیم کے میدان میں اصلاحات کے لئے انقلابی اقدام لے رہی ہے، ٹیچرنگ لائسنس پالیسی کی منظوری کے بعد اب ڈاکٹرز اور انجنیئرز کی طرح ٹیچرز کو بھی امتحان پاس کر کے لائسنس لینا ہوگا، جس سے استاد اور طالب علم کے علاوہ پورے تعلیمی نظام کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا موجود اساتذہ بھی ٹیچنگ لائسنس حاصل کر کے اپنے گریڈ میں ترقی پا سکتی ہیں جو نجی اسکولوں میں ٹیچنگ لائسنس والوں کو ترجیح بنیادوں پر بھرتی کیا جائے گا۔ تعلیمی اصلاحات کے سلسلے میں سندھ میں 60 ہزار سے زائد اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی کرنا ایک بڑا چیلینج تھا جسے پیپیلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی سنجیدہ کوششوں کی وجہ بہتر طریقے سے سرانجام دیا۔
انہوں نے کہا کے میرٹ پر آنے والے اساتذہ کی ٹریننگ اور مسلسل سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے لائسنس پالیسی سے بہت فائدہ ہوگا جبکہ اسٹیڈا بورڈ (سندھ ٹیچرز ایجوکیشن ڈولپمینٹ اتھارٹی)، آغا خان اور دوربین کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جس میں ٹیچرز ایجوکیشن، ٹیچرز ٹریننگ اور لائسنس پر ہونے والی سنجیدہ کوششوں کو جاری رکھا جائے گا۔
سید سردار شاہ نے کہا کہ ملک میں مثالی قانونسازی کے حوالے سے سندھ نے ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے، سندھ ٹیچنگ پالیسی بنانے والا پہلا صوبہ ہے پاکستان میں تعلیم کی بہتری کے لئے دیگر صوبوں کو بھی لائسنس پالیسی پر کام کرنا چاہیے۔ سید سردار شاہ نے کہا کہ بچہ دن کا کافی وقت ایک استاد کے پاس گزارتا ہے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم استاد صلاحیت پر کام کریں، لائسنس کے نہ صرف ٹیچنگ کے شعبے کو معیاری اور بہتر کیا جا سکے گا ساتھ ساتھ اساتذہ کو ترقی اور دیگر مراعات دینے کے لیے بھی پالیسی بنائی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لائسنس کے لئے تھرڈ پارٹی ٹیسٹ امتحان لیا جائے گا، ٹیسٹ پاس کرنے والے کو گریڈ 16 میں ترقی دی جائے گی، بچے کو پڑھانے کے لیے استاد اچھا ہونا چاہیے جو کسی بھی چیلینجنگ ماحول میں بچوں کو پڑھا سکے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ بھرتیوں کے بعد اساتذہ کی کمی کی وجہ سے 5 ہزار سے زائد بند اسکول کو کھولنے میں مدد ملی ہے، جبکہ 4 لاکھ سے زائد نئے بچوں نے سرکاری اسکولز میں داخلہ لیا ہے۔
انہوں نے کہا اس وقت اسکول سے باہر بچوں کی تعداد سندھ میں باقی صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایک سوال پر سردار شاہ نے کہا کہ اسٹیڈا کو صرف سرکار نہیں چلا رہی ہم اسٹیڈا بورڈ کو، سماجی اور نجی نمائندگی کے ساتھ چلا رہے ہیں، یہ بورڈ اساتذہ کی معیار کو بہتر بنانے اور میرٹ کو قائم رکھنے کے لئے اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ لائسنس پالیسی کو سرکاری کے ساتھ پرائیویٹ سیٹر میں قابل عمل بنایا جائے گا۔ اس موقع پر زندگی ٹرسٹ کے سربراہ و سماجی شخصیت شہزاد رائے نے کہا کہ بچے کا ذہن سمجھنے کے حوالے سے ٹیچنگ ایک سائنس ہے۔ ٹیچنگ ایجوکیش کی مدد سے اسے سمجھنے میں آسانی ہوگی، دیگر صوبوں کو بھی چاہئے کہ ٹیچنگ لائسنس عمل کو اپنائیں، جب تک سرکاری اسکولز ٹھیک نہیں ہونگے عوام تعلیمی یافتہ نہیں ہوسکتے۔
شہزاد رائے نے نوجوان نسل کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اب طلبہ کو چاہئیے کہ بی ایڈ اور ایم ایڈ کرنا شروع کریں۔ آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوشن آف ایجوکیشن ڈولپمینٹ کے ڈین فرید پنجوانی نے کہا کہ جس طرح ڈاکٹرز کو لائسنس ملنےکے بعد اعلاج کے لیے اہل قرار دیا جاتا ہے اور اسے ریگیولیٹ کیا جاتا ہے اسی طرح اساتذہ لائسنس پالیسی کے بعد ایک معیاری استاد کو ریگیولیٹ کرنے میں مدد مل سکے گی۔اس موقع پر سیکریٹری اسکول ایجوکیش سندھ غلام اکبر لغاری، زندگی ٹرسٹ کے سربراہ وہ معروف سماجی شخصیت شہزاد راۓ، آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوشن آف ایجوکیشن ڈولپمینٹ کے ڈین فرید پنجوانی اور دیگر بھی موجود تھے۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پرائمری کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چھٹی جماعت میں داخلہ لینے کیلئے اسکول ہی نہیں، چالیس ہزار اسکولوں میں سے 36 ہزار پرائمری اسکول ہیں 4 ہزار اسکول پوسٹ پرائمری ہیں، جن میں ہائر سیکنڈری سکول بھی شامل ہیں۔ 36 ہزار اسکولوں کا بوجھ چار اسکولز کیسے اٹھائیں گے20 فیصد بچوں نے اسکول کبھی دیکھا ہی نہیں۔
وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے کہا کہ نجی اسکولوں میں اقربا پروری رہی ہے، جس پر میں نے اجلاس بھی کیے اور ہدایت کی کہ قانون کے مطابق 10 فیصد غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جائے مگر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا نجی اسکولوں کے بھی خدشات تھے کہ فیس بڑھانی پڑے گی، اتنی مہنگائی میں اگر 10 فیصد طلبہ کو ریلیف دیں گے تو 90 فیصد طلبہ کی فیس میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ وزیر تعلیم نے کہا کورونا وائرس کی وجہ سے بےشمار نجی اسکول بند ہوگئے ہیں جس کے منفی اثرات بچوں پر پڑے ہیں جبکہ سیلاب کی وجہ سے سندھ میں 20 ہزار اسکول مکمل تباہ ہوگئے ہیں جبکہ 13 ہزار اسکول اس قابل نہیں ہیں جن میں بچوں کو پڑھایا جائے مگر سندھ حکومت رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کے لیے بجٹ مختص کرے گی اور ہم نے دو ہزار اسکول بحال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم نے کہا ملک میں ہر صوبے کا یہی مسئلہ ہے کہ تنخواہیں اور پینشن کا بوجھ ہے اور آنے والے وقتوں میں ہم اپنے وسائل سے چاک تک نہیں خرید سکیں گے، اساتذہ تو ہونگے مگر ڈیسک اور چاک نہیں ہونگے۔ انہوں نے مزید کہا اساتذہ کا ٹیچنگ لائسنس اگر ایکسپائر بھی ہوجائے تو کانٹریکٹ پر بھی کام کر سکتے ہیں مستقبل میں کانٹریکٹ ماڈل پر کام کریں گے۔
وزیر تعلیم و ثقافت سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت تعلیم کے میدان میں اصلاحات کے لئے انقلابی اقدام لے رہی ہے، ٹیچرنگ لائسنس پالیسی کی منظوری کے بعد اب ڈاکٹرز اور انجنیئرز کی طرح ٹیچرز کو بھی امتحان پاس کر کے لائسنس لینا ہوگا، جس سے استاد اور طالب علم کے علاوہ پورے تعلیمی نظام کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا موجود اساتذہ بھی ٹیچنگ لائسنس حاصل کر کے اپنے گریڈ میں ترقی پا سکتی ہیں جو نجی اسکولوں میں ٹیچنگ لائسنس والوں کو ترجیح بنیادوں پر بھرتی کیا جائے گا۔ تعلیمی اصلاحات کے سلسلے میں سندھ میں 60 ہزار سے زائد اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی کرنا ایک بڑا چیلینج تھا جسے پیپیلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی سنجیدہ کوششوں کی وجہ بہتر طریقے سے سرانجام دیا۔
انہوں نے کہا کے میرٹ پر آنے والے اساتذہ کی ٹریننگ اور مسلسل سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے لائسنس پالیسی سے بہت فائدہ ہوگا جبکہ اسٹیڈا بورڈ (سندھ ٹیچرز ایجوکیشن ڈولپمینٹ اتھارٹی)، آغا خان اور دوربین کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جس میں ٹیچرز ایجوکیشن، ٹیچرز ٹریننگ اور لائسنس پر ہونے والی سنجیدہ کوششوں کو جاری رکھا جائے گا۔
سید سردار شاہ نے کہا کہ ملک میں مثالی قانونسازی کے حوالے سے سندھ نے ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے، سندھ ٹیچنگ پالیسی بنانے والا پہلا صوبہ ہے پاکستان میں تعلیم کی بہتری کے لئے دیگر صوبوں کو بھی لائسنس پالیسی پر کام کرنا چاہیے۔ سید سردار شاہ نے کہا کہ بچہ دن کا کافی وقت ایک استاد کے پاس گزارتا ہے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم استاد صلاحیت پر کام کریں، لائسنس کے نہ صرف ٹیچنگ کے شعبے کو معیاری اور بہتر کیا جا سکے گا ساتھ ساتھ اساتذہ کو ترقی اور دیگر مراعات دینے کے لیے بھی پالیسی بنائی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لائسنس کے لئے تھرڈ پارٹی ٹیسٹ امتحان لیا جائے گا، ٹیسٹ پاس کرنے والے کو گریڈ 16 میں ترقی دی جائے گی، بچے کو پڑھانے کے لیے استاد اچھا ہونا چاہیے جو کسی بھی چیلینجنگ ماحول میں بچوں کو پڑھا سکے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ بھرتیوں کے بعد اساتذہ کی کمی کی وجہ سے 5 ہزار سے زائد بند اسکول کو کھولنے میں مدد ملی ہے، جبکہ 4 لاکھ سے زائد نئے بچوں نے سرکاری اسکولز میں داخلہ لیا ہے۔
انہوں نے کہا اس وقت اسکول سے باہر بچوں کی تعداد سندھ میں باقی صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایک سوال پر سردار شاہ نے کہا کہ اسٹیڈا کو صرف سرکار نہیں چلا رہی ہم اسٹیڈا بورڈ کو، سماجی اور نجی نمائندگی کے ساتھ چلا رہے ہیں، یہ بورڈ اساتذہ کی معیار کو بہتر بنانے اور میرٹ کو قائم رکھنے کے لئے اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ لائسنس پالیسی کو سرکاری کے ساتھ پرائیویٹ سیٹر میں قابل عمل بنایا جائے گا۔ اس موقع پر زندگی ٹرسٹ کے سربراہ و سماجی شخصیت شہزاد رائے نے کہا کہ بچے کا ذہن سمجھنے کے حوالے سے ٹیچنگ ایک سائنس ہے۔ ٹیچنگ ایجوکیش کی مدد سے اسے سمجھنے میں آسانی ہوگی، دیگر صوبوں کو بھی چاہئے کہ ٹیچنگ لائسنس عمل کو اپنائیں، جب تک سرکاری اسکولز ٹھیک نہیں ہونگے عوام تعلیمی یافتہ نہیں ہوسکتے۔
شہزاد رائے نے نوجوان نسل کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اب طلبہ کو چاہئیے کہ بی ایڈ اور ایم ایڈ کرنا شروع کریں۔ آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوشن آف ایجوکیشن ڈولپمینٹ کے ڈین فرید پنجوانی نے کہا کہ جس طرح ڈاکٹرز کو لائسنس ملنےکے بعد اعلاج کے لیے اہل قرار دیا جاتا ہے اور اسے ریگیولیٹ کیا جاتا ہے اسی طرح اساتذہ لائسنس پالیسی کے بعد ایک معیاری استاد کو ریگیولیٹ کرنے میں مدد مل سکے گی۔اس موقع پر سیکریٹری اسکول ایجوکیش سندھ غلام اکبر لغاری، زندگی ٹرسٹ کے سربراہ وہ معروف سماجی شخصیت شہزاد راۓ، آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوشن آف ایجوکیشن ڈولپمینٹ کے ڈین فرید پنجوانی اور دیگر بھی موجود تھے۔