طوالت اختیار کرتی روس یوکرین جنگ

کمزور ممالک کی لیڈرشپ کو عالمی طاقتوں کا مہرہ بننے سے گریز کرنا چاہیے

کمزور ممالک کی لیڈرشپ کو عالمی طاقتوں کا مہرہ بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

روس اور یوکرین جنگ تاحال جاری ہے اور اس جنگ کو بند کرانے کے لیے جو کوششیںکی گئی ہیں، وہ بے نتیجہ رہی ہیں۔

اسی دوران میڈیا نے خبر دی ہے کہ امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے گزشتہ روزاتحادی ممالک کے گروپ رامسٹین سے ورچوئل میٹنگ کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ روس فوجی مہم جوئی کے ذریعے یوکرین میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا، یوکرین جنگ طویل ہوسکتی ہے لیکن روس اس جنگ میں فاتح نہیں ہوگا کیونکہ روس یہ جنگ جیتنے والا بالکل بھی نہیں ہے۔

جنرل مارک ملی نے مزید بتایا کہ یوکرین بھی جلد فتح یاب نہیں ہوسکے گا اور یہ جنگ کافی خونریز اور طویل ہوسکتی ہے کیونکہ فریقین مذاکرات پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ امریکی جنرل نے یہ بھی کہا کہ روس کے اصل اسٹرٹیجک مقاصد میں سے ایک یوکرین میں حکومت کا تختہ الٹنا ہے جسے وہ فوجی مہمات کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا۔ لاکھوں فوج کی موجودگی کے باوجود روس کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا۔

ادھر یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کے ڈپٹی سربراہ کے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے حوالے سے دیے گئے بیان پر روس کا ردعمل سامنے آگیا۔ یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کے ڈپٹی سربراہ واجمسکی بیٹسکی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ صدرپوٹن محسوس کر رہے ہیں کہ ہم ان کے قریب پہنچ رہے ہیں لیکن انھیں ڈر ہے کہ ان کو اپنے ہی لوگ قتل کردیں گے۔

روس کے صدارتی محل کریملین کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہماری سیکیورٹی سروسز جانتی ہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔ ترجمان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کے ڈپٹی سربراہ کا انٹرویو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یوکرین میں آپریشن کا آغاز کرنا روس کا حق تھا۔

روس اوریوکرین کے درمیان جاری جنگ خاصی پیچیدہ ہوچکی ہے،جنگ میں دوسرے فریق بھی شامل ہوچکے ہیں، یہی وجہ یہ جنگ تاحال جاری ہے حالانکہ روس دفاعی اور معاشی اعتبار سے یوکرین سے کہیں زیادہ طاقتور ہے لیکن امریکا اور مغربی ممالک کی مدد و تعاون سے یوکرین جنگ جاری رکھے ہوئے ہے،روس خاصے دباؤ کا شکار نظر آتا ہے جب کہ یہ جنگ عالمی امن کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے، اس کے اثرات روس یا یوکرین پر نہیں نہیں بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں، عالمی معیشت کی بنیادیں بھی ہل رہی ہیں۔

روس، یوکرین جنگ انتہائی تباہ کن شکل اس لیے اختیار کررہی ہے کہ صرف دو فریق جنگ نہیں کر رہے بلکہ اس میں بہت سی عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کو لے کر کود پڑی ہیں۔ یورپی یونین، برطانیہ، امریکا سمیت کئی اور ممالک بھی یوکرین کو فوجی، دفاعی اورمالی مدد فراہم کررہے ہیں۔

یوکرینی افواج محاذ جنگ پر مغرب اور امریکا کی جانب سے دی گئی توپیں، بندوقیں، ہیلی کاپٹر اور میزائل سسٹم جنگ میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ یوکرینی فوجیوں کو تربیت بھی دے رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہی عالمی طاقتیں شام، عراق اور افغانستان کی سرزمین پر پراکسی جنگیں لڑ رہی تھیں اور اب پراکسی جنگ یوکرین کو کھنڈر میں بدل رہی ہے۔

جنگ صرف تباہی وبربادی کا نام ہے ، جنگ میں اخلاقیات نہیں ہوتیں۔ جنگ چاہے اقتدار حاصل کرنے لیے ہو، مظلوم اور ظالم کی ہو، سامراجی ہو یا پراکسی،جنگ میں رحم کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جنگ بے رحم ہوتی ہے۔ چاہے اس کی مثال امریکا اور سوویت یونین کی لی جائے، ویت نام اور امریکا کی، الجیریا اور فرانس کی یا پھر پہلی عالمی جنگ کی یا دوسری عالمی جنگ میں امریکا کی، جس نے جاپان کے شہروں کو ایٹم زدہ بنایا تھا اور جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

اب یہی تجربے روس اور یوکرین کی جنگ میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ روس تقریبا ڈیڑھ دو سال سے یوکرین کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے جو اب تک جاری ہے۔روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ سے اس بات کے خدشات بھی ابھرنے لگے ہیں، اگر تنازعے نے مزید طول کھینچا تو کہیں عالمی طاقتوں کی یہ کشمکش ایک نئی عالمی جنگ کا روپ اختیار نہ کرلے۔


یوکرین میں جوہری تنصیبات کے اوپر یا ان کے اطراف میں حملے کے امکانات نے جوہری تنصیبات کے تحفظ و سلامتی سے جڑی مشکلات کی پیچیدگیوں میں بھی مزید اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ دنوں میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ امریکا کی لیک ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ روس کے خلاف جنگ میں مغربی فوج کی اسپیشل فورسز محاذ پر یوکرین کی مدد کررہی ہیں۔ ادھر روس مسلسل کہہ رہا ہے کہ اس کا مقابلہ صرف یوکرین سے نہیں بلکہ نیٹو سے بھی ہے۔

جہاں تک روس اور نیٹو کی عسکری طاقت کے موازنے کا تعلق ہے تو روایتی جنگی طاقت اور عسکری ساز و سامان کے شعبے میں نیٹو کو روس پر برتری حاصل ہے، لیکن اگر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یورپ میں، جہاں جنگ جاری ہے، روس کو نیٹو پر برتری حاصل ہے۔ روس اور امریکا دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یہ دونوں ملک دنیا کے 90 فیصد کے قریب جوہری ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی ممکنہ استعمال کا حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار صدر پوتن کے پاس ہے۔

جوہری تنصیبات کی تعمیر اس طرز پر نہیں ہوتی کہ یہ عسکری حملے سہہ سکیں۔ '' گہرائی میں دفاع '' اور تابکاری کے پھیلاؤ سے بچاؤ جیسے اقدامات کسی بھی جوہری تنصیب کو چوری، تابکاری کے اخراج یا سبوتاژ سے تو شاید محفوظ رکھ سکیں، لیکن جوہری سہولت کی براہ راست نشانہ بنانے والے فضائی حملوں سے خود کو بچانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے گاڑیوں میں حفاظتی انتظامات اور ً ٹریفک کے اشاروں کی پہچان، خود کار ہنگامی بریکیں تو متعارف کروائی جا سکتی ہیں لیکن وہ انھیں حادثات سے محفوظ نہیں بنا سکتیں۔

کچھ عرصہ قبل نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینزاسٹولٹن برگ نے واشنگٹن میں نیٹوکانفرنس سے بذریعہ وڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ روس ہماری سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ روس، یوکرین جنگ براعظم یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک کا سب سے ہلاکت خیز تنازعہ ثابت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ یہی جنگ ماسکو اور مغربی دنیا کے مابین 1962میں کیوبا کی سرزمین پر میزائل نصب کرنے کے منصوبے کے باعث پیدا ہونے والے بحران کے بعد سے آج تک کی سب سے بڑی مخاصمت بھی بن چکی ہے۔

مغربی دنیا اس جنگ کی وجہ سے نہ صرف روس پر بہت سی پابندیاں لگا چکی ہے بلکہ روسی فوج کے خلاف یوکرین کی کھل کر عسکری مدد بھی کر رہی ہے۔ روس کا اندازہ تھا کہ وہ یوکرین کے خلاف اپنی جنگی مہم بہت جلد جیت لے گا تاہم ایسا نہ ہوا اور ماسکو کو اس جنگ میں ابھی تک بڑے جانی اور مالی نقصانات کا سامنا ہے۔ روس آج بھی یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ اس کے لیے یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہوگا۔

ولادیمیر پوتن کے بقول یوکرین کے خلاف روسی فوجی مہم ماسکو کا ایک 'خصوصی فوجی آپریشن' ہے اور اس تنازعے میں روس مغرور اور جارحیت پسند مغرب کے خلاف اپنی بقا کی جہدوجہد میں مصروف ہے۔ یوکرین کے خلاف روس کی فوجی کارروائی کے حوالے سے بہت سے ماہرین نے اتفاق کیا ہے کہ صدر ولادیمیر پوتن نے ایک چھوٹی سی فتح کے لیے بڑا رسک لیا ہے، پوتن اور ساتھی یوکرین میں اپنی حامی حکومت چاہتے ہیں۔

روس یوکرین میں ماسکو دوست انتظامی نظام چاہتا ہے، وہ اس جنگ میں اپنی فوجی طاقت کا 10 گنا سے بھی زیادہ استعمال کرچکا ہے اور جنگ کا پھیلاؤ مزید بڑھ رہاہے۔ روسی صدر کہہ چکے ہیں کہ مغرب، روس کو تقسیم کرکے دنیا کے سب سے بڑے خام مال کے پیداوار والے ملک پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے جو ایسا قدم ہے جو روسی لوگوں کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے ایک سے زیادہ بار خبردارکرچکے ہیں کہ روس اور نیٹو کے درمیان تنازعہ سے تیسری جنگ عظیم شروع ہوسکتی ہے، انھوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ صدر پیوتن کو اقتدار میں نہیں رہنا چاہیے۔ یہ سراسر روس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ ادھر یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھے گا جب تک ملک بشمول 2014 میں روسی قبضے کا شکار کریمیا سے آخری روسی فوجی واپس نہیں چلا جاتا۔

دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھ کر جنگوں سے بچنے کے بجائے عالمی قوتیں چھوٹے اور کمزور ممالک کو آگے کر کے برتری کی جنگ لڑنے میں آج بھی مصروف ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، صومالیہ، یمن اور اب یوکرین اس کی مثالیں ہیں۔

کمزور ممالک کی لیڈرشپ کو عالمی طاقتوں کا مہرہ بننے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے سے بڑی طاقت کے خلاف جنگ جیت نہیں سکتے، جنگ لڑنے کے لیے انھیں عالمی طاقتوں کا مہرہ بننا پڑے گا۔ اس جنگ کی تباہی صرف کمزور ملک کی ہو گی۔
Load Next Story