اے کاش
اب وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کاش! میں پنجاب و کے پی اسمبلیاں نہ توڑتا
اس حقیقت سے کوئی صاحب بصیرت انکار نہیں کرسکتا کہ حقائق کا غلط رخ سے تجزیہ غیر عقلی فیصلوں کا موجب بن سکتا ہے۔ بعض اوقات ایسے عوامل اور عناصر سامنے آتے ہیں جو بظاہر تو حقیقت نظر آتے ہیں لیکن اصل میں وہ حقیقت نہیں ہوتے بلکہ حقیقت اور سچائی کچھ اور ہی ہوتی ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی تجویز یا نظریے کی تائید نہایت خوب صورت الفاظ میں پیش کی جاتی ہے۔ الفاظ اور انداز بیاں اس قدر حسین اور موثر ہوتا ہے کہ بات دل میں اتر جاتی ہے۔ جذبات کو بھڑکانے کے لیے مختلف طریقے اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ایسے دل فریب اور اثرانگیز نعرے وضع کیے جاتے ہیں کہ نتیجتاً انسان یا بعض اوقات پوری قوم ان الفاظ، نعروں اور حسن بلاغت و خطابت کے جوش سے اس قدر مسحور ہو جاتی ہے کہ ہاتھ سے عقل کا دامن چھوٹ جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں حقیقت اول تو سامنے ہی نہیں آ پاتی اور اگر آ بھی جاتی ہے تو وہ جذباتی نعروں کے شور و غل میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید دور میں ترقی یافتہ قوموں کے اہل دانش اہم مسائل پر بحث کرتے وقت احتیاط کا دامن تھامے رکھتے ہیں تاکہ کسی بھی مسئلے کے حوالے سے حقیقت پسندانہ دلائل پیش کیے جائیں اور جوشیلی بلاغت و خطابت کا سہارا نہ لیا جائے۔ کیونکہ جذباتی تقریروں اور دل فریب نعروں سے کسی قوم کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ انسان کے کیے ہوئے بظاہر عقلی فیصلے دراصل خالص عقلی نہیں ہوتے بلکہ ان فیصلوں میں کسی حد تک غیر عقلی عناصر اور جذباتی عوامل وغیرہ کا بھی دخل ہوتا ہے۔ انسان کے لیے تعصب سے مکمل طور پر آزادی بہت مشکل ہے۔ بعض اوقات جذبات اس قدر پراثر طریقے سے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں کہ ان کا احساس تک بھی نہیں ہوتا، لیکن کوشش ہمیشہ یہ کرنی چاہیے کہ فیصلوں پر غیر عقلی عناصر اثرانداز ہوں بلکہ دانش، حکمت، بصیرت، فہم، تدبر اور عقل کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لا کر فیصلہ کیا جائے اور مسئلے کے پیش منظر اور پس منظر اور زمینی حقائق کو ہر صورت سامنے رکھا جائے، تب ہی ایسے فیصلوں کو عقلی فیصلے قرار دیا جاسکے گا۔
فیصلے کرنا انسان کا سب سے زیادہ ذمے دارانہ فعل ہے اور اتنا ہی پیچیدہ بھی۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ جس مسئلے کا فیصلہ کرنا مقصود ہے اس کی اصل نوعیت کیا ہے؟ یہ بظاہر آسان سی بات درحقیقت ایک نہایت مشکل سوال ہے۔ اکثر ہوتا یہ ہے کہ جو مسئلہ فیصلے کے لیے پیش کیا جاتا ہے وہ اصل مسئلہ ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی علامات ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ علاج علامت کا نہیں بلکہ اصل مرض کا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات علامت ہی کو اصل مرض سمجھ کر اس کا علاج شروع کردیا جاسکتا ہے۔
پھر ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ بعض اوقات زیر نظر علامت بھی اصل مرض کی نوعیت کو واضح نہیں کرتیں بلکہ گمراہ کر دیتی ہیں، مسئلے کی اصل نوعیت معلوم ہو جانے کے بعد اس سے صحیح معلومات حاصل کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا اہم بھی ہے اور مشکل بھی۔ ضروری معلومات حاصل کیے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
معلومات حاصل کرتے وقت بھی یہ احتیاط کرنا لازم ہے کہ جن ذرائع سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، وہ کس حد تک قابل اعتبار ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ معلومات دینے والے اور معلومات جمع کرنے والے افراد جذبات اور کسی تعصب کا شکار تو نہیں۔ ایسی صورت میں یہ بات ضروری ہے کہ ان امور کی صراحت کردی جائے جن سے متعلق معلومات نہیں مل سکیں۔
اس وضاحت سے فیصلہ کرنے والوں کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ کن امور کے بارے میں انھیں مصدقہ معلومات پر انحصار کرنا ہوگا اور کن امور کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے محض قیاس، گمان اور اندازے وغیرہ پر قناعت کرنا ہوگی۔درست فیصلے اسی وقت کیے جا سکتے ہیں جب چند متبادل صورتیں سامنے ہوں، یعنی مسئلے کے حل کے کئی راستے سامنے موجود ہوں اور پھر ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو، اگر کوئی اور راستہ نہ ہو اور صرف ایک ہی راستہ ہو تو پھر فیصلے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
کیوں کہ پھر انسان مجبور ہے۔ ایسی صورت میں کوئی فیصلہ درست طریقے سے نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے فیصلہ اور درست فیصلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک سے زائد امکانات کو سامنے رکھا جائے، ایک سے زیادہ راستے تلاش کیے جائیں اور پھر غور و فکر کیا جائے کہ کون سا راستہ بہتر ہوگا۔ درست فیصلہ متبادل امکانات میں سے کسی ایک کے انتخاب ہی کا نام ہے۔ فرض کریں کہ اگر ملکی حالات اچھے نہیں ہیں تو اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ ملک کو توڑ پھوڑ دیا جائے۔ بلکہ یہ غور کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر ملک ٹوٹ گیا تو کیا حالات بہتر ہو جائیں گے؟
اگر سربراہ حکومت پسند نہیں تو اسے ختم کر دینا کافی نہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کی جگہ کون لایا جاسکتا ہے اور کیا وہ ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت ہوگا؟ کیا وہ جملہ عوامی و قومی مسائل حل کرنے کی بہترین صلاحیتوں کا مالک ہوگا؟ تاریخ شاہد ہے کہ قوموں نے بعض تباہ کن فیصلے اس طرح کیے کہ انھیں ایک راستے، ایک ادارے یا ایک فرد سے سخت نفرت ہوگئی اور اسے تباہ کردیا لیکن یہ غور نہیں کیا کہ متبادل راستہ کیا تھا۔اب پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا قوم کم و بیش ایسے ہی حالات کے مد و جزر سے گزرتی رہی ہے۔
فیصلہ ساز قوتوں نے محض اپنی اپنی انا کی تسکین کے لیے ایسے ایسے فیصلے کیے کہ جن کا خمیازہ ملک کے 23 کروڑ عوام ستر سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ فریق مخالف کو راستے سے ہٹانے اور اس سے انتقام لینے کے لیے ہوش و خرد سے عاری اور جذبات سے مغلوب ہو کر کیے گئے۔ جس کے نتیجے میں کبھی نظریہ ضرورت نے جنم لیا تو کبھی آئین کو پامال کیا گیا، کبھی جمہوریت کا بستر لپیٹا گیا تو کبھی منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، کبھی غیر جمہوری قوتیں اقتدار پر قابض ہوگئیں اور کبھی وزرائے اعظم کو نااہل اور جلاوطن کردیا گیا، آپا دھاپی میں ملک دولخت ہو گیا، لیکن ہمیں ہوش نہ آیا۔
زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے کیے جانے والے جذباتی فیصلوں کا سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ پھر یہ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ عوام و خواص نشانہ بنے، دوسروں کی لڑائی کا ڈھول اپنے گلے میں ڈال لیا گیا، معیشت تباہ ہوگئی، ہزاروں جانوں کا زیاں ہوا۔ قومی خزانہ خالی اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا لیکن ہمارے ارباب اختیار من مانے فیصلے کرتے رہے۔
سیاسی و غیر سیاسی ہر دو فریق کبھی ایک ہی تھالی میں شریک پیالہ اور ہم نوالہ ہوتے تو کبھی ایسے رقیب رو سیا کہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں، بدقسمتی سے یہ ملک ستر سال گزرنے کے بعد بھی صحیح ڈگر پہ نہ آسکا آج بھی ایسے ہی مظاہر دیکھنے میں آ رہے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن (پی ٹی آئی) کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی سخت عتاب کا شکار ہے، خان صاحب کے یو ٹرن اور جذباتی فیصلوں کے باعث ان کی جماعت کو آج شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اب وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کاش! میں پنجاب و کے پی اسمبلیاں نہ توڑتا، کاش میری جماعت قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہوتی اور اے کاش! کہ میں اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول نہ لیتا تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ اے کاش! کہ میں صحیح وقت پر صحیح فیصلے کر لیتا تو آج بھی میں ایوان اقتدار میں ہوتا۔ اے کاش!
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی تجویز یا نظریے کی تائید نہایت خوب صورت الفاظ میں پیش کی جاتی ہے۔ الفاظ اور انداز بیاں اس قدر حسین اور موثر ہوتا ہے کہ بات دل میں اتر جاتی ہے۔ جذبات کو بھڑکانے کے لیے مختلف طریقے اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ایسے دل فریب اور اثرانگیز نعرے وضع کیے جاتے ہیں کہ نتیجتاً انسان یا بعض اوقات پوری قوم ان الفاظ، نعروں اور حسن بلاغت و خطابت کے جوش سے اس قدر مسحور ہو جاتی ہے کہ ہاتھ سے عقل کا دامن چھوٹ جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں حقیقت اول تو سامنے ہی نہیں آ پاتی اور اگر آ بھی جاتی ہے تو وہ جذباتی نعروں کے شور و غل میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید دور میں ترقی یافتہ قوموں کے اہل دانش اہم مسائل پر بحث کرتے وقت احتیاط کا دامن تھامے رکھتے ہیں تاکہ کسی بھی مسئلے کے حوالے سے حقیقت پسندانہ دلائل پیش کیے جائیں اور جوشیلی بلاغت و خطابت کا سہارا نہ لیا جائے۔ کیونکہ جذباتی تقریروں اور دل فریب نعروں سے کسی قوم کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ انسان کے کیے ہوئے بظاہر عقلی فیصلے دراصل خالص عقلی نہیں ہوتے بلکہ ان فیصلوں میں کسی حد تک غیر عقلی عناصر اور جذباتی عوامل وغیرہ کا بھی دخل ہوتا ہے۔ انسان کے لیے تعصب سے مکمل طور پر آزادی بہت مشکل ہے۔ بعض اوقات جذبات اس قدر پراثر طریقے سے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں کہ ان کا احساس تک بھی نہیں ہوتا، لیکن کوشش ہمیشہ یہ کرنی چاہیے کہ فیصلوں پر غیر عقلی عناصر اثرانداز ہوں بلکہ دانش، حکمت، بصیرت، فہم، تدبر اور عقل کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لا کر فیصلہ کیا جائے اور مسئلے کے پیش منظر اور پس منظر اور زمینی حقائق کو ہر صورت سامنے رکھا جائے، تب ہی ایسے فیصلوں کو عقلی فیصلے قرار دیا جاسکے گا۔
فیصلے کرنا انسان کا سب سے زیادہ ذمے دارانہ فعل ہے اور اتنا ہی پیچیدہ بھی۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ جس مسئلے کا فیصلہ کرنا مقصود ہے اس کی اصل نوعیت کیا ہے؟ یہ بظاہر آسان سی بات درحقیقت ایک نہایت مشکل سوال ہے۔ اکثر ہوتا یہ ہے کہ جو مسئلہ فیصلے کے لیے پیش کیا جاتا ہے وہ اصل مسئلہ ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی علامات ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ علاج علامت کا نہیں بلکہ اصل مرض کا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات علامت ہی کو اصل مرض سمجھ کر اس کا علاج شروع کردیا جاسکتا ہے۔
پھر ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ بعض اوقات زیر نظر علامت بھی اصل مرض کی نوعیت کو واضح نہیں کرتیں بلکہ گمراہ کر دیتی ہیں، مسئلے کی اصل نوعیت معلوم ہو جانے کے بعد اس سے صحیح معلومات حاصل کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا اہم بھی ہے اور مشکل بھی۔ ضروری معلومات حاصل کیے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
معلومات حاصل کرتے وقت بھی یہ احتیاط کرنا لازم ہے کہ جن ذرائع سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، وہ کس حد تک قابل اعتبار ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ معلومات دینے والے اور معلومات جمع کرنے والے افراد جذبات اور کسی تعصب کا شکار تو نہیں۔ ایسی صورت میں یہ بات ضروری ہے کہ ان امور کی صراحت کردی جائے جن سے متعلق معلومات نہیں مل سکیں۔
اس وضاحت سے فیصلہ کرنے والوں کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ کن امور کے بارے میں انھیں مصدقہ معلومات پر انحصار کرنا ہوگا اور کن امور کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے محض قیاس، گمان اور اندازے وغیرہ پر قناعت کرنا ہوگی۔درست فیصلے اسی وقت کیے جا سکتے ہیں جب چند متبادل صورتیں سامنے ہوں، یعنی مسئلے کے حل کے کئی راستے سامنے موجود ہوں اور پھر ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو، اگر کوئی اور راستہ نہ ہو اور صرف ایک ہی راستہ ہو تو پھر فیصلے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
کیوں کہ پھر انسان مجبور ہے۔ ایسی صورت میں کوئی فیصلہ درست طریقے سے نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے فیصلہ اور درست فیصلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک سے زائد امکانات کو سامنے رکھا جائے، ایک سے زیادہ راستے تلاش کیے جائیں اور پھر غور و فکر کیا جائے کہ کون سا راستہ بہتر ہوگا۔ درست فیصلہ متبادل امکانات میں سے کسی ایک کے انتخاب ہی کا نام ہے۔ فرض کریں کہ اگر ملکی حالات اچھے نہیں ہیں تو اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ ملک کو توڑ پھوڑ دیا جائے۔ بلکہ یہ غور کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر ملک ٹوٹ گیا تو کیا حالات بہتر ہو جائیں گے؟
اگر سربراہ حکومت پسند نہیں تو اسے ختم کر دینا کافی نہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کی جگہ کون لایا جاسکتا ہے اور کیا وہ ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت ہوگا؟ کیا وہ جملہ عوامی و قومی مسائل حل کرنے کی بہترین صلاحیتوں کا مالک ہوگا؟ تاریخ شاہد ہے کہ قوموں نے بعض تباہ کن فیصلے اس طرح کیے کہ انھیں ایک راستے، ایک ادارے یا ایک فرد سے سخت نفرت ہوگئی اور اسے تباہ کردیا لیکن یہ غور نہیں کیا کہ متبادل راستہ کیا تھا۔اب پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا قوم کم و بیش ایسے ہی حالات کے مد و جزر سے گزرتی رہی ہے۔
فیصلہ ساز قوتوں نے محض اپنی اپنی انا کی تسکین کے لیے ایسے ایسے فیصلے کیے کہ جن کا خمیازہ ملک کے 23 کروڑ عوام ستر سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ فریق مخالف کو راستے سے ہٹانے اور اس سے انتقام لینے کے لیے ہوش و خرد سے عاری اور جذبات سے مغلوب ہو کر کیے گئے۔ جس کے نتیجے میں کبھی نظریہ ضرورت نے جنم لیا تو کبھی آئین کو پامال کیا گیا، کبھی جمہوریت کا بستر لپیٹا گیا تو کبھی منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، کبھی غیر جمہوری قوتیں اقتدار پر قابض ہوگئیں اور کبھی وزرائے اعظم کو نااہل اور جلاوطن کردیا گیا، آپا دھاپی میں ملک دولخت ہو گیا، لیکن ہمیں ہوش نہ آیا۔
زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے کیے جانے والے جذباتی فیصلوں کا سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ پھر یہ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ عوام و خواص نشانہ بنے، دوسروں کی لڑائی کا ڈھول اپنے گلے میں ڈال لیا گیا، معیشت تباہ ہوگئی، ہزاروں جانوں کا زیاں ہوا۔ قومی خزانہ خالی اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا لیکن ہمارے ارباب اختیار من مانے فیصلے کرتے رہے۔
سیاسی و غیر سیاسی ہر دو فریق کبھی ایک ہی تھالی میں شریک پیالہ اور ہم نوالہ ہوتے تو کبھی ایسے رقیب رو سیا کہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں، بدقسمتی سے یہ ملک ستر سال گزرنے کے بعد بھی صحیح ڈگر پہ نہ آسکا آج بھی ایسے ہی مظاہر دیکھنے میں آ رہے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن (پی ٹی آئی) کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی سخت عتاب کا شکار ہے، خان صاحب کے یو ٹرن اور جذباتی فیصلوں کے باعث ان کی جماعت کو آج شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اب وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کاش! میں پنجاب و کے پی اسمبلیاں نہ توڑتا، کاش میری جماعت قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہوتی اور اے کاش! کہ میں اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول نہ لیتا تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ اے کاش! کہ میں صحیح وقت پر صحیح فیصلے کر لیتا تو آج بھی میں ایوان اقتدار میں ہوتا۔ اے کاش!