خواب جو پورے نہ ہوسکے پہلا حصہ
قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان سے رشوت اور کرپشن کو ختم کردیا جائے
آزادی کے اعلان سے محض چند دن پہلے 11اگست 1947ء کو محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی میں جو تقریر کی وہ دراصل متضاد فکر اور عقائد اور مسلک رکھنے والے مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش تھی کہ ان سے جو وعدے کیے ہیں وہ پورے کیے جائینگے۔
مزید برآں، اس میں اقلیتوں کی آزادی کی جو بات کی گئی ہے، اس کا مقصد آزاد ہونے والے ہندوستان کو یہ پیغام دینا تھا کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں، لہٰذا ہندوستان میں مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ اس تقریر کا عموماً ایک حصہ ہی سامنے آتا ہے۔ درست تجزیے کے لیے پوری تقریرکا مطالعہ ضروری ہے، تاکہ پوری طرح سے یہ جانا جاسکے کہ قائداعظم کے ذہن میں کس طرح کے ایک آزاد ملک کا تصور تھا۔ ان کی توقعات کیا تھیں اور ان کے ذہن میں کیا خدشات تھے۔
اس تقریر میں انھوں نے کہا تھا '' میں خلوص دل کے ساتھ یہ امیدکرتا ہوں کہ آپ کی مدد اور تعاون کے ساتھ ہم اس آئین ساز اسمبلی کو دنیا کے لیے ایک مثال بنائیں گے۔ آئین ساز اسمبلی کو دو اہم فریضے سر انجام دینے ہیں۔ پہلا انتہائی کٹھن اور ذمے دارانہ کام پاکستان کا مستقبل کا آئین بنانا اور دوسرا پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کی حیثیت سے مکمل خود مختاری کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی ہے۔ ہمیں اپنی بہترین کاوشیں پاکستانی مقننہ کے لیے ایک عبوری آئین اپنانے کے لیے صَرف کرنی ہوں گی۔
آپ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ نہ صرف ہم خود بلکہ میرے خیال میں تو ساری دنیا ہی اس بے مثال طوفانی انقلاب پر حیرت زدہ ہے جس کے نتیجے میں برصغیر میں دو آزاد اور خود مختار ریاستیں وجود میں آئی ہیں۔ امر واقعہ ہے کہ ایسی کوئی مثال یا دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر اس سے پہلے موجود نہیں۔
اس عظیم برصغیر میں جہاں ہر نوع کے لوگ بستے ہیں ایک ایسا منصوبہ نافذ کیا گیا ہے جو عظیم الشان، انجانا اور بے مثل ہے اور اس حوالے سے اہم ترین امر یہ ہے کہ ہم نے اسے پر امن طریقے سے عظیم نوعیت کے ارتقائی عمل کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ ان کی پہلی خواہش یہ تھی کہ آئین ساز اسمبلی کو دنیا کے لیے ایک مثال بنا دیا جائے۔ انھیں امید تھی کہ آئین ساز اسمبلی بلا وقت ضایع کیے ملک کے لیے ایک آئین بنالے گی اور پاکستان کا یہ قانون ساز ادارہ یعنی پارلیمنٹ مکمل طور پر خود مختار ہوکر اپنے فرائض ادا کرے گی۔
آج کے پاکستان کا جائزہ لیں تو اصل حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ قائداعظم کے یہ بنیادی اور اہم خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے۔ ملک 1947میں آزاد ہوا لیکن بڑی مشکل سے 1956 میں ایک آئین بن سکا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور 1958 میں مارشل لاء نافذ کر کے اس آئین کا خاتمہ کردیا گیا۔
1973 میں موجودہ پاکستان کے لیے ایک آئین بنایا گیا جسے پہلے جنرل ضیاء الحق اور بعدازاں جنرل پرویز مشرف نے معطل کردیا اور منتخب پارلیمان کو تحلیل کردیا۔ آج بھی یہ صورتحال ہے کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری اور بالا دستی کو قبول کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ گویا قائداعظم نے جو کچھ آج سے پون صدی پہلے چاہا تھا وہ اب تک پورا نہیں ہوسکا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی اس تقریر میں قائداعظم نے مزید کیا کہا تھا۔ وہ کہتے ہیں '' اس اسمبلی میں اپنے پہلے فریضے کے بارے میں اس وقت میں کوئی بہت گہری بات نہیں کرسکتا لیکن میں ان چند چیزوں کے بارے میں ضرور بات کرنا چاہوں گا جو میری سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی اور نہایت اہم بات جس پر میں زور دینا چاہوں گا یہ ہے۔
یاد رکھیے کہ اب آپ ایک خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو سارے اختیارات حاصل ہیں۔ اس کے نتیجے میں آپ پر بہت بھاری ذمے داری عائد ہوجاتی ہے کہ آپ کسی طریقے سے فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ اپنے مشاہدے پر مبنی جو پہلی بات میں کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے، مجھے کوئی شبہ نہیں کہ آپ لوگ اس بات پر مجھ سے متفق ہونگے کہ کسی بھی حکومت کی پہلی ذمے داری قانون اور امن عامہ قائم کرنا ہے تاکہ ریاست شہریوں کی زندگی، املاک اور مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔
جو دوسرا خیال مجھے آتا ہے وہ یہ ہے، ہندوستان جن بڑی لعنتوں میں گرفتار تھا ان میں سے ایک ، میں یہ نہیں کہتا کہ باقی ممالک اس سے پاک ہیں، لیکن میرے خیال میں ہماری صورتحال بدترین ہے۔ رشوت اورکرپشن ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک زہر ہیں۔ ہمیں لازماً ان چیزوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا اور مجھے امید ہے کہ آپ لوگ اس حوالے سے مناسب اقدامات اٹھائیں گے اور یہ اسمبلی اس حوالے سے ممکنہ تیزی کے ساتھ کام کرے گی۔
چور بازاری ایک اور لعنت ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ چور بازاری کرنے والے اکثر پکڑے جاتے اور سزا پاتے ہیں۔ بعض اوقات انھیں عدالت سے سزا ملتی ہے اور بعض اوقات انھیں جرمانے کیے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس عفریت سے نمٹنا ہے، جو آج ایک مہیب سماجی برائی بن چکی ہے، خاص طور پر ان حالات میں جب ہمیں مستقل طور پر کھانے پینے اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہے۔ وہ شہری جو چور بازاری کا مرتکب ہوتا ہے، میرے خیال میں، بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ سنگین اور بدترین جرم کر رہا ہوتا ہے۔
چور بازاری کرنے والے اشخاص حقیقی معنوں میں باخبر، ذہین اور عموماً ذمے دار لوگ ہوتے ہیں اور جب وہ چور بازاری کے دھندے میں ملوث ہوں تو میرے خیال میں انھیں سخت ترین سزا دی جانی چاہیے کیونکہ یہ لوگ اجناس اور اشیائے ضروریہ کے کنٹرول اور اسے چلانے کے پورے نظام کو درہم برہم کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں احتیاج اور بھوک پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات تو صورتحال موت تک پہنچ جاتی ہے۔
جو اگلی بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے، یہاں جو صورتحال بھی ہے وہ کئی دوسری اچھی اور بری دونوں طرح کی چیزوں کے ساتھ ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ یہ بدترین برائیاں اقرباء پروری اور مفاد پرستی ہیں۔ میں یہ بات بالکل واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں کسی قسم کی مفاد پرستی، اقرباء پروری یا خود پر اثرانداز ہونے کی کوئی بلاواسطہ یا بلواسطہ کوشش ہرگز ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ جب بھی میرے علم میں یہ بات آئی کہ یہ برائی کہیں جاری ہے یا پھیل رہی ہے تو میں کوئی بڑا چھوٹا دیکھے بغیر اسے ہرگز معاف نہیں کروں گا۔''
قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان سے رشوت اور کرپشن کو ختم کردیا جائے۔ ملک کے اندر امن و امان ہر قیمت پر بحال رہے۔ وہ چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی کے سخت خلاف تھے اور اس کا خاتمہ چاہتے تھے۔ 75 سال گزرچکے ہیں۔ ان مسائل کے حوالے سے انتہائی مایوس کن صورتحال ہے۔ رشوت، بدعنوانی، چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی اپنے عروج پر ہے۔ ملک سخت معاشی مسائل کا شکار ہے لیکن لوگ ذخیرہ اندوزی کر کے دولت کما رہے ہیں۔ آٹا، گندم، چینی ہر چیز گوداموں میں ذخیرہ کرکے عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔
ایک ہی چیز کی قیمت ہر علاقے میں مختلف ہے۔ رمضان کے مہینے میں منافع خوری اپنے عروج پر تھی۔ گویا قائداعظم کے یہ خواب بھی پورے نہ ہوسکے۔ یہ خرابیاں ختم ہونے کے بجائے اپنے عروج پر جا پہنچی ہیں۔ اب تجزیہ کرتے ہیں کہ اپنی اس تاریخی تقریر میں بانی پاکستان نے اور کیا خواب دیکھے تھے۔ (جاری ہے)
مزید برآں، اس میں اقلیتوں کی آزادی کی جو بات کی گئی ہے، اس کا مقصد آزاد ہونے والے ہندوستان کو یہ پیغام دینا تھا کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں، لہٰذا ہندوستان میں مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ اس تقریر کا عموماً ایک حصہ ہی سامنے آتا ہے۔ درست تجزیے کے لیے پوری تقریرکا مطالعہ ضروری ہے، تاکہ پوری طرح سے یہ جانا جاسکے کہ قائداعظم کے ذہن میں کس طرح کے ایک آزاد ملک کا تصور تھا۔ ان کی توقعات کیا تھیں اور ان کے ذہن میں کیا خدشات تھے۔
اس تقریر میں انھوں نے کہا تھا '' میں خلوص دل کے ساتھ یہ امیدکرتا ہوں کہ آپ کی مدد اور تعاون کے ساتھ ہم اس آئین ساز اسمبلی کو دنیا کے لیے ایک مثال بنائیں گے۔ آئین ساز اسمبلی کو دو اہم فریضے سر انجام دینے ہیں۔ پہلا انتہائی کٹھن اور ذمے دارانہ کام پاکستان کا مستقبل کا آئین بنانا اور دوسرا پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کی حیثیت سے مکمل خود مختاری کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی ہے۔ ہمیں اپنی بہترین کاوشیں پاکستانی مقننہ کے لیے ایک عبوری آئین اپنانے کے لیے صَرف کرنی ہوں گی۔
آپ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ نہ صرف ہم خود بلکہ میرے خیال میں تو ساری دنیا ہی اس بے مثال طوفانی انقلاب پر حیرت زدہ ہے جس کے نتیجے میں برصغیر میں دو آزاد اور خود مختار ریاستیں وجود میں آئی ہیں۔ امر واقعہ ہے کہ ایسی کوئی مثال یا دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر اس سے پہلے موجود نہیں۔
اس عظیم برصغیر میں جہاں ہر نوع کے لوگ بستے ہیں ایک ایسا منصوبہ نافذ کیا گیا ہے جو عظیم الشان، انجانا اور بے مثل ہے اور اس حوالے سے اہم ترین امر یہ ہے کہ ہم نے اسے پر امن طریقے سے عظیم نوعیت کے ارتقائی عمل کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ ان کی پہلی خواہش یہ تھی کہ آئین ساز اسمبلی کو دنیا کے لیے ایک مثال بنا دیا جائے۔ انھیں امید تھی کہ آئین ساز اسمبلی بلا وقت ضایع کیے ملک کے لیے ایک آئین بنالے گی اور پاکستان کا یہ قانون ساز ادارہ یعنی پارلیمنٹ مکمل طور پر خود مختار ہوکر اپنے فرائض ادا کرے گی۔
آج کے پاکستان کا جائزہ لیں تو اصل حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ قائداعظم کے یہ بنیادی اور اہم خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے۔ ملک 1947میں آزاد ہوا لیکن بڑی مشکل سے 1956 میں ایک آئین بن سکا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور 1958 میں مارشل لاء نافذ کر کے اس آئین کا خاتمہ کردیا گیا۔
1973 میں موجودہ پاکستان کے لیے ایک آئین بنایا گیا جسے پہلے جنرل ضیاء الحق اور بعدازاں جنرل پرویز مشرف نے معطل کردیا اور منتخب پارلیمان کو تحلیل کردیا۔ آج بھی یہ صورتحال ہے کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری اور بالا دستی کو قبول کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ گویا قائداعظم نے جو کچھ آج سے پون صدی پہلے چاہا تھا وہ اب تک پورا نہیں ہوسکا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی اس تقریر میں قائداعظم نے مزید کیا کہا تھا۔ وہ کہتے ہیں '' اس اسمبلی میں اپنے پہلے فریضے کے بارے میں اس وقت میں کوئی بہت گہری بات نہیں کرسکتا لیکن میں ان چند چیزوں کے بارے میں ضرور بات کرنا چاہوں گا جو میری سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی اور نہایت اہم بات جس پر میں زور دینا چاہوں گا یہ ہے۔
یاد رکھیے کہ اب آپ ایک خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو سارے اختیارات حاصل ہیں۔ اس کے نتیجے میں آپ پر بہت بھاری ذمے داری عائد ہوجاتی ہے کہ آپ کسی طریقے سے فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ اپنے مشاہدے پر مبنی جو پہلی بات میں کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے، مجھے کوئی شبہ نہیں کہ آپ لوگ اس بات پر مجھ سے متفق ہونگے کہ کسی بھی حکومت کی پہلی ذمے داری قانون اور امن عامہ قائم کرنا ہے تاکہ ریاست شہریوں کی زندگی، املاک اور مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔
جو دوسرا خیال مجھے آتا ہے وہ یہ ہے، ہندوستان جن بڑی لعنتوں میں گرفتار تھا ان میں سے ایک ، میں یہ نہیں کہتا کہ باقی ممالک اس سے پاک ہیں، لیکن میرے خیال میں ہماری صورتحال بدترین ہے۔ رشوت اورکرپشن ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک زہر ہیں۔ ہمیں لازماً ان چیزوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا اور مجھے امید ہے کہ آپ لوگ اس حوالے سے مناسب اقدامات اٹھائیں گے اور یہ اسمبلی اس حوالے سے ممکنہ تیزی کے ساتھ کام کرے گی۔
چور بازاری ایک اور لعنت ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ چور بازاری کرنے والے اکثر پکڑے جاتے اور سزا پاتے ہیں۔ بعض اوقات انھیں عدالت سے سزا ملتی ہے اور بعض اوقات انھیں جرمانے کیے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس عفریت سے نمٹنا ہے، جو آج ایک مہیب سماجی برائی بن چکی ہے، خاص طور پر ان حالات میں جب ہمیں مستقل طور پر کھانے پینے اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہے۔ وہ شہری جو چور بازاری کا مرتکب ہوتا ہے، میرے خیال میں، بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ سنگین اور بدترین جرم کر رہا ہوتا ہے۔
چور بازاری کرنے والے اشخاص حقیقی معنوں میں باخبر، ذہین اور عموماً ذمے دار لوگ ہوتے ہیں اور جب وہ چور بازاری کے دھندے میں ملوث ہوں تو میرے خیال میں انھیں سخت ترین سزا دی جانی چاہیے کیونکہ یہ لوگ اجناس اور اشیائے ضروریہ کے کنٹرول اور اسے چلانے کے پورے نظام کو درہم برہم کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں احتیاج اور بھوک پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات تو صورتحال موت تک پہنچ جاتی ہے۔
جو اگلی بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے، یہاں جو صورتحال بھی ہے وہ کئی دوسری اچھی اور بری دونوں طرح کی چیزوں کے ساتھ ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ یہ بدترین برائیاں اقرباء پروری اور مفاد پرستی ہیں۔ میں یہ بات بالکل واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں کسی قسم کی مفاد پرستی، اقرباء پروری یا خود پر اثرانداز ہونے کی کوئی بلاواسطہ یا بلواسطہ کوشش ہرگز ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ جب بھی میرے علم میں یہ بات آئی کہ یہ برائی کہیں جاری ہے یا پھیل رہی ہے تو میں کوئی بڑا چھوٹا دیکھے بغیر اسے ہرگز معاف نہیں کروں گا۔''
قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان سے رشوت اور کرپشن کو ختم کردیا جائے۔ ملک کے اندر امن و امان ہر قیمت پر بحال رہے۔ وہ چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی کے سخت خلاف تھے اور اس کا خاتمہ چاہتے تھے۔ 75 سال گزرچکے ہیں۔ ان مسائل کے حوالے سے انتہائی مایوس کن صورتحال ہے۔ رشوت، بدعنوانی، چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی اپنے عروج پر ہے۔ ملک سخت معاشی مسائل کا شکار ہے لیکن لوگ ذخیرہ اندوزی کر کے دولت کما رہے ہیں۔ آٹا، گندم، چینی ہر چیز گوداموں میں ذخیرہ کرکے عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔
ایک ہی چیز کی قیمت ہر علاقے میں مختلف ہے۔ رمضان کے مہینے میں منافع خوری اپنے عروج پر تھی۔ گویا قائداعظم کے یہ خواب بھی پورے نہ ہوسکے۔ یہ خرابیاں ختم ہونے کے بجائے اپنے عروج پر جا پہنچی ہیں۔ اب تجزیہ کرتے ہیں کہ اپنی اس تاریخی تقریر میں بانی پاکستان نے اور کیا خواب دیکھے تھے۔ (جاری ہے)