قصور نعمتوں کا نہیں بلکہ ہمارا ہے

ہمیں سوچنا تو گا کہ یہ اختیارات کو استعمال کرنے کی آزادی شاید اُس وقت تک ہے جب تک حساب و کتاب کا آغاز نہیں ہوجاتا

ہمیں سوچنا تو گا کہ یہ اختیارات کو استعمال کرنے کی آزادی شاید اُس وقت تک ہے جب تک حساب و کتاب کا آغاز نہیں ہوجاتا - فوٹو فائل

ہم اپنے رب کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے کہ اُس نے اُس اپنی بے شمار نعمتوں کے ساتھ ایک عدد زبان سے بھی نوازا ہے ۔ ہم اپنے رب کی نعمتوںکا تو ذکر بھی کرتے ہیں اور اُس پر شکر بھی ادا کرتے ہیں۔ مگر اِس نعمت کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کو ہم ہمیشہ نظر انداز کرتے ہیں۔ جس کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ہم نے کبھی اِسے سمجھا ہی نہیں یا پھر اِس نعمت کو اہمیت ہی نہیں دی ۔

جس طرح بنا پیٹرول کے موٹرسائیکل، بغیر بجلی کے پنکھے یا پھر بغیر بیلنس کے موبائل ناکارہ تصور کیے جاتے ہیں بالکل اسی طرح ہماری یہ زبان بھی ناکارہ ہی تصور کی جاتی اگر ہمارا رب ہمیں اس کو استعمال کرنے کا حق نہیں دیتا۔یا پھر دیگر نعتوں سے مستفید ہونے کے اختیارات نہیں دیتا۔ بس یہی وہ اختیارہے جس کا میں اور آپ بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور جب بھی کوئی جذبات ہمارے اندر انگڑائی لے تو فوراً سے اس کو الفاظ کی شکل میں تبدیل کرلیں۔

میرا تو جب دل چاہتا ہے کہ مذہب کے بارے میں لب کشائی کرلیتا ہوں۔ جب سمجھا یہ ملک صحیح سمت میں نہیں چل رہا تو اس کے بارے میں وہ کچھ کہہ دیا جس کا امکان صرف اور صرف دشمن کی زبان سے کیا جاسکتا ہے۔ جب میں نے سمجھا کہ حکومت اپنا کام سہی طریقہ سے کام نہیں کررہی تو فوج کو دعوت دے دی کہ بھائی آپ ہی آجائیں شاید کچھ بہتری آجائے۔ اس بات کو سوچے سمجھے بغیر کے آئین اور قانون اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔ میرا دل چاہا تو کسی کو بھی غدار، ملک دشمن، کرپٹ، شدت پسند بنادوں ۔ اور ایسا کیوں نہ کروں۔ آخر کار مجھے قدرت نے اِس بات کا اختیار دیا ہے کہ چھوٹے سے گوشت کے لوتھڑے کو جب چاہے جیسے چاہے استعمال کرسکوں۔


اور یہ اختیار صرف میں اور آپ ہی استعمال نہیں کرتے۔ بلکہ معاشرے کا ہر وہ فرد بھی کرتا ہے جس کے پاس کسی نہ کسی حد تک اختیارات ہیں۔اس بات کو سمجھانے کے لیے تو میرے پاس اس وقت ایک ہی مثال ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ بات کو بہت اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔حسب معمول آج بھی ٹی وی دیکھ رہا تھا تو دو اس قدر حیرت انگیز خبریں میری نظر سے گزریں کہ تھوڑی دیر کے لیے تو حیران و پریشان ہوااور پھر مسکرادیا کہ ارے یار آخر سب اختیارات کا کھیل ہے۔ خبر کچھ یوں تھی کہ لاہور میں پولیس نے 15 ماہ کے بچے پر وال چاکنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کیس دائر کردیا ۔ اور اب عدالت اُس شیر خوار بچے پر مقدمہ کی سماعت کرے گی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے جب لاہور کی پولیس نے 9 ماہ کے بچے پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا اور عدالت میں متعدد سماعتوں کے بعد اِس کیس کو خارج کردیا گیا۔یہ تو عدالت کی نوازش ہے کہ کیس جلدی ختم کردیا وگرنہ بچپن سے جوانی تک کا سفر اُس بچے کا عدالتوں کی سیر کرتے ہی گزرجاتا۔ اور پھربھلا ایسا ہوسکتا ہے کہ لاہور کی پولیس اس قدر چابک دستی کا مظاہرہ کرے اور کراچی پولیس خاموش ہوجائے۔ نہیں بھائی نہیں ۔

لاہور میں تو محض دو بچوں پر مقدمات عائد کیے گئے ہیں لیکن جناب اعلی کراچی میں تو پولیس نے 6 ماہ سے لیکر 6 سال تک کے 10 بچوں پر سنگین مقدمات کے کیسز دائرکردیے اور اب آپ اور میں یقینی طور پر رات کو سکون کی نیند سے بھی لطف اندوز ہونگے بالاخر شہر کو بڑے دہشتگردوں کی کارروائیوں سے بچالیا۔ باقی جو باہر ہے وہ تو سڑکوں پر مارٹل کامبیٹ کھیل رہے ہیں آپ اور مجھے اُن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

لیکن ہمیں سوچنا تو گا کہ جناب یہ اختیارات کو استعمال کرنے کی آزادی شاید اُس وقت تک ہے جب تک حساب و کتاب کا آغاز نہیں ہوجاتا۔ میں اور آپ بھی آزاد ہیں کہ جس کے بارے میں جو دل چاہے لب کشائی کردیں چاہے تو درست ہو یا غلط۔ حکمراں بھی آزاد ہیں کہ جن جن طریقوں سے رعایا کو خون نچوڑ سکتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی آزاد ہیں کہ جب تک چاہیں نومولود بچوں کو گرفتار کریں۔ بس یہی وجہ ہے کہ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ قصور رب کی جانب سے نوازے گئے اختیارات کا نہیں بلکہ ہمارا ہے جو اِس کا غلط استعمال کررہے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story