آبادی کا ٹائم بم

ویلفیئر اسٹیٹ کا مرتبہ ایسے ہی نہیں مل جاتا اس کے لیے کم آبادی اور بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہوئی ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

آبادی کا ٹائم بم آخر کار پھٹ گیا۔ 2017میں پاکستان کی آبادی 20کروڑ تھی اب اس میں 5کروڑ کا مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

1980 کی دہائی کے آخر میں پاکستان کی آبادی صرف 10کروڑ تھی۔ جو تازہ ترین مردم شماری کے مطابق 25کروڑ ہو گئی ہے۔ یعنی ایک نہ دو پورے 15کروڑ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ آبادی میں اضافہ چھلانگیں لگا رہا ہے اوپر سے وسائل ناپید ہو رہے ہیں اتنی بڑی آبادی کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ پاکستان میں آبادی میں اضافہ دنیا سے دگنا ہے۔

پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ جس تناسب سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ایک وقت آئے گا کہ پاکستان انڈونیشیاء کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا چوتھا گنجان آباد ملک بن جائے گا۔ کسی اور معاملے میں تو ہم نے کیا خاک ترقی کرنی تھی جب سے پاکستان بنا ہے مستقل مزاجی سے ہم آبادی میں مسلسل ترقی کر رہے ہیں۔

جب کہ ملکی معیشت کی شرح نمو گرتے گرتے مائنس 0.3 پر پہنچ چکی شایع شدہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق۔ آبادی میں یہ ہوش ربا اضافہ ملکی وسائل پر مزید دباؤ کا باعث بن رہا ہے۔ پہلے ہی ملک کی غذائی ضروریات مقامی پیداوار سے پوری نہیں ہو پا رہیں۔

چنانچہ موجودہ مالی سال کے دوران جب کہ ہم ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں 30ارب روپے کی خطیر رقم زرمبادلہ کی شکل میں گندم در آمد کرنا پڑی۔ صرف اس پر بس نہیں دالیں، خوردنی تیل چائے وغیرہ پر ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود کثیر زرمبادلہ صرف ہو رہا ہے ۔بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے بجلی اور گیس کی فراہمی ہر گزرتے دن مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

اس بات پر بڑا فخر کیا جاتا ہے کہ ہماری آبادی کا 70فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کے لیے روزگار کی فراہمی تو ایک طرف رہی اب تو روزگار ہی ناپید ہو رہا ہے۔ حالانکہ نوجوانوں کی یہ کثیر تعداد پاکستانی معیشت کے لیے فائدہ مند ہو سکتی تھی۔ چنانچہ یہ نوجوان غربت اور بھوک کے ہاتھوں جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہو کر امن و امان کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔

2کروڑ سے زائد تعلیم سے محروم بچے سڑکوں گلیوں میں آوارہ پھر رہے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ 20لاکھ بچے فاقوں کا شکار ہوتے ہیں اور 80 فیصدبچے ناکافی غذائیت کا شکار یعنی پیدائش سے لے کر جوانی تک انھیں جو مناسب خوراک ملنی چاہیے جس میں دودھ انڈا گوشت اہم ترین ہیں نہ ملنے سے ان کا قد مسلسل کم ہو رہا ہے یعنی کیا ہماری آیندہ نسل بونوں پر مشتمل ہوگی چاہے یہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ناکافی خوراک خاص طور پر لڑکیوں کی صحت پر انتہائی منفی اثر ڈالے گی۔


مستقبل میں ماں اور بچے کی صحت پر ۔ خون کی کمی اس میں سرفہرست ہے۔ کیا پاکستان کا مستقبل کند ذہن بچے ہونگے۔ انھوں نے عالمی سطح پر کیا مقابلہ کرنا یہ تو خود ملک کے اندر مراعات یافتہ طبقوں کے بچوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

2018کے آبادی و صحت کے سروے کے مطابق ہر پاکستانی عورت 3.6بچوں کو جنم دے رہی ہے یہ صورتحال بتاتی ہے کہ آبادی پر قابو پانے کی کوششیںاور حکومتی منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔ عام انتخابات میں حلقہ بندیاں ہر دس برس بعد ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر کی جاتی ہیں وقت پر مردم شماری نہ ہو سکے تو انتخابات کی قانونی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیاء میں آبادی میں اضافے کے لحاظ سے سب سے آگے ہے۔

دوسری طرف معاشی وسائل اور قومی ترقی کے اعتبار سے پاکستان بھوٹان اور مالدیپ سے بھی نیچے آ چکا ہے۔ جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے خطرہ ہے کہ ملک سنگین نوعیت کے مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔ جس میں غربت بے روزگاری آبادی کی کثیر تعداد کے لیے صاف پینے کا پانی میسر نہ آنا شامل ہے۔ ہر طرح کی سہولتوں سے محروم کچی آبادیاں خود رو کھمبیوں کی طرح وجود میں آرہی ہیں۔

ہومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان 192 ممالک میں سے 161ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان جینڈر گیپ انڈیکس میں بھی سب سے نیچے ہے۔

انڈونیشیاء بنگلہ دیش جیسے بڑی آبادی کے ممالک اپنی آبادی پر بڑی کامیابی سے کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ نتیجے میں انڈونیشیاء تو جی 20 کا ممبر بھی بن چکا ہے۔ اس کے لیے دونوں ملکوں نے جمعہ کے خطبوں میں علماء اکرام کی مدد حاصل کی۔ یہی طریقہ مشرقی وسطی اور خلیجی ریاستوں میں بھی بہت موثر طریقے سے استعمال کیا گیا۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آبادی میں اضافہ ہی کسی ملک کی ترقی کا باعث ہوتا تو سب سے پہلے امریکا یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی آبادیاں سب سے زیادہ ہوتیں۔ وہاں تو اس کا الٹ ہو رہا ہے کہ وہاں آبادی زیرو تو کیا مائنس پر آگئی ہے۔ وہاں حکومتیں شادی شدہ جوڑوں کو بھاری مالی مراعات دے رہی ہیں کہ وہ بچے پیدا کریں۔

ویلفیئر اسٹیٹ کا مرتبہ ایسے ہی نہیں مل جاتا اس کے لیے کم آبادی اور بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہوئی ہے۔اعلیٰ ٹیکنالوجیکل تعلیم اعلیٰ سائنسی تحقیقی ادارے اور بہترین لیبارٹریوں کے ذریعے ہی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔
Load Next Story