روس یوکرین تنازع عالمی امن کے لیے خطرہ

ہم اس وقت جو کچھ دیکھ رہے ہیں (روس کا یوکرین پر حملہ) دراصل پرانے تنازعات کے اسی سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے

ہم اس وقت جو کچھ دیکھ رہے ہیں (روس کا یوکرین پر حملہ) دراصل پرانے تنازعات کے اسی سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے۔ فوٹو: فائل

روس کے یوکرین پر ڈرون حملے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، دوسری جانب یوکرینی فوج کا دعویٰ سامنے آیا ہے کہ روس کے 59 میں سے 58 طیارے مار گرائے گئے۔

روس کے ڈپٹی وزیر خارجہ نے کہا ہے اگر کیف دوبارہ نیوٹرل اسٹیٹس اپنانے اور نئی علاقائی حقیقتوں کو تسلیم کرنے کو تیار ہو، تو تنازع کو حل کیا جاسکتا ہے جب کہ یوکرینی صدر ولادیمرزی لنسکی نے روسی شرائط کو مسترد کرتے ہوئے روسی فوج سے یوکرینی علاقے خالی کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

روس،یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو سوا برس کا عرصہ ہو چلا ہے، اس بات کے خدشات اپنی جگہ موجود کہ دنیا کی دو بڑی طاقتیں بھڑ نہ جائیں کیونکہ ہر کسی کو احساس ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو دنیا ایک بڑے جنگی بحران کا شکار ہو جائے گی۔

ایک جانب سوال ہے یوکرین کے وجود کا اور دوسری جانب مسئلہ ہے روس کے لیے یوکرین کے نام پر مغربی طاقتوں کے اس کی دہلیز تک پہنچ جانے کا، جس نے ماحول کو گرم کردیا ہے، یوکرین کے معاملے پر روس اور مغربی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے۔

تاریخی پس منظر پر بات کی جائے تو سوویت یونین میں شامل ہونے سے قبل یوکرین روسی سلطنت کا حصہ تھا۔

1991 میں سوویت یونین کے خاتمہ ہوا تو یوکرین سمیت 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیں، لیکن یوکرین کو علیحدہ ملک کے طور پر تسلیم کرنا کئی تاریخی اسباب سے روس کے لیے مشکل رہا ہے۔ گو کہ امریکا اس وقت بھی واحد گلوبل ملٹری پاور ہے اور چین کے ساتھ اقتصادی میدان میں اس کی مسابقت ہے، یہ تو طے ہے کہ دنیا اس وقت غیر یقینی اور انارکی کے دور سے گزر رہی ہے۔

گزشتہ برس اپنے ایک انٹرویو میں پوتن نے کہا تھا کہ سوویت یونین کا خاتمہ '' تاریخی روس'' کا خاتمہ تھا جو ایک ہزار سال میں تعمیر ہونے والا ورثہ تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پوتن اپنی سیاسی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے یوکرین کو اپنے ''نامکمل ایجنڈے'' کے طور پر ظاہر کرتے ہیں کیوں کہ کریمیا پر قابض ہونے کے بعد روس میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا۔

مغربی ممالک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ دنیا کا نظام اصولوں پر قائم ہے اور ان قوانین میں تبدیلی کے واضح آثار اب موجود ہیں، ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے ساتھ دینے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

مغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یورپ پر حملہ بلکہ جمہوری دنیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتیں، یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کی مذمت کریں، لیکن ہندوستان اور چین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی روس اور یوکرین کی جنگ کو پوری دنیا کے لیے درد سر نہیں سمجھتے۔ یہ ممالک بڑی حد تک اس جنگ کو یورپ کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

یورپ اور امریکا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور چین کا روسی صدر پیوتن کو جنگ کے لیے جوابدہ ٹھہرانے سے انکار موجودہ قوانین پر مبنی عالمی نظام کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک نے یوکرین کی جنگ کے حوالے سے انتہائی سوچ سمجھ کر غیر جانبداری کا راستہ چنا ہے، جو بین الاقوامی قوانین اور استحکام کے بجائے ان کے اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے اور غیر مغربی ممالک کا یہ رویہ بالآخر روس کے لیے فائدہ مند ثابت ہورہا ہے۔

معاشی محاذ پر روس کو بھارت اور سعودی عرب جیسے ممالک کی طرف سے چلائی جا رہی سیاست سے فائدہ ہورہا ہے' امریکی اسکالر جان ایکن بیری کا دعویٰ ہے کہ امریکا کی زیر قیادت موجودہ عالمی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے۔

ایکن بیری کہتے ہیں کہ '' موجودہ ورلڈ آرڈر دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے میں امریکا نے بنایا تھا۔ پچھلے 70 سال سے یہ ورلڈ آرڈر مغرب کے مرکز میں لبرل انٹرنیشنل آرڈر کی رہنمائی کررہا ہے، یہ قواعد و ضوابط اور کثیر الجہتی تعاون کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔''


اس وقت دنیا کا مواصلاتی نظام پانچ امریکی کمپنیوں کے کنٹرول میں ہے۔ آج یوکرین کی جنگ واقعی کون لڑرہا ہے؟ ایلون مسک کا اسٹار لنک سیٹلائٹ یوکرین جنگ میں سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ یہ امریکیوں کی تکنیکی ترقی ہے جس کی وجہ سے امریکا نے اپنے پرائیوٹ سیکٹر کے ذریعہ جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں، اتنی ہی حکومتی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کی ہیں۔

اصل ترتیب جو اب ابھر رہی ہے وہ یوریشین ورلڈ آرڈر ہے اگر آپ اس میں روس اور چین کے زمینی علاقوں کو شامل کریں جو اس صدی کے وقت سب سے اہم شراکت دار بن رہے ہیں، تو یہ زمینی علاقہ پولینڈ کی سرحد سے ہندوستان تک پھیلا ہوا ہے، یہ نیا ورلڈ آرڈر ہے اس ورلڈ آرڈر میں آپ مشرق وسطیٰ کے اتحادی ممالک کے ساتھ ایران اور شام کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔

روس یوکرین جنگ کے دوران متعدد بار عالمی اسٹڈی مراکز اپنی رپورٹوں میں یہ اشارے دے چکے ہیں کہ روس موجودہ عالمی نظام کو ہدف بنارہا ہے۔ امریکی اداروں نے بھی متعدد مرتبہ اشاروں میں ظاہر کیا ہے کہ روس ایک نئے عالمی نظام کی جانب بڑھنے کے لیے سرگرم ہے، جس نظام میں امریکا کی اجارہ داری نہیں ہوگی۔

عالمی معیشت پر کنٹرول' دنیا کے مختلف ممالک کی کرنسی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ اور سیاسی حوالے سے دنیا کے تنازعات کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق حل کرنے جیسے امور روس کا ہدف ہیں۔

میڈیا میں متعدد مرتبہ اس نوعیت کی تفصیلی رپورٹیں شایع ہوچکی ہیں تاہم برطانوی نشریاتی ادارے نے بھی اپنی رپورٹ میں انھیں پیش گوئیوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کا دوسرا سال شروع چل رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کردیا ہے۔

مشرق وسطیٰ' مشرقی ایشیاء اور یہاں تک کہ مغربی یورپ میں دیرینہ علاقائی نظام یا تو تبدیلی سے گزر رہے ہیں، یا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہے ہیں' یوکرین میں جنگ شروع ہونے سے بہت پہلے موجودہ عالمی نظام کو چین جیسی ابھرتی ہوئی عالمی طاقتیں چیلنج کررہی تھیں اور بھارت جیسے ممالک یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ابھرتی ہوئی طاقتوں کو اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں میں نمایندگی کیوں نہیں دی جانی چاہیے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی نظام کا یہ بحران ابھرتے ہوئے ممالک کے لیے نئے مواقعے پیدا کرے گا۔ خاص طور پر چین، ہندوستان اور دیگر غیر مغربی ترقی پذیر ممالک عالمی نظام کو نئی شکل دینے کے قابل ہوجائیں گے، ان مالک میں نئے ورلڈ آرڈرکا مطالبہ کرنے والی آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں۔

خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے اندازہ ہونے لگا ہے کہ دنیا تیزی سے ایک نئے عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کیا ابھرتے ہوئے ممالک ایک نیا ورلڈ آرڈر بنانے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے قوانین اور اداروں کی اصلاح اور تنظیم نو کی کوشش کر رہے ہیں؟ یا وہ موجودہ ورلڈ آرڈر کی طاقت میں حصہ لینے کی کوشش کررہے ہیں؟

اس بابت بعض عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ ورلڈ آرڈر کہتے ہیں تو کوئی ایک ورلڈ آرڈر کامل ورلڈ آرڈر نہیں ہے، ہر ورلڈ آرڈر ایک جزوی ورلڈ آرڈر ہے۔ دنیا کے موجودہ اصول و ضوابط کا فیصلہ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین نے کیا تھا ، مغرب بھی اپنے اندر کبھی متحد نہیں رہا، آخر روس بھی مغرب کا حصہ ہے' پورا یورپ موجودہ ورلڈ آرڈر میں کبھی شامل نہیں تھا۔ یہ ایک جزوی ورلڈ آرڈر تھا اور جوں کا توں رہے گا۔

ہم اس وقت جو کچھ دیکھ رہے ہیں (روس کا یوکرین پر حملہ) دراصل پرانے تنازعات کے اسی سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے ، سرد جنگ دراصل تیسری عالمی جنگ کا آغاز تھی، اسے تیسری جنگ کا نام دیا گیا کیوں کہ یورپ نے اس میں کبھی جنگ نہیں لڑی لیکن یہ جنگ ویت نام میں بہت لڑی گئی۔

افریقہ اور لاطینی امریکا بھی میدان جنگ بن گئے اور اب جنگ یورپ میں واپسی آگئی ہے' ہانگ کانگ اور کوالا لمپور میں مقیم ایک آزاد ایشیائی تھنک ٹینک گلوبل انسٹی ٹیوٹ فار ٹومارو کے بانی اور سی ای او چندرن نائر کہتے ہیں''یہ ایک اہم موڑ نہیں ہے' یہ ایک غیر ضروری جنگ ہے'' لیکن جب آپ اس کا موازنہ عراق یا افغانستان پر مسلط کی گئی جنگوں سے کریں تو یہ بہت چھوٹی جنگ ہے، اس بات کو آپ ان جنگوں میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد سے سمجھ سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ موجودہ نظام نہ تو بین الاقوامی ہے اور نہ ہی منظم ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین کے لیے بنایا گیا امریکا پر مبنی نظام تھا۔

ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ امریکا اور مغربی دنیا کے راڈار سے اب سیاسی اسلام غائب ہوچکا ہے، اور اس کی ترجیحات اب روس کو شکنجہ میں کسنا اور ایشیا پیسیفک میں چین کے اثرات کو کم کرنا ہے۔
Load Next Story